موجودہ انتخابی جنگ نے ایک بار پھر بی جے
پی کا مکھوٹا اتار دیا ہے اور اور اس کا اصلی چہرہ سامنے آگیا ہے۔ اپنے
اوپر لے داغ دھونے کی فکر میں نریندر مودی گزشتہ کئی ماہ سے صاف انتظامیہ
اور ترقی کے نام پر عوام کو بیو قوف بنانے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں ۔ مذہبی
گروہ بندی کے خطرے سے بچنے کے لئے کوئی بڑا ہندو کارڈ چلنے سے گریز کیا تھا
۔لیکن انتخاب شروع ہونے سے عین قبل چھپا کر رکھے گئے اپنے ناخن باہر نکال
لئے ۔نریندر مودی نے’ پنک ریولوشن ‘(گؤ ہتیا) کی بات کرکے سنگھی سیاست کے
ایک پرانے ہتھیار کو باہر نکال دیا ہے ۔ سب سے زیادہ قابل اعتراض بیان مودی
کے دست راست اور یوپی کے بی جے پی انتخابات کے انچارج امت شاہ کی ہے ،
جنہوں نے مغربی اتر پردیش کے فساد زدہ اضلاع میں جا کر اپنی اصلیت اور خالص
فرقہ وارانہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ’ عزت بچانے ‘ اور’ توہین کا بدلہ لینے ‘
کیلئے مودی کو ووٹ دینے کا مطالبہ کیا۔اس دوڑ میں راجستھان کی وزیر اعلی
وسندھرا راجے سندھیا بھی پیچھے نہیں رہیں ، انہوں نے ایک کانگریس امیدوار
کی ٹی وی پر چلی نہایت قابل اعتراض ویڈیو کلپ کی یاد دلاتے ہوئے مسلمانوں
کو دھمکی دینے کے لہجے میں کہا کہ انتخابات کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کس کے
ٹکڑے ٹکڑے ہوں گے ۔اورعین اسی وقت بابری مسجد کی شہادت میں ملوث شاشکشی
مہاراج ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر بنانے کا اعلان کر رہے تھے ۔ ظاہر
ہے ، موجودہ انتخاب چاہے ،ان چاہے وہی سمت اختیار کر چکا ہے ، جس سے اسے
بچانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔یعنی فسطائیت بنام سیکولرزم۔ مذکورہ بیانات
میں بظاہر کوئی تسلسل اور ربط نہیں ہے لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو اس سے
بی جے پی کا پورا ایجنڈا سامنے آجاتا ہے۔ ان تینوں خبروں کو پڑھنے کے
بعدبھگوا پارٹی کی ذہنیت اور مکمل منصوبے کو سمجھنے کے لئے مزید کسی دلیل
کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔حالانکہ انتخابی موسم میں اپنے لیڈران کے اس طرح کے
بیان کابی جے پی نے دفاع کیا ہے لیکن اس سے اس بات کا پتا تو چل ہی گیا کہ
راجناتھ کی مسلمانوں سے پینگیں بڑھانے کا خاص مقصد کیا ہے؟ اور اس پارٹی کی
ذہنیت کیا ہے۔ ابھی چند دنوں پہلے بھگوا پارٹی کے اہم لیڈر پروفیسر وجے
کمار ملہوترا نے یہ کہہ کر سنسنی پھیلا دی تھیکہ جامعہ نگر(دہلی میں
مسلمانوں کی اکثریت والا سب سے بڑا علاقہ) دہشت گردوں کا اڈہ ہے۔حالانکہ
مسلمانوں پر اس قسم کے سنگین الزامات کوئی نئی بات نہیں ہیں لیکن انتخابی
موسم ہونے کی وجہ سے پارٹی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور لگا کہ دو چار
فیصد ضمیر فروش مسلمانوں کے ملنے والے ووٹ بھی کھسک سکتے ہیں اس لئے اس نے
فورا اپنے صاف ستھری شبیہ والے لیڈر ہرش وردھن کو صفائی پیش کرنے کے لئے
تعینات کر دیا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر ہرش وردھن خود چاندنی چوک لوک سبھا حلقہ
سے بی جے پی کے امیدوار ہیں اور اس حلقے میں مسلمان ووٹر فیصلہ کن حیثیت
رکھتے ہیں چنانچہ ہرش وردھن نے اپنی زمین کھسکتی دیکھ فورا اردو
میڈیا(حالانکہ نام نہاد اردو میڈیا بھی صرف تجارتی مفادکی امین ہے) کو طلب
کیا اور ملہوترا کے بیان کو ان کا نجی بیان قرار دیا۔لیکن مسلمانوں کے
حوالے سے بھگوا پارٹی کی ما ضی کی تاریخ اوران جیسے مسلسل واقعات اور خبروں
کو آخر کس پس منظر میں دیکھا جائے۔راجناتھ سنگھ کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں
کے حق میں ان سے کوئی غلطی ہوگئی ہے تو وہ معاف کر دیں۔پارٹی اقتدار میں
آئے گی تو مساجد اور مقبروں کو تحفظ فراہم کرے گی۔ تعصب اور فسطائی ذہنیت
کی حامل اور ملک کو گمراہ کرنے والی بھگوا پارٹی کی اس بات پر کس بنیاد پر
بھروسہ کیا جائے۔کہتے ہیں تحریر کے آگے تقریر کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ،بی
جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں جو وعدے کئے ہیں ان کو پڑھنے اور سننے کے
بعد بھی جس میں رام مندر کی تعمیر،یکساں سول کوڈ کا نفاذ اور دفع370کو شامل
کیا گیا ہے کیا کسی شک کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ بھگوا پارٹی ملک کو کس جانب
لے جانے کی کوشش میں مصروف ہے ،اور اس کے مسلمانوں سے پینگیں بڑھانے کا کیا
مقصدہے ۔کو برا پوسٹ نے جو انکشافات کئے ہیں حالانکہ اس میں نیا کچھ نہیں
ہے لیکن اتنا تو واضح ہو ہی گیا کہ اس منظم سازش کی کامیابی کیلئے کس طرح
کی پلاننگ کی گئی تھی۔موجودہ لوک سبھا انتخابات کیے لئے جس طرح سے آر ایس
ایس نے تیاری کی ہے اور مہینوں پہلے مودی کو اپنا برانڈ امبیسڈر اور ملک کے
وزیر اعظم کا امیدوار بنا کر پیش کیا ہے کیا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ملک
کو ہندو راشٹر بنانے کی اس کی تیارتی مکمل ہو چکی ہے اور اب اس کے عملی
نفاذ کے لئے وہ میدان میں کود چکی ہے۔میری اس بات کوایک امریکی تھنک ٹینک
کے اسنتیجہ کے اس نتیجہ سے مزید تقویت ملتی ہے کہ اگر عام انتخابات کے بعد
مرکز میں مودی کی قیادت میں حکومت بنتی ہے تو اس سے مذہبی اقلیتوں کے حقوق
متاثر ہوں گے ۔کچھ اسی طرح کا تبصرہ ’دی اکنامسٹ ‘ نے بھی کیا ہے ۔اس اخبار
نے اپنی تحقیقات اور سروے کی بنیاد پر وزیر عظم کے لئے مودی کو نا اہل قرار
دیا ہے۔اخبار کے مطابق وزارت عظمی کے لئے کانگریس ہی بہتر پارٹی ہے حالانکہ
کانگریس کی کمیوں اور خامیوں کو بھی شمار کرایا گیا ہے لیکن بروں میں سے کم
برا کے انتخاب کے لحاظ سے کانگریس کو ہی منتخب کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔کیونکہ
یہی ملک کے مفاد میں ہے ۔میں کانگریس کی حمایت یا وکالت نہیں کر رہا ہوں
لیکن مسلمانوں کے خلاف آر ایس ایس کی منصوبہ بندی اور زہر آلود ذہنیت کے
بار بار بر ملا اظہار کے بعد کوئی متبادل نظر نہیں آتا۔ آر ایس ایس کی
دیرینہ خواہش ہے کہ ہندوستان کو ہندو ملک بنا دیا جائے۔اس کے لئے اسے جو
قربانیاں دینی پڑے وہ تیار ہے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ لوک سبھا الیکشن کو اس
نے پورے طور پر سیکولرزم بنام فاششٹ بنانے کی بھر پورکوشش کی ہے،اورملک کے
طول و عرض میں پھیلے اپنے کچھا دھاری کارکنان کو الیکشن کی ذمہ داریاں دے
دی ہے۔ نمو نمو کے نعرے کے ساتھ ملک کے سیکولر ڈھانچے کو ویسے ہی تباہ کرنے
کا خفیہ اعلان کر رکھا ہے جیسے سیکولرزم کے امین کہے جانے والے گاندھی جی
کو اپنے راستے سے ہٹا دیا تھا۔ایسا پہلی بار ہوا ہے جب صرف ایک شخص کو
ہیروں بنا کر پورے ملک میں اس کے پوسٹر چسپا کر دیئے گئے ہیں۔ گویا کہ رام
مندرکے نام پر ہندؤں کے جذبات بر انگیختہ کرکے ووٹوں کی صف بندی کرکے
اقتدار تک پہنچ چکی بھگوا پاٹی اب مودی کے نام پر ووٹوں کی صف بندی کرنا
چاہتی ہے۔ کچھا دھاری لیڈران ہندوؤں کومذہب کی دہائی دے اور مسلمانوں کا
خوف دلاکر ووٹ حاصل کرنے اور اقتدار پر قبضہ کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف
ہے۔ ۔ جمہوریت کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں سے ووٹوں کا خراج وصول کرتی
کانگریس ایک طرح سے ان فاششٹوں کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ اس سے زیادہ
بدقسمتی کی بات اور کیا ہوگی کہ جس ایک کمیونٹی کے ارد گرد یہ سارا سیاسی
کھیل کھیلا جاتا ہے ، اس نے اب تک کے اپنے انتخابی مزاج سے ایسا کوئی اشارہ
نہیں دیا ہے کہ وہ کسی پارٹی کو شکست دینے یا جتانے کے لئے متحد ہو کر
ووٹنگ کرتی ہے۔ملک کی 165لوک سبھا سیٹوں پر فیصلہ کن حیثیت رکھنے والی اس
قوم مرحوم کا المیہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے جب بھی کوئی لیڈرسر
اٹھاتا ہے تو سیکڑوں کی تعداد میں اس کے مخالفین پیدا ہو جاتے ہیں۔اس کی
باتوں کو سننے سے پیشتر ہی اس کی بخیہ ایسے ادھیڑتے ہیں کہ پھر وہ دوبارہ
ہمت نہیں کرتا۔اور گمنامی کی زندگی گزارنے کو ہی ترجیح دیتا ہے۔حالیہ واقعہ
دہلی کی جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری کا ہے جنہوں نے کانگریس کی حمایت
کی اپیل کیا کی چاروں طرف سے لعن طعن کی بارش ہونے لگی۔خود ان کے بھائی
یحتی بخاری نے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور ان کے بر خلاف عام آدمی پارٹی
کی حمایت کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ احمد بخاری کی اپیل خارج کرنے کیدرخواست
تک کر دی۔ اس لئے جمہوریت کے نام پر مسلمانوں سے متحد ہو کر ووٹنگ کرنے یا
کسی ایک پارٹی کے حق میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی توقع فضول ہے ۔ ملک
اگر سیکولر بنا ہوا ہے تو اس لئے کہ زیادہ تر ہندو ایسا چاہتے ہیں ۔کمیونل
چیلنجوں کے بارے میں بھی اس کی یہی رائے ہے کہ ان سے نمٹنے کا ذمہ صرف اس
کا نہیں ، سب کا ہے ۔ لیکن لوگوں کی زندگی کو شطرنج کا مہرہ سمجھنے والوں
کا کام ایسی سمجھداری والی باتوں سے نہیں چلتا ۔ انہیں تو خوردہ نہیں ،
تھوک بھاو میں ووٹ چاہیے ، اور وہ تبھی ملیں گے، جب لوگ ماضی سے باہر
جھانکنے کی ساری کھڑکیاں ،دروازے بند کردیں اور مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ
کر ڈرتے رہیں ۔ |