پاکستانی سفیر کی طلبی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بلاشبہ دین اسلام کی تبلیغ میں ختم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا بنیادی کردار ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ذاتی دشمنوں نیزطعنے اورگالیاں دینے والوں کو تو بخش دیتے تھے لیکن مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے مجرمین پر حد جاری کرتے تھے۔مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے متعدد موقعوں پراپنے ذاتی دشمنوں سے تو درگزرکیا لیکن چوری کرنے والی قریشی عورت کو سزادی۔چنانچہ سیرت النبی کا ایک روشن درس یہ ہے کہ ذاتی معاملات میں ممکنہ حد تک عفو و در گزر سے کام لیاجائے لیکن اجتماعی اور قومی معاملات میں قانون کا اجرا کیا جائے۔

پاکستان میں یوں تو لاقانونیت کی بھرمار ہے لیکن ایک انتہائی افسوسناک واقعہ اس روز پیش آیا جب6 فروری 2014ء کو صوبۂ سیستان و بلوچستان کے علاقے جکیگور سے دہشت گرد گروہ جیش العدل نے پانچ ایرانی سرحدی محافظوں کو اغوا کرلیاتھا۔بعد ازاں چند ہی دنوں میں پانچ میں سے ایک محافظ کو موت کے گھاٹ بھی اتاردیاگیا۔جس پر حکومت ایران نے تہران میں پاکستانی سفیر نورمحمد جادمانی کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے ان سے اس واقعہ پر شدید احتجاج اور اغوا ہونیوالے محافظوں کو بازیاب کرانے کیلئے اقدامات کا مطالبہ کیا۔اسی روز ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف نے سرکاری ٹیلیویژن کو بتایاکہ پاکستانی حکومت اپنی سرحدوں کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے جو افسوسناک امر ہے۔ ہم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے سرحدی محافظوں کی بازیابی کیلئے سخت اور سنجیدہ اقدامات کرے ۔بات صرف یہیں تک نہیں رہی بلکہ ایرانی صدر نے وزیراعظم پاکستان کوفون کرکے کہا کہ ہمیں امید ہے پاکستان ایرانی بارڈر گارڈز کی بازیابی کیلئے اقدامات کریگا اور ایران سرحدوں کی حفاظت کیلئے پاکستان کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنے کو تیار ہے ۔

دوسری طرف ہمارے سرکاری ادارے پاکستانیوں کی طرح ایرانیوں کو بھی بیوقوف بنانے لگ گئے اور کھسیانے لہجے میں یہ کہا جانے لگا کہ "پاکستان کو اپنی تحقیقات میں لاپتہ ایرانی سرحدی محافظوں کے پاکستان میں داخل ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے"۔یہ بات تو ہم پاکستانی بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے سرکاری اداروں کو شواہد تو ملتے ہی نہیں ہیں لیکن اغواشدہ افراد کا تعلق چونکہ ایکدوسرے ملک سے تھا اسلئے نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری سرکارکو شواہد ڈھونڈنے پڑے۔

ادھراقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی جب ایک ایرانی سرحدی محافظ کے قتل کی مذمت کردی تو رنگ میں بھنگ ڈالنا تو ہمارے میڈیا سے کوئی سیکھے۔کوئی کہہ رہا تھا کہ اب تو ایران نے بھی ہمیں دھمکیاں دینی شروع کردی ہیں اور کسی کا کہنا تھا کہ بغیر کسی ثبوت کے پاکستانی سفیر کو طلب کیاگیاہے۔راقم الحروف کو یقین ہے کہ اگر یہ اغوا شدگان پاکستانی ہوتے تو خواہ کسی وزیر یامشیر کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوتے ان کے اغوا کے ثبوت کسی کو ملنےہی نہیں تھے۔البتہ چونکہ خوش قسمتی سے پاکستانی نہیں تھے اس لئے آج تقریباً دو ماہ اور چند دن کے بعد یہ خبر منظر عام پر آہی گئی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے رکن اسماعیل کوثری نے تسنیم نیوز کو بتایا ہے کہ اغوا شدہ چارجوان اور ایک جوان کی لاش آج پاکستان میں ایران کے رابط کے سپرد کردی گئی ہے۔

تقریباً دومہینوں پر مشتمل یہ واقعہ ہمیں بحیثیت قوم تین پیغام دیتاہے، اول یہ کہ اگر ہمارے حکمرانوں کے نزدیک بھی پاکستانیوں کی جان و مال اسی طرح عزیز ہو تو کوئی دہشت گرد ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔دوم یہ کہ دہشت گردی ایک انفرادی نہیں بلکہ قومی اور اجتماعی مسئلہ ہے لہذا ہمیں دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوکرقانونی کاروائی کرنی چاہیے اور سوم یہ کہ جس ملک کے سرکاری ادارے اپنی عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لئے بے چین ہوں اس ملک کی عوام کو کسی دفتر کا چپراسی رسوا نہیں کرسکتا، کسی ادارے کا کلرک زچ نہیں کرسکتا اور کسی ٹولے کا دہشت گرد ہراساں نہیں کرسکتا۔

آخر میں ہماری دعاہے کہ خدا ہمارے وطن عزیز کو بھی صالح اور عوام دوست حکمران عطاکرے۔
nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 74828 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.