خلیفۂ حضور مفتیِ اعظم امام ِ علم و فن مولانا خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ

آج بروز اتوار مورخہ ۲۰، اکتوبر ۲۰۱۳ء مطابق ۱۴، ذوالحجہ بعد نمازِ فجر جیسے ہی موبائل ہاتھ میں لیا تو اس میں مولانا محمداُسید الحق قادری بدایونی صاحب کا غم ناک میسیج موجود تھا کہ: "انتہائی افسوس کے ساتھ خبر دی جارہی ہے کہ آج صبح تین بج کر تیس منٹ پر ہمارے استاذِ محترم حضرت خواجہ مظفر حسین رضوی صاحب کا وصال ہوگیا۔"ابھی ہم حضور مفتی اعظم راجستھان مفتی اشفاق حسین نعیمی علیہ الرحمہ کی وفاتِ حسرت آیات کے غم سے باہر بھی نہیں نکلے تھے کہ امامِ علم و فن حضور خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ بھی ہمیں داغِ مفارقت دے گئے ۔ حضرت قبلہ علیہ الرحمہ کا وجودِ مسعود دنیاے اہل سنت کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا ۔ حضرت کی علمی خدمات خصوصاً امام احمدرضا پر علومِ جدیدہ کے حوالے سے آپ کی تحقیقی نگارشات رہتی دنیا تک یاد کی جائے گی۔ اللہ عزو جل سے دعا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل حضور امامِ علم و فن کے درجات کو بلندتر فرمائے اور ہم کو اُن کے علمی فیضان سے مالامال فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم ۔

ذیل میں عوامِ اہل سنت کے استفادہ اور معلومات کے لیے حضرت خواجۂ علم و فن کے مختصر حالات بیان کیے جارہے ہیں ۔

ولادت:
امام المنطق والفلسفہ حضرت علامہ و مولانا خواجہ مظفر حسین رضوی بن مولانا زین الدین رضوی ضلع پورنیہ (بہار) میں ۱۳۵۸ھ کو پیدا ہوئے۔

ضلع پورنیہ کے ایک معزز خاندان جو جملہ سلاسل چشتیہ ، قادریہ ، نقش بندیہ اور سہر وردیہ کے سرچشمۂ فیض و برکت حضرت خواجہ بصری رضی اللہ عنہ سے نسبتی انتساب کے پیش نظر خواجہ خاندان کہلاتا ہے۔ اِسی خاندان کے باوقار گھرانے میں خواجہ مظفر حسین رضوی پروان چڑھے ۔

مولانا خواجہ مظفر حسین رضوی کے والدِ ماجد مولانا زین الدین بھی اپنے ضلع کے مقتدر علما میں شمار کیے جاتے تھے۔ حضرت امامِ علم و فن کاتاریخی نام "مظفر حسینی" رکھا گیا ۔ لیکن عرف میں آپ کا نام "خواجہ مظفر حسین " ہی زبان زد رہا۔ ڈھائی سال کی عمر میں آپ کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا چناں چہ خواجہ صاحب کی پرورش ان کے والدِ ماجد کی نگرانی میں ہوئی۔اس طرح والدِ گرامی نے آپ کو بہ یک وقت ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا۔

تعلیم و تربیت اور اساتذہ :
امامِ علم وفن علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ کی عمر جب چار سال ، چار ماہ، چار دن ہوگئی تو والدِ ماجد نے بسم اللہ خوانی کی رسم کرائی اور پھر ابتدا سے شرحِ جامی تک خود ہی تعلیم فرمائی ۔ آپ کا گھرانا چوں کہ دیوبندیوں کی خاطر داری کے دام میں پھنسا ہوا تھا اور خواجہ صاحب کے والد زبردست عالم تھے ۔ لیکن ان کی نظر میں دیوبندی اور بریلوی کا باہمی اختلاف پورے طور پر کھل کر سامنے نہیں آیا تھا۔

بایں سبب عملاً دیوبندیوں کے ساتھ تھے، تا آں کہ اپنے بڑے لڑکے اور بھتیجے کو دیوبند اور سہارن پور میں تعلیم دلوائی۔ اور اپنے دیگر تلامذہ کو بھی دیوبندا ور سہارن پورہی بھیجتے رہے۔ اس لیےامامِ علم وفن علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ کو بھی براے تعلیم دیوبند بھیجنا طے ہوا۔ لیکن موصوف کی کم سنی اور دیگر عوارض و عوائق کی وجہ سے یہ ارادہ فی الحال ملتوی کردیا گیا ۔ اور قدرتِ خداوندی سے خواجہ صاحب کا داخلہ مدرسہ بحرالعلوم لطیفی ، کٹیہار(بہار) میں ہوگیا۔ جس میں خلیفۂ اعلیٰ حضرت ملک العلماء مولانا محمد ظفرالدین بہاری علیہ الرحمہ ، علامہ سلیمان بھاگل پوری اور مولانا محمدیوسف پٹنوی علم و فن کے گوہر ہاے آب دار لٹارہے تھے۔

ایسے جید اور نابغۂ روزگار اساتذۂ کرام کی ظرف نگاہی نے کچھ ہی دنوں میں مولانا خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ میں علم و فن کی بھر پور توانائی بھر دی۔یہاں تک کہ ۱۵/۱۶ سال کی عمر میں آپ نے ضلع پورنیہ ہی میں ہزاروں دیوبندی عوام کے جھرمٹ میں ضلع کے دیوبندی اکابر سے مناظرہ کرکے اُن کو سَکتے میں ڈال دیا۔ اور پھر کچھ دنوں بعد علاقہ کے پیرِ طریقت مولوی عبدالمبین ملاٹولہ جون پور کو اُن کے مریدین کے ہجوم میں بحث کرکے نہ صرف خاموش بل کہ ہکّا بکّا کردیا۔

اِ ن حالات کے پیش نظر مولانا زین الدین رضوی علیہ الرحمہ نے اپنے ہونہار فرزند کا سنجیدگی سے جائزہ لیا ۔ اور پھر عادلانہ انداز میں بحث و مباحثہ کے ساتھ فریقین کی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا یہاں تک کہ وہ وقت آیا کہ اُن کے والدِ ماجد نے دیوبندی نظریات سے اپنی برأت و بیزاری کا اظہار کردیا اور مسلکِ اہل سنت و جماعت میں نہ صرف شامل ہوگئے بل کہ حضور مفتیِ اعظم قدس سرہٗ کے دستِ حق پرست پر بیعت بھی ہوگئے۔ اِس ایمان افروز واقعہ سے پورے علاقے میں ایک طوفان سا مچ گیا۔ ہر جگہ یہ افواہ اڑائی جانے لگی کہ بڑے مولانا نے اپنے فرزند کی محبت میں مذہب و مسلک تبدیل کردیا ہے ۔۔۔ لیکن دونوں باپ بیٹے کی حسنِ تدبیر اور مواعظِ حسنہ سے نہ صرف یہ طوفان تھم گیا بل کہ : ورایت الناس ید خلون فی دین اللہ افواجا ، ۔کی تفسیر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی ۔ لوگ دیوبندیت سے بیزار ہوکر اہل سنت کے پرچم تلے آنے لگے۔ اس کامیابی اور فتحِ مبین کے وقت امامِ علم وفن علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ کی عمر شریف صرف ۱۸ سال کی تھی۔

حضور ملک العلماء مولانا ظفرالدین بہاری علیہ الرحمہ کے پاس آپ نے خوب اکتسابِ علم کیا ۔ معقولات کی منتہیٰ کتابیں ہدایہ آخرین اور احادیث کی سنن کتابیں ابھی زیرِ درس تھیں کہ اچانک حضور ملک العلماء کی طبیعت ناساز ہوگئی اور تعلیمی سلسلہ رک گیا۔

امامِ علم وفن علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ بحرالعلوم لطیفی، کٹیہار(بہار) سے منتقل ہوکر مرکزِ اہل سنت بریلی شریف پہنچ گئے ۔ یہاں ایک سال رہ کر معقولات کی تعلیم حاصل کی اور عمر کی ۱۹ویں بہار میں دستارِ فضیلت سے سرفراز ہوکر وہیں دارالعلوم مظہرِ اسلام ، بریلی شریف میں معقولات کے مدرس ہوگئے۔

چند اہم مناظرے :
امامِ علم وفن علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ کا فراغت کے دورِ اول میں مناظرہ و مباحثہ محبوب مشغلہ تھا ۔ تا آں کہ بہ طورِ تمرین حضور محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ کے فرمان کے مطابق خود اُن سے علمِ غیب کے مسئلہ پراور بہ حکم علامہ خلیل احمد کاظمی محدث امروہوی علیہ الرحمہ خود اُن سے مسئلہ امکانِ کذب پر بھی مباحثے کا موقع ملا۔ تاج دارِ اہل سنت حضور مفتیِ اعظم قدس سرہٗ کے حکم سے آپ نے کئی جگہ مناظرے کیے ۔ جن میں سے چند مقامات یہ ہیں۔ دھام پور، بجنور، ککرالہ ، بدایوں، ہلدوانی، نینی تال اور خاص شہر بریلی شریف میں نواب ضمیر احمد صاحب کی کوٹھی پر شیعہ مجتہدسے اور زکاتی محلہ میں مودودی جماعت سے مناظرہ کیا ۔ بہ فضلہٖ تعالیٰ ہر جگہ پر امامِ علم وفن علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ نے مختصر سی نشست میں بھرپور کامیابی حاصل کی۔ اسی اثنا میں حضرت ٘مخدوم صابر کلیری علیہ الرحمہ کی زیارت کے موقع پر سہارن پور اور دیوبند بھی پہنچے۔ سہارن پور کے علما نے اپنے یہاں کے بیس ہونہار طلبہ کو اچھی طرح سبق پڑھا کر دیگر دیڑھ سو طلبہ کی معیت میں براے مناظرہ امامِ علم وفن علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ کے پاس بھیجا ۔ بحمد اللہ تعالیٰ آپ نے صرف دوگھنٹے میں سب کو خاموش کردیا اور سب اپنا سا منھ لے کر رہ گئے۔

علم و فضل اور تصانیف :
امامِ علم وفن علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ درسِ نظامیہ کے موجودہ تمام مروجہ فنون مثلاً : صرف و نحو، معانی و بیان ، فقہ و اصول ، تفسیر، حدیث ، وغیرہ کے علاوہ ہیئت و ہندسہ ، توقیت ومساحت، جبر و مقابلہ ، مناظرہ و مرایا ، ارثماطیقی ، لوگارتھم ، علمِ مثلث ، علم جفر اور عمل بالخطائین وغیرہ میں بھی کامل دسترس ر کھتے تھے۔

امامِ علم وفن علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ کی مندرجہ ذیل کتابیں اُن کی علمی ، تحقیقی اورقلمی خدمات کا بین ثبوت ہیں۔
1۔ لاوڈ اسپیکر کی آواز اصلی یا نقلی
2۔ لاوڈاسپیکر اور نماز
3۔ ٹی وی اور ویڈیو کی تصویر اصلی یا فرضی
4۔ اعلیٰ حضرت اور علم جفر
5۔ اعلیٰ حضرت اور جبر و مقابلہ
6۔اعلیٰ حضرت اور علم تکسیر
7۔ لوگارثم کی حقیقت
8۔الہلال (مقالات)
9۔شبِ قدر کے فضائل
10۔دیوبندی تابوت میں آخری کیل
11۔ٹی وی کی تحقیق (ٹی وی کے عدم جواز پر محققانہ و فاضلانہ تحقیق)۔۔وغیرہ

علاوہ ازیں درجنوں علمی و تحقیقی مضامین و مقالات ۔

بیعت و خلافت:
امامِ علم وفن علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ بریلی شریف کے زمانۂ قیام میں حضور مفتیِ اعظم قدس سرہٗ سے بیعت ہوئے ۔ اور ۱۹۷۰ء میں حضور مفتی اعظم علامہ شاہ محمد ٘مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی علیہ الرحمہ نے آپ کو خلافت و جازت سے نوازا۔

تلامذہ :
امامِ علم وفن علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ سے اکتسابِ فیض کرنے والوں کی تعداد کثیر ہے تاہم چند مشہور تلامذہ کے نام یہ ہیں:
مولانا مفتی مطیع الرحمٰن مضطر رضوی پورنوی
مولاناسیدمحمدہاشمی میاں کچھوچھوی
مولانا سید انور چشتی ، جامعہ قادریہ بدایوں شریف
مولانا محمد انوار احمدقادری ابن مفتی جلال الدین احمد امجدی
مولانا محمد یاد علی رضوی پورنوی
مولانامحمد اسید الحق عاصم القادری ازہری بدایونی ۔ وغیر ہم

وصال:
امامِ علم وفن علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ کا وصال ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۳ء مطابق ۱۴ ذوالحجہ ۱۴۳۴ھ بروز اتوار شب میں تین بج کر تیس منٹ کو ہوا۔ اللہ عزوجل حضرت کے درجات کو بلند تر فرمائے اور ہمیں ان کے علمی فیضان سے مالامال فرمائے(آمین بجاہ النبی الامین ﷺ)
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 646805 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More