ایک نوجوان روز سمندر کے کنارے جاتا اور
وہاں کھڑے ہو کر بانسری بجاتا۔ اس کی خواہش تھی کہ مچھلیاں آئیں اور اس کی
بانسری کی لَے پر رقص کریں۔ وہ کئی دن تک بانسری بجاتا رہا مگر مچھلیاں رقص
کرنے نہ آئیں۔ ایک آدھ اگر اُس کی طرف متوجہ بھی ہوئی تو دوسری مچھلیاں اسے
کھینچ کر واپس لے گئیں۔ وہ بہت دیر تک اپنی خواہش پر قائم رہا مگر پھر ایک
دن اُس نے ہار مان لی اور مچھلیوں کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ بازار سے
ایک جال لے کر آیا اور اُسے سمندر میں پھینکا۔ جب اُس نے جال واپس کھینچا
تو بہت سی مچھلیاں جال کے ساتھ ساحل پر آ گئیں۔ خود کو یوں پھنسا دیکھ کر
مچھلیوں نے بانسری کے لَے کے بغیر ہی بے پناہ رقص کیا۔ نوجوان کی منت بھی
کہ وہ اُن کو پانی سے نہ نکالے اور بس اُن کا رقص دیکھے۔مگر نوجوان مچھلیوں
سے بد دل ہو چکا تھا۔ اُس نے مچھلیوں کی ایک نہ سنی اور مچھلیوں کو سمندر
سے باہر فاصلے پر خشکی پر پھینک دیا اور یوں وہ سبھی مچھلیاں دیوانہ وار
رقص کرتے کرتے اپنے انجام کو پہنچ گئیں۔
ہماری حکومت بھی اُس نوجوان کی طرح بہت دنوں سے بانسری بجا رہی ہے کہ کسی
طرح طالبات مذاکرات کی میز پر آجائیں۔ مگر طالبان شاید یہی چاہتے ہیں کہ
حکومت مذاکرات، مذاکرات کھیلتی رہے اور وہ اپنا کام جاری رکھیں۔ مذاکرات کی
نوید کے ساتھ ساتھ بم دھماکے، خود کش حملے اور دہشت گردی کے واقعات طالبان
اور اُن کے حامیوں کے لیے بہت معمولی بات ہے۔ شاید اُن کی سوچ یہ ہے کہ یہ
تمام کاروائیاں حکومت پر دباؤ میں اضافے کا باعث ہوں گی اور حکومت طالبان
کے ساتھ بات چیت میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگی۔ لیکن شاید ایسا ممکن نہ ہو۔
حکومت پر طالبان کے دباؤ سے بڑھ کر فوج کا اور عوام کا شدید دباؤ ہے جس میں
روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مذاکرات میں اگر مزید تاخیر ہوئی یا طالبان
نے اپنی روّش نہ بدلی تو حکومت کو اپنی بقا کے لیے طالبان کے خلاف آپریشن
کو ملتوی رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
پاکستان کو وجود میں آئے 67برس ہونے والے ہیں۔ مگر کمزور سیاسی قباحتیں جن
کا مطمع نظر صرف مخصوص مفادات کے سوا کچھ نہیں ہوتا ابھی تک ہمارا مقدر ہیں۔
اسی وجہ سے حالات نہ تو بدل رہے ہیں اور نہ ہی اُن کے بدلنے کی کچھ امید ہے۔
ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہماری قیادت کرنے والا شخص کرپٹ ہے۔ لوٹ مار کا شوقین
ہے۔ مگر اُسی کو ووٹ دینا ہمیں پسند ہے۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ
ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی سیاسی طور پر مثبت روّیوں سے نابلد ہے۔
لاہور کی ایک معروف مارکیٹ میں میرے ایک دوست کی دکان ہے۔ مارکیٹ میں انجمن
تاجران کے الیکشن ہو رہے تھے۔ میں اُس دن دوست کی دکان پر بیٹھا اُس سے گپ
شپ میں مصروف تھا۔ ایک مزدور آم کی پیٹی لے کر آیا کہ جناب فلاں امیدوار نے
بھیجی ہے۔ مزدور گیا تو میں نے غور کیا وہ ہر دکان پر ایک آم کی پیٹی دے
رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا یہ کیا؟ کہنے لگا انتخابی مہم اور کیا۔
ہر امیدوار کا خرچ ایک کروڑ سے زائد ہے۔ مجھے اس سال بازار سے آم خرید کر
کھانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ یہ چھٹی پیٹی ہے۔ تین پیٹیاں تو فقط ایک امیدوار
نے بھیج دی ہیں۔ پوچھا تم ووٹ کسے دے رہے ہو؟ جواب ملا جس نے سب سے زیادہ
اور اچھے آم بھیجے ہیں۔ میں اپنے اس انتہائی پڑھے لکھے دوست کے روّیے پر
افسوس ہی کر سکتا ہوں۔ الیکشن کسی امیدوار کی عقل، سوچ اور فہم کا امتحان
نہیں بلکہ سرمائے کا مقالہ ہے۔ ایک کاروبار ہے جس پر لوگ سرمایہ کاری کرتے
اور اُس سرمایہ کاری کے نتیجے میں اُس کا نفع پوری طرح وصول کرتے ہیں۔
گاؤں کا ایک کلچر ہوتا تھا اور شاید اب بھی ہے۔ چوہدری صاحب جب مجلس میں
آکر بیٹھتے تو ان کے اردگرد کچھ مراثی بیٹھ جاتے۔ چوہدری صاحب جو کریں یا
جو کہیں ۔ مراثی حضرات واہ واہ کے نعرے لگاتے۔ جس سے چوہدری صاحب کو یقین
ہو جاتا کہ وہ جو کر رہے ہیں اُسے عوامی تائید حاصل ہے۔ حالانکہ وہ عوامی
نہیں مراثی تائید ہوتی تھی۔ سب سے افسوس ناک بات یہ کلچر اب گاؤں سے نکل کر
ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ میں نے خود دیکھا کہ ایک چوہدری کی بات
پر نالاں یا نیم پاگلوں کی طرح بول رہا تھا اور اردگرد بیٹھے انتہائی پڑھے
لکھے لوگ مراثیوں کی طرح واہ واہ کر رہے تھے۔ لیکن چونکہ وہ لوگ پڑھے لکھے
ہیں اور قابل احترام بھی اس لیے ہم انہیں مراثی نہیں کہتے۔ فنکار کہتے ہیں۔
ویسے تو اب سارے مراثی بھی فنکار ہی کہلانے لگے ہیں۔
ایک چھوٹی سی سوسائٹی کے الیکشن ہوئے۔ سابقہ عہدیداروں نے ابتدا میں بھری
مجلس میں اعلان کیا کہ وہ الیکشن نہیں لڑیں گے۔ لوگوں سے انہوں نے درخواست
کی کہ وہ چاہے اُن کے سر پر جوتے ماریں مگر وہ الیکشن لڑنے کو تیار نہیں۔
الیکشن ہوا تو جوتا بازی کا اعلان کرنے والے سب سے آگے تھے۔ نتائج کا اعلان
ہوا تو کچھ نئے لوگوں کے ساتھ ساتھ جوتے کھانے کا اعلان کرنے والے بھی
منتخب ہوئے۔ ایک صاحب نے پوچھا تقریب حلف وفاداری کب ہے؟ دوسرے نے کہا
تقریب حلف برداری تو چھوڑو پہلے تقریب جوتا بازی انجام دے لی جائے تو بہتر
ہے۔ ایک صاحب تقریب جوتا بازی کے کارڈ چھپوانے لگے تو ایک صاحب بولے شرم
کرو معزز لوگ ہیں کچھ خیال کرتے ہیں۔ شاید یہی شرم کلچر ہماری سیاسی قدروں
کو تباہ کر رہا ہے۔ نام نہاد معززین ہی سارے ملک میں کمزور سیاسی قیادتوں
کو لانے اور دیگر خرابیوں کا باعث ہے۔ تھوک کر چاٹنے والوں کو کوئی کچھ
نہیں کہتا۔ اُن کے لیے شرم یا حیا بے معنی چیزیں ہیں۔ پابندیاں سچ کہنے اور
سچ لکھنے پر ہیں۔ ہوس کو چھوٹے ہے کھلی۔ جنوں پہ قید و بند ہے۔
اس ملک سے طالبان کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ تعلیم اور انصاف کی ہر
شہری کو فراہمی۔ سیاست سے سرمائے کا خاتمہ اور عقل و فہم کا فروغ۔ الیکشن
میں سرمایہ داروں کی بجائے سوچ کے ھامل افراد کے لیے تگ و دو۔ حیا اور سچ
کی تعلیم۔ ایسا سچ کہ جس کی راہ میں کوئی شرم یا کوئی معززین رکاوٹ نہ ہو۔
گو اس میں وقت لگے گا۔ مگر یہ جدوجہد یقینا بار آور ہوگی کیونکہ اسی میں
پاکستان کی بقا ہے۔ |