پاکستان کے بے شمار مسائل اور بد قسمتیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہاں کی
مذہبی قیادت اکثر و بیشتر بجائے ایک پیج پہ آنے کے الگ اڑان کرتی آئی ہے ۔کسی
کی ذات پہ تنقید مقصود نہیں مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے بہت سے مسائل
کی بنیادی وجہ مسلکی اختلافات ہیں ۔ملکی تاریخ میں بہت کم ایسے مواقع آئیں
ہیں کہ ہماری مذہبی قیادت کسی ایشو پہ متفق ہوں ۔ حالانکہ جب مذہبی قیادت
نے ایک صف میں کھڑی ہوکر قوم کو آواز دی قوم نے لبیک کہا ہے ماضی میں ایم
ایم اے اتحاد کی عام انتخابات میں شاندارکامیابی اس بات کی دلیل تھی کہ
عوام کہ قوم اس اتحاد کی حامی تھی اور آج بھی اگراتحاد کی کوئی سبیل نکل
آتی ہے تو عوام دینی قیادت کو مایوس نہیں کرے گی مگر آفسوس کہ اتحاد کے
حامی بہت کم ملتے ہیں اس قوم کو ۔قاضی حسین احمد شاید وہ واحد شخصیت تھی جس
نے امت ِمسلمہ کی درد کو اپنا درد اور مذہبی جماعتوں کے اتحادکو اپنا مشن
سمجھا تھااس کے بعد چراغوںکی روشنی نہ رہی ۔
دیر آمد درست آمد کے مصداق اب یہ خبر یں آرہی ہیں کہ مذہبی سیاسی جماعتوں
کے موثر اتحاد کے لیے مشترکہ کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ نومنتخب امیر جماعت
اسلامی سراج الحق سے جے یو آئی کے امیر مولانافضل الرحمن کے رابطے ہوگئے
ہیں جس میں متحدہ مجلس عمل کی بحال اور ملی یکجہتی کونسل کو مزید فعال کرنے
پر مشاورت کی گئی اور بہت جلد اسلام آباد میں مرکزی قیادت کی ملاقات کابھی
امکان۔
پاکستان کی تمام مذہبی جماعتو ں کو چاہیے کہ چند وزارتوں اور جماعتی مفادات
کیلے دیگر سیاسی جماعتوں کے پیچھے جانے کے بجائے اپنے اپنے فروعی اختلافات
کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہمی اتفاق و اتحاد قائم کریں اسی میں سب کی
بھلائی ہے خود ان کی بھی اور ملک و ملت کی بھی۔ |