چاہ ِ یوسف سے صدا

تندور والا حیران اور پریشان تھا۔ایک ایسا گھر جس میں صرف تین شخص رہائش پذیر تھے۔اسی گھر میں اس کے تندور سے صبح وشام ستر ستر روٹیاں جایا کرتیں۔تندورچی روٹیاں پکا پکا کے تھک جاتا لیکن اس گھر کے تین رہائشیوں کی بھوک کم نہ ہوتی۔اتفاقاََ اس کا ایک گرائیں اسے ملنے آ گیا۔ گرائیں کسی حساس ادارے کا ملازم تھا۔اس نے ایک لطیفے کے طور پہ اسے یہ واقعہ سنایا۔ملازم نے یہ واقعہ سنا تو اس کی بنیادی تربیت کی وجہ سے اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ اس نے اپنے علاقے میں جا کے اپنے افسر اعلیٰ کو اس بات کی خبر دی۔ افسر نے فوراََ ہی متعلقہ علاقے کے لوگوں کو اس کی اطلاع دی۔چھاپہ مارا گیا تو گھر سے تیس ا ٓدمی گرفتار ہوئے۔جن میں سے پانچ پولیس کو دہشت گردی کے معاملات میں مطلوب تھے۔سب گرفتار ہوئے۔عدالت میں پیش کئے گئے اور عدم ثبوت کی بناء پہ بری ہو گئے۔ بریت کے بعد انہوں نے ایک بڑے آپریشن میں حصہ لیا۔ نہتے لوگوں پہ فائرنگ کی اور چالیس معصوم لوگوں کی جان لے لی۔یہ ایک واقعہ نہیں۔ ایسی کئی داستانیں ہیں جو کوئی لکھنے والا لکھے تو کئی تاریخ ساز کتابیں وجود میں آئیں۔

عارف ایک اور کردار ہے۔ پولیس میں تھا۔ آج اس کا بیٹا ٹائروں کی دکان پہ کام کرتا ہے اور ماں لوگوں کے گھر برتن مانجھتی ہے۔ دو جوان بیٹیاں گھر میں ہوتی ہیں اور درندوں کے رحم و کرم پہ ہیں کہ ہر اوباش جانتا ہے کہ عارف مر چکا اور اب ان بچیوں کے سر پہ ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں۔ہمارے معاشرے کا ہر پاکباز ان کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے سیٹی بجانے اور موسیقی کا شوق پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔عارف پولیس میں تھا ۔ایک ناکے پہ اس کی ڈیوٹی تھی۔اس نے ایک آدمی کو دیکھاجو اس کے ناکے کی طرف بڑھ رہا تھا۔اس کی حرکات وسکنات مشکوک تھیں۔وہ تھوڑا نزدیک آیا تو عارف نے اپنے ساتھیوں کو مطلع کیا کہ خود کش ہے۔اس سے چند دن پہلے کراچی میں رینجرز کے اہلکاروں نے ایک شخص پہ فائرنگ کی تھی جو ان کے گلے پڑ گئی تھی اور اب پورا ملک لٹھ لے کے ان کے پیچھے پڑا ہے۔اسی کشمکش میں خود کش کا ہاتھ جیکٹ کے بٹن پہ گیا اور عارف واصل باﷲ ہو گیا۔

یہ بھی ایک واقعہ ہے۔ دہشت گرد کو کھلی اجازت ہے کہ وہ بغیر کسی کی اجازت کے جتنے مرضی بندے مار دے۔ پولیس والا پہلے قانون کی عملداری کو یقینی بنائے اور اس کے بعد کاروائی کرے یا پھر جنت کا ٹکٹ کٹوائے۔ پھر یہ فوجی یا پولیس ایف سی اور رینجرز والے اگر مرتے ہیں تو کیا وہ اس کی تنخواہ نہیں لیتے۔یارو! یوں نہ کرو۔آٹا پیسنا ہے تو گھن کی قربانی دینے کے بارے میں ضرور سوچنا پڑے گا۔ دہشت گرد ہمیں لائنوں میں کھڑا کر کے مار رہے ہیں۔ ان کے مقابل جن لوگوں کو ہم نے اتارا ہے ان کے ہاتھ باندھ کے ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان پاگل کتوں سے بچا لیں گے۔یہ درست کہ انسانی جان بہت قیمتی ہے اور اسلام میں تو اس کی ہر گز کوئی گنجائش نہیں۔ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔سوال لیکن یہ ہے کہ ایک آدمی کو بچانے کے لئے کیا پورے ملک اور اس کے بیس کروڑ عوام کو داؤ پہ لگا دیا جائے۔ہمارے ارد گرد مرگ انبوہ کا جشن بپا ہے۔کراچی قتل گاہ کا منظر پیش کر رہا ہے لیکن دہشت گردوں کے سرپرست لنگر لنگوٹ کس کے میدان میں ہیں اور اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ مولٰنا اس کی مخالفت کریں ،ایم کیو ایم اس کی مخالفت کرے ،جماعت اس کی مخالفت کرے ،اے این پی والے یا لبریشن آرمی کے سرپرسے اس پہ واویلا کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن تحریک انصاف پیپلز پارٹی ا س کی مخالفت کریں تو حیرت ہوتی ہے لیکن تحریک انصاف طالبان کی بھی تو پشتیبان ہے اور پیپلز پارٹی والوں کو بھی تو اپنے امن کمیٹیوں کے ارکان کی حفاظت کرنی ہے۔ رہے پاکستان کے محافظپولیس ایف سی رینجرز اور فوجی تو کیا بقول سابق وشیر اعظم گیلانی کیا وہ تنخواہ نہیں لیتے۔ویسے ہے تو دکھ کی بات لیکن اپنے بیٹے کے اغواء کے بعد انہیں کم از کم یہ احساس تو ہو گیا ہوگا کہ تنخواہ کافی نہیں ہوتی۔جس کسی کا بیٹا،باپ اور شوہر اپنی جان قربان کرتا ہے اسے اور بھی بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شیخ سعدی ایک گلی سے گذر رہے تھے کہ ایک خونخوار کتا انہیں کاٹنے دوڑا۔انہوں نے جھک کے زمین سے پتھر اٹھانا چاہا تو وہ زمین میں گڑا تھا۔اتنی دیر میں کتا ان کی ٹانگ چچوڑ چکا تھا۔جب وہ اس افتاد سے وہ فراغت پا چکے تو انہوں نے اپنی شاعری کا سہارا لیا اور وہ شہرہ آفاق شعر کہا کہ اس شہر کے لوگ بھی کیا باکمال ہیں۔کتے کھلے چھوڑتے ہیں اور پتھروں کو زمین کے ساتھ باندھ کے رکھتے ہیں۔کتوں کو حضور آپ نے کھلا چھوڑا ہے تو پتھروں کو بھی آزاد کریں ورنہ آپ کی ٹانگ کا یہ کتے سرمہ بناتے رہیں گے۔تحفظ پاکستان آرڈیننس میں کوئی مسئلہ ہے تو پارلیمان کے ارکان کو اسے قابل قبول بنانے کی کوشش کریں۔اس پہ نظر ثانی کریں اور اس کے لئے کوئی میعاد مقرر کر دیں۔ یہ قانون صرف ایک سال کے لئے منظور کر لیں۔سزا بڑے بڑوں کو سیدھا کر دیتی ہے۔سزا کا خوف بہت سے لوگوں کو راہ راست پہ لے آتا ہے۔

تحفظ پاکستان کے قانون کی مخالفت کرنے والوں کے اپنے اپنے مفادات اور اپنے خدشات ہیں لیکن ملک کے لئے ریاست کے لئے خدا را کچھ ہونے دیں۔اس ملک کے بیس کروڑ بد قسمت لوگوں نے اپنے ٹیکسوں پہ عیاشی کرنے کے لئے آپ کو اپنے اوپر مسلط نہیں کیا۔کچھ ان بد قسمت لوگوں کے لئے بھی سوچیں۔ملک بچانا ہے تو کتوں کو باندھنا ہو گا اور پتھروں کو اکھاڑ کے ہاتھ میں پکڑنا ہوگا۔یاد رکھیں کتوں کے دانت بہت تیز ہوتے ہیں اور کتا کاٹ لے تو عین ناف میں بیس ٹیکے لگوانے پڑتے ہیں۔ عشاق کے قتل سے ہم اسی لئے منع کرتے ہیں کہ کل کلاں آپ کو یوسف بے کارواں ہو کر نہ پھرنا پڑے ،شک ہو تو جناب یوسف رضا گیلانی سے پوچھ لیں۔صرف تنخواہ ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔یہ نہ ہو کل کلاں آپ بھی چاہ یوسف سے صدائیں لگاتے رہیں اور کوئی سننے والا نہ ہو۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268652 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More