دہشتگردی، طالبان کا مذمتی بیان اورمذاکرات کے ثمرات

آج کی شہ سرخی بھی کل سے مختلف نہیں۔ صرف وقت اور مقام کا فرق ہے۔ کل جعفر ایکسپریس میں 20کے قریب معصوم افراد دہشت گردی کے بھینٹ چڑھے تھے جبکہ آج اتنے ہی معصوم شہری جن میں زیادہ تعداد غریب مزدوروں کی تھی، اسلام آباد کی سبزی منڈی میں ہونے والے بم دھماکے میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ پاکستان میں کب تک دہشت گردی کی یہ خونیں لہریں ہمارے معصوم لوگوں کو نگلتی رہیں گی۔ ہر روز دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہوتے ہیں، ہر روز کئی گھروں کے چراغ گل ہوجاتے ہیں، ہم میں سے بہت سے اس قسم کے واقعے میں بال بال بچ بھی جاتے ہیں․․․ مگر دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد سوچتے ہیں کب تک اس طرح کی موت سے بچتے رہیں گے، کب تک دہشت گرد اور قانون شکن ہماری اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوتے رہیں گے․․․؟ چند ہفتے قبل اسلام آباد کچہری میں جس ’’دیدہ دلیری‘‘ سے دہشت گردندناتے ہوئے آئے اور چند منٹوں میں خون کی ندیاں بہا کر چلے گئے، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ہم ’’بے بس‘‘ ہیں۔ دہشت گرد جب چاہیں، جہاں چاہیں اور جس قدر چاہیں تباہی و بربادی کا کھیل کھیل کر چلے جائیں، ہمارے قانون نافذ کرنے والے صرف اپنی جان بچاتے ہی نظر آتے ہیں بلکہ ایسے واقعات کے دوران جب تحمل اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور ان کی بدحواسی کا یہ عالم بھی دیکھا گیا کہ ان کی گولیاں ان لوگوں کا ہی سینہ چھلنی کر گئیں کہ جن کے وہ محافظ تھے۔ ایڈیشنل سیشن جج ملک رفاقت اعوان کچھ ایسی ہی صورتحال میں اپنے محافظ کی بدحواسی کا شکار ہوکر زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد چند روز تک سرکاری ’’پھرتیوں او ربازپرس‘‘ کی بازگشت اخبارات کے ذریعے سنائی دیتی ہے۔ کچھ لوگ معطل کردیئے جاتے ہیں، نئی فائلیں بنائی جاتی ہیں اور تفتیش کو نئے نئے رخ دیئے جاتے ہیں پھر چند دنوں بعد اس فائل کا مقدر بھی وہی پرانی الماری قرارپاتی ہے جہاں اس قسم کی بہت سی فائلیں کچھ عرصہ رہنے کے بعد آخر ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو جاتی ہیں۔ اسلام آباد سبزی منڈی میں بم دھماکے کی شہ سرخی کے بغل میں وہی گسی پٹی خبر بھی موجود ہے جو اس طرح کے ہر واقعے کے بعد وزیروں، مشیروں، اپوزیشن لیڈروں کی طرف سے ’’مذمتی ‘‘ بیانات پر مبنی ہوتی ہے۔لیڈ کے ساتھ لگی سنگل کالمی خبروں میں وزیر اعظم کا وزیر داخلہ کو فون، امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔ ہلاک اور زخمیوں کے لیے مالی امداد کا اعلان بھی شامل ہیں۔انہی سرخیوں کے بیچ و بیچ سب سے اہم خبر طالبان کی طرف سے جاری ہونے والا مذمتی بیان ہے جس میں انہوں نے بے گناہ لوگوں پر حملوں کو حرام قراردیا اور کہا کہ ماضی میں اس طرح کے بہت سے حملے خفیہ قوتوں نے طالبان کے نام پر کئے تھے۔ چلیں اب کی بار شاہداﷲ شاہد کی بات مان لیتے ہیں، وگرنہ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ ماضی میں مساجد اور عوامی مقامات پر ہونے والے بہت سے حملوں کی ذمہ داری طالبان اعلانیہ قبول کرچکے ہیں۔ اب چونکہ مذاکرات کا ماحول ہے اور ملک میں طالبان کی طرف سے ہونے والی دہشت گردی کا طوفان ذرا تھما ہوا ہے، اس پس منظر میں ماضی کو ٹٹولنا مناسب نہیں لگتا اور طالبان کے اس مذمتی بیان کو انتہائی مثبت اور نیک فال ہی تصور کرتے ہیں۔ ا س بیان سے کم ازکم یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والی بات چیت میں پیش رفت ضرور ہوئی اورکسی حد تک اعتماد سازی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا بیان بھی اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ واقعی دونوں فریقین کے درمیان اعتماد سازی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کی پالیسیوں کی بدولت طالبان نے پہلی دفعہ کھل کر دہشت گردی کی مذمت کی ہے۔ واقعی یہ کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے کہ اس نے دہشت گردی کے مرتکب گروپوں سے مذاکرات کے لیے سنجیدہ پالیسی اختیار کی۔ اس حوالے سے فوج اور اپوزیشن جماعتوں کا کردار بھی مثبت ہے اور پہلی دفعہ قوم اس حوالے سے ایک ہی صفحے پر نظر آرہی ہے۔

مذاکرات کی اس پالیسی کے ثمرات بھی ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ بہت سے تجزیہ نگار انہیں اس لیے دوررس خیال کرتے ہیں کہ اس سے بہت سے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں۔ مثلاََ اس سے ان گروپوں کی نشاندہی ہوسکے گی جو دہشت گردی پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی بھی جو مذاکرات چاہتے ہیں۔ اسی طرح ایسے گروپ بھی شناخت ہوجائیں گے جو غیرملکی قوتوں کے آلہ کار ہیں اور صرف اور صرف پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے متمنی ہیں۔ مذاکرات کے ثمرات میں یہ بھی شامل ہے کہ اب طالبان کے مختلف گروہوں میں باہمی اختلافات بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔اخبارات میں پر ایسی خبریں بھی موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اختلافات بڑھ کر اب خونیں شکل اختیار کرگئے ہیں۔ ٹانک اور اردگرد کے علاقوں میں طالبان کے متحارب گروپوں کے درمیان چار پانچ روز سے لڑائی جاری ہے اور اس میں کم از کم 50کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کی مذاکرات کی پالیسی واقعی کثیر جہتی مقاصد کی حامل ہے۔

اب بات کرتے ہیں کورکمانڈرز کانفرنس کی جس میں پاک فوج کی اعلیٰ قیادت نے داخلی و خارجی صورتحال پر غور کیا اور افغانستان سے ’’ایساف ‘‘ کے انخلاء کے بعد سرحدی علاقوں کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ جنرل راحیل شریف نے اس موقع پر کہا کہ سنگین سیکورٹی چیلنجز کے باوجود پاک فوج نے بہترین پیشہ ورانہ کردار ادا کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج نے ہر مشکل کی گھڑی میں قوم اور وطن عزیز کا دفاع کیا ہے۔ وطن کے لیے ان کی قربانیاں لازوال ہیں اور پوری قوم ان کی معترف ہے۔ جس طرح گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گرد ہماری سلامتی کے درپے ہیں، یہ افواج پاکستان کے افسر اور جوان ہی تھے جو ان کے عزائم کے سامنے دیوار بنے رہے ۔ اس دوران انہوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں بھی پیش کیں جنہیں پوری قوم قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جنرل راحیل شریف کا اس سے چند روز قبل بھی ایک بیان ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ فوج اپنے وقار کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گی۔یہ بیان بالکل سیدھا سادہ تھا تاہم مختلف حلقوں کی جانب سے اس کی طرح طرح کی توضیحات و نشریحات تراشی گئیں اور مختلف مطالب نکالنے کی کوشش کی گئی۔تاہم ان سے قطعہ نظر بعض حکومتی وزراء کی جانب سے جنرل ریٹائرڈ مشرف کو جواز بنا کر فوج پرکی جانے والی تنقید واقعی زیادتی کے زمرے میں آتا ہے اور بہت سے حلقوں نے اسی پس منظر میں اس بیان پر رائے زنی کی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل ریٹائرڈ مشرف کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعدسے اب تک پاک فوج نے خود کو سیاست سے الگ رکھا ہوا ہے اوروہ اس عزم پرپوری طرح کاربند ہے۔ لہٰذانواز شریف کو چاہئے کہ وہ بھی اس حوالے سے اپنے رفقاء کو محتاط اور سنجیدہ رویہ اختیار کرنے خاص طور پر اپنا لب و لہجہ درست رکھنے کی تلقین کریں۔ یہی وقت کا تقاضا ہے اور اسی میں جمہوری اقدار ، ملکی ترقی اور خوشحالی کا راز پوشیدہ ہے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 69466 views Columnist/Journalist.. View More