بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حضرت عبداﷲ بن عمر بن خطاب
محافظ سنت رسول اﷲﷺ
(11جمادی الثانی یوم وفات کے حوالے سے خصوصی تحریر)
حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ تعالی عنہ جید صحابہ کرام میں سے ہیں اور امت
مسلمہ کے صف اول کے فقہاومحدثین و مفسرین میں ان کا شمار ہوتاہے۔614عیسوی
کو پیداہوئے جب کہ محسن انسانیت ﷺ نے610میں اعلان نبوت فرمایاتھا۔ان کے
والد محترم حضرت عمر بن خطابؓ کی تین بیویاں تھیں،قبول اسلام کے بعدصرف ایک
بیوی حضرت زینبؓ آپ کے ساتھ مشرف بہ ایمان ہوئیں،انہیں کے بطن سے حضرت عبداﷲ
بن عمربن خطاب نے جنم لیا۔والدین کے قبول اسلام کے باعث حضرت عبداﷲ بن
عمرؓکو آغاز شعورسے ہی صحبت ایمان میسر آگئی جو آپ کی نیک طینت طبیعت کو اس
طرح راس آئی کہ پھرتاحیات اسی دین کے ساتھ وابستگی آپ کی مقامی و تاریخی
پہچان بن گئی۔حضرت عبداﷲ بن عمرؓنے کم و بیش دس سال کی عمر میں باقائدہ
اسلام قبول کرلیاتھااوراپنے والداور بہن’’حضرت حفصہ‘‘کے ساتھ مکہ سے مدینہ
ہجرت بھی کی ،یہی بہن بعد میں ام المومنین بھی بن گئیں۔آغاز شباب سے قبل سے
ہی آپ نبی علیہ السلام کے ساتھ ساتھ رہتے تھے اور ان ﷺ کے ایک ایک عمل کو
اپنے ذہن و عمل میں محفوظ کرتے چلے جاتے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کم سنی کی وجہ
سے جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے،جنگ احد میں شرکت کی کوشش کی لیکن اجازت نہ
مل سکی پس جنگ احزاب میں پہلی دفعہ آپ نے بھرپور شرکت کی اور خندق کی
کھدائی اپنا مقدور بھر حصہ ڈالا۔
اگرچہ ہرصحابی رسولﷺاپنی جگہ نبی کی سنتوں کا جیتاجاگتانمونہ ہے اور نبی ﷺ
کے ہرطالب علم کی یہ کوشش ہوتی کہ نبی علیہ السلام کے ہر قول و فعل کو اپنے
حافظہ و عمل میں محفوظ و مامون کر لے لیکن بعض صحابہ کرام اس مقدس عمل میں
دوسروں پر فضیلت لے گئے اورعبداﷲبن عمرؓان خاص الخاص اصحاب رسول ﷺ میں سے
ہی ہیں۔حضرت عبداﷲ بن عمرؓسفروحضرمیں نبی محترم ﷺکے شانہ بشانہ و ہم رکاب
ہوتے اور ایک ایک عمل نبویﷺ پرگہری نظر رکھتے حتی کہ حجۃ الوداع کے سفر
مبارک کے دوران میں حضرت عبداﷲ بن عمرؓکواس بات کا بھی علم تھا کہ کہاں
کہاں ختمی المرتبتﷺنے قیام کیا،کہاں کہاں استراحت فرمائی اور یہاں تک کہ
حوائج ضروریہ کی تکمیل کے لیے کہاں کہاں اپنی سواری سے نزول فرمانے کے
مقامات بھی آپ کو ازبر تھے۔تاحیات جب بھی حضرت عبداﷲ بن عمرؓنے حج کیا تو
سنت کے عین مطابق اس طرح کیاکہ راستوں کے انتخاب سے بین السفراستراحت و
قیام تک بمطابق سنت اتباع کیا،یہاں تک کہ جس جگہ محسن انسانیت ﷺ نے اجابت
فرمائی تھی وہاں بھی آپ جاکر بیٹھ گئے اگرچہ آپ کو حاجت نہ تھی اور پھر اٹھ
کر چل دیے۔سنت نبویﷺ کااایک ایک عمل آپ کو اس قدر عزیز تھا کہ آپ ﷺ نے جہاں
بیٹھ کر دعاکی وہاں آپ نے بھی بیٹھ کر دعا کی جہاں آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر دعا
کی وہاں آپ نے بھی کھڑے ہو کر دعا کی۔حجاج بن یوسف کے زمانے میں جب کعبۃ اﷲ
محاصرے میں تھاتو بھی حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے عمرے کی نیت سے احرام
باندھالوگوں نے بتایاکہ راستے پر خطر ہیں تب آپ نے فرمایاکہ آپ ﷺ کو بھی تو
صلح حدیبیہ کے سفر میں روک دیاگیاتھااگرمجھے بھی روک دیاگیاتو میں بھی اسی
طرح بمطابق سنت راستے میں ہی قربانی کروں گااورحلق کراکے تو احرام کھول دوں
گااس طرح ایک سنت اداہوجائے گی۔
اس کے باوجود کہ عالم شباب کا بہترین حصہ خدمت اقدس ﷺ میں ہی گزارااور ایک
ایک قول و فعل نبیﷺ بنظر غائر مطالعہ کیااوراسے اپنی یادداشت و ذہن کے
بہترین حصہ میں جگہ عطا کی پھر بھی سنت کے بارے میں حزم و احتیاط کا یہ
عالم تھا کہ اس وقت تک روایت حدیث کے لیے زبان نہ کھولتے تھے جب تک کہ حدیث
کے ایک یک لفظ کے بارے میں روز روشن کی طرح یقین کامل نہ ہوتا۔احتیاط کا
یہی عالم فتوی دینے کے معاملے میں بھی ہمیشہ پیش نظر رہا،ایک بارایک سائل
نے کسی معاملے میں فتوی دریافت کیاتو صاف بتادیاکہ مجھے نہیں معلوم،سائل کے
جانے بعد خوشی کااظہارکیاکہ ایک معاملہ میں ظن و تخمین اور قیاس و اندازاہ
آرائی کی بجائے لاعلمی کااظہارکردیا۔حزم و احتیاط کایہی عالم ان کے قاضی
بننے میں حائل رہاحالانکہ اپنے زمانہ میں ان سے بڑھ کر اور کوئی اس منصب
عالیہ کااہل نہ ہوگا۔خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان نے ایک بار پیشکش بھی
کی کہ مسندقضاپر براجمان ہو جائیں لیکن تقوی واحتیاط گزاری کے باعث طبیعت
اس طرف مائل نہ ہوئی۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کی طبیعت میں زہد
وریاضت غالب تھے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓرات کابیشتر حصہ عبادات میں گزارتے
تھے،رب کے سامنے گریہ زاری میں بہت کثرت کرتے اور قرآن کی تلاوت کرتے
رہتے۔رحم دلی ،شفقت اوررقت قلبی آپ کی طبیعت کا خاصہ تھی۔خودمالدارتاجر تھے
اور بیت المال سے بھی وظیفہ وصول کرتے تھے لیکن سب کچھ راہ ﷲ بانٹ دیتے تھے
اور نہ ہی تو خود کبھی مال ومتاع جمع کیا بلکہ دوسروں کو بھی اسی رویے کی
تلقین کرتے رہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓکے دسترخوان پر ہمیشہ غریبوں اور یتیموں
کا ہجوم رہتاتھا۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓکے ایک دوست میمون بن محران بتاتے ہیں
کہ ایک بار انہوں نے حضرت عبداﷲ بن عمرؓکے گھرمیں داخل ہو کر موجود سامان
کابغور مشاہدہ کیااوراس کی قیمت کااندازہ لگایا،میمون بن محران کے مطابق
حضرت عبداﷲ بن عمرؓکے گھر کے کل سامان کی قیمت کھینچ تان کر بمشکل ایک سو
درہم ہی بنی۔ اس سفید پوشی کی وجہ حضرت عبداﷲ بن عمرؓکی غربت قطعاََ بھی
نہیں تھی بلکہ سخاوت اور درویشانہ طبیعت اور تعامل علی السنت نبویﷺتھی جس
نے انہیں وسائل کے ہوتے ہوئے بھی پرتعیش زندگی سے باز رکھااور سادگی و سادہ
لوحی ان کا ہمیشہ وطیرہ حیات رہی۔حالانکہ انہوں نے بنی امیہ کے
دورکاکثیرزمانہ پایاجب مسلمانوں میں دولت کی ریل پیل تھی اور عجمی خزانے
بھی مسلمانوں پرامڈے پڑے تھے پس اس دور میں بھی حضرت عبداﷲ بن عمرؓبہتی
گنگامیں ہاتھ دھونے سے احترازکیا۔
حضرت عبداﷲ بن عمرؓکی جرات و بے باکی کاعالم یہ تھا کہ حجاج بن یوسف،جس کے
خوف سے بڑے بڑے کاپنتے تھے اور جس کی سفاکی و ظلم کے چرچے تاریخ کے کسی
طالب علم سے پوشیدہ نہیں ہیں،اس نے ایک بارکہاکہ عبداﷲ بن زبیر نے کتاب اﷲ
کو مسخ کیاتھا،حضرت عبداﷲ بن عمرؓوہیں کھڑے ہوئے اور اس کے منہ پر کہاکہ
توجھوٹ بولتاہے،توجھوٹ بولتاہے،توجھوٹ بولتاہے۔حضرت عبداﷲ بن عمرؓکی اس بے
باکی پر حاضرین پر سناٹا چھاگیاکیونکہ آج تک کسی کو حجاج بن یوسف سے اس طرح
کرنے کی جرات نہیں ہوئی تھی۔حجاج بن یوسف نے حضرت عبداﷲ بن عمرؓکوعبرت ناک
سزاکی دھمکی دی جس پرماحول کوسانپ سونگھ گیاتب حضرت نے اپنے ہاتھ سے حجاج
کے چہرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اگر تو ایسی سزادے بھی دے گاتو تجھ
پر حیرانی نہیں ہوگی کہ تو ہے کہ ایک بے وقوف اور ظالم و جابر حکمران
ہے۔73ہجری کو حفاظت سنت کا یہ آفتاب ایک مختصر علالت کے بعد تاقیامت غروب
ہو گیا،اناﷲوانا الیہ راجعون۔آپ کی متعدد اولادیں تھیں جن میں سے عبدالرحمن
بن عبداﷲ بن عمراور سالم بن عبداﷲ بن عمر نے کافی شہرت پائی۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداﷲ بن عمرؓسے روایت ہے کہ میں نے آپ
ﷺ سے سنا کہ وہ فرماتے تھے کہ روزمحشر ایک مسلمان اﷲ تعالی کے روبرو پیش
ہوگااﷲ تعالی اسے اس کے گناہ یاد دلائے گاکہ دنیا میں تو نے یہ یہ اور یہ
یہ گناہ کیے؟؟وہ جواب دے گااے بار الہ جی ہاں یہ سب گناہ مجھ سے سرزد
ہوئے،اﷲ تعالی کہے گا دنیامیں میں نے ان سب گناہوں پر پردہ ڈال دیاتھااور
آج میں وہ سب تیرے گناہ معاف کرتا ہوں تب اس کے اچھے اور نیک اعمال والا
نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں تھما دیا جائے گا۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت عبداﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ مواخات کے موقع
پر جب محسن انسانیت ﷺمہاجرین اور انصار کو باہم بھائی بھائی بنارہے تھے تو
حضرت علی کرم اﷲ وجہ اس حال میں حاضر خدمت اقدس ہوئے کہ غم و اندوہ ان پر
سوار تھااورآنکھوں سے اشک بہتے چلے آ رہے تھے،انہوں نے عرض کی اے اﷲ کے
رسولﷺآپ لوگوں کو باہم بھائی بھائی بنارہے ہیں اور میرابھائی کسی کو نہیں
بنایا؟؟اس پر محسن انسانیتﷺنے فرمایا تم میرے بھائی ہو،اس دنیامیں بھی اور
آخرت میں بھی۔
حضرت عبداﷲ بن عمرؓکو امت کے ہاں ایک بہت اہم مقام حاصل ہے،اگرچہ صدیاں بیت
گئیں لیکن ان کے فتاوی آج بھی استنادوقانونی نظیرکی حیثیت رکھتے
ہیں،تفسیرکامیدان ہو یا روایت حدیث کااور فقہ کے مسائل ہوں یاقانون سازی کے
مرحلے، حضرت عبداﷲ بن عمرؓکی رائے آج بھی علمائے امت کے ہاں بہت بڑاوزن
رکھتی ہے۔یہ اس دنیامیں انہیں حاصل ہونے والا مقام و مرتبہ ہے جب کہ آخرت
کے لیے وہ جنت کے راستوں کانشان ہیں اورآپ کی شخصیت وہ سنگ میل ہے جس کی
شاہراہ دوزخ سے بچاتی ہوئی سیدھی جنت کی طرف جاتی ہے۔اﷲ تعالی آپ سے راضی
ہو،آپ کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور اﷲ کرے کہ امت کی کوکھ آپ جیسے مشاہر
سے ہری بھری رہے،آمین۔
|