نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ نے حضرت علیؓ کو علم و دانش
کادروازہ قراردیا۔ آپ کے ایک بڑے مشہور قول کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ معاشرے
ظلم پر زندہ رہ سکتے ہیں ،مگر انصاف کے بغیر نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
تمام مقتدر سیاسی رہنمااور عدلیہ کا ہر فرد اس سے نہ صرف متفق ہوگا بلکہ اس
کاپرچار بھی کرتا ہوگا ۔ لیکن آج کل مجھ سمیت اس پر کوئی عمل پیرا بھی ہو
اس پر یقین کرناذرا مشکل ہے۔ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں مگر یہ بھی سچ ہے کہ
معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے انصافی کا سارا ملبہ اربابِ اختیار اور عدلیہ پر
ہی آکر گرے گا۔ بے انصافی کا موجودہ طوفان اپنے شدومد سے نہ صرف جاری ہے
بلکہ اب اس میں کئی گنااضافہ ہوا ہے۔ کوئی ایک ڈیڑھ دھائی پہلے جیسے فاٹا
کے علاقے غیر محسوس طریقے سے مذہبی انتہا پسندی کے زیر سایہ آگئے تھے۔بعینہ،
آجکل پنجاب کے بڑے شہروں میں بھی حالات اسی طرف گامزن نظر آتے ہیں۔ لوگ
عدلیہ سے مایوس ہو کر اپنے مسائل اور جھگڑوں کے تصفیوں کیلئے پہلے پنچائت
اور اب مذہبی انتہا پسندوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال فیصل
آباد کی ہے۔ جہاں 2014ء کے آغاز میں ایک مذہبی گروہ نے نہ صرف باقاعدہ
دارلقضا کا قا ئم کیا بلکہ لوگوں کو سمن بھی بھیجے ۔ وہ سمن باقاعدہ
چھپوائے گئے اور ان پر دارلقضا کا پتہ بھی درج تھا۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت
ہے کہ پنجاب کے بڑے شہروں میں بھی عدلیہ پر عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے اور
اگر یہ حالات مزید کچھ عرصہ جاری رہے تو انتہا پسند یہا ں بھی لوگوں کو
انصاف کے نام پر ورغلا کر اپنے ساتھ ملا اور اپنے اپنے ہتھیار بند جتھوں کو
منظم کر کے گورنمنٹ کی رٹ کو باقاعدہ چیلنج بھی کرسکتے ہیں۔ کسی کو ابھی
بھی یہ شک ہو کہ ایسے جتھے یہاں منظم نہیں کئے جا سکتے تواس حوالے سے گوجرہ
کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جہاں 2009ء میں سانحہ گوجرہ کے وقت تھوڑی ہی
دیر میں مسلح گروہ عیسائیوں پر ٹوٹ پڑا۔ سوال یہ ہے کہ ان کے پاس ہتھیار
کہاں سے آئے۔ یقینا اسلحہ سے لیس انتہا پسندوں کے گروہ نہ صرف پنجاب میں
موجود ہیں بلکہ اپنی قیادت کی ایک کا ل پرغیر معمولی سرعت سے منظم ہو کر
کارروائی کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
یہ صورتحال گو کہ پریشان کن ہے لیکن اس کا حل اس مرحلے پر بھی نا ممکن نہیں
ہے بشرطیکہ اربابِ اختیار اور عدلیہ اصلاح احوال کا پختہ ارادہ کر لیں۔ ہم
سب اس بات سے متفق ہیں کہ ہمارے ملک میں رائج کریمینل جسٹس کا نظام نہ صرف
ناقص ہے بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ مجرموں کو تحفظ دینے والا ہے۔ اس بات
پر بھی سبھی متفق ہیں کہ اس وقت ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے۔ ہر کوئی بھی اس
حقیقت سے آگاہ ہے کہ زمانہ امن کے قوانین جنگی صورتحال میں قطعا َ َ معاشرے
میں توازن برقرار رکھنے کی ضمانت نہیں دے سکتے۔تو کیا سیاسی اربابِ اختیار
کی اس کی باز پرس نہیں ہونی چاہئے ؟ پچھلے چھ سالوں میں آج تک اس ضمن میں
قانون سازی کی کوئی سنجیدہ اور عملی کوشش شاید اس لئے نہیں کی گئی کہ عوام
کے لہو کا رنگ سرخ نہیں ہوتا ؟ یا سیکیورٹی اداروں خصوصاََ فوجیوں کی
زندگیوں سے کھیلنے والے دہشت گر د شاید اربابِ بست وکشاد کے فوج کو سرنگوں
کرنے کے دیرینہ خواب کی تکمیل میں مگن تھے۔ اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کی
اسمبلی رکنیت بچانے کیلئے 20 منٹ میں قانون سازی کر سکتے مگر یہی سیاسی
زعماء چھ سال بعد بھی اس کشمکش میں ہیں کہ وہ کیونکر فوج کو فتح کرنے میں
مدد کرنے والے دہشت گرد ’’حلیفوں‘‘ کیخلاف کسی طاقتور قانون کا دائرہ کھینچ
کر ان کے قانون کی پکڑ سے بچ نکلنے کے راستے مسدود کر دیں ؟ خدا خدا کر کے
اگر تحفظِ پاکستان آرڈنینس پیش کر ہی دیا گیا ہے تو اس کو بھی متنازہ بنانے
میں وہی لوگ پیش پیش ہیں جنہوں نے پانچ سال میں دہشتگردی کیخلاف قانون سازی
کو یا تو شجر ممنوعہ سمجھ کر ہاتھ نہیں لگایا ، یا وہ فوج سے اپنے پرانے
سپہ سالارکی غلطیوں کا حساب برابر کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ مگر ان سے
دست بدستہ عرض ہے کہ اگر آپ کے سیاسی رہنما کے ساتھ فوج کے کسی سپہ سالار
نے زیادتی کی تو کیا اس اکیلے ہی کے ہاتھ اس میں رنگے ہیں یقینناََ ایسا
نہیں ہے عدلیہ اور مفاد پرست سیاستدان بھی اس کے ساتھ برابر کے شریک تھے۔
دوسری طرف عدلیہ کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔عدلیہ نے بھی اپنے ماضی سے
کوئی سبق نہیں سیکھا۔ تاریخ دینے کے علاوہ عدلیہ کسی عام آدمی کو اس کی چار
دن کی عمر دراز میں فیصلہ دے دے ،ممکن نہیں ہے۔ یہاں تو نو ماہ کے موسٰی کو
جان لیوا حملے کرنے کے جرم میں اگر عدلیہ سے کوئی ریلیف مل سکتا ہے تو وہ
بس اتنا ہی کہ ’’معزز‘‘ جج صاحب اسکی پہلی پیشی پر ضمانت لے لیں ورنہ اس کا
جیل جانا حتمی ہے۔ اور یوں اس شیر خوار کی ماں کو بھی جیل کی ہو ا کھانا
پڑتی ۔
وجوہات کچھ بھی ہوں پاکستان کے قانون ساز اور قانون دان اپنے اس روئیے سے
اس ملک کے عوام میں بے بسی کو اسقدر بڑھا رہے ہیں جہاں پہنچ کر عوام کے پاس
ہتھیار اٹھانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔ اور اگر قانون یوں ہی لولا
لنگڑا اور کریمینل فرینڈلی ہی رہا تو وہ دن دور نہیں جب عوام ان اداروں
کیخلاف صف آرا ہوں۔ عدلیہ کے ہراول دستے یعنی وکلا پر حملوں کا سلسلہ شروع
کر دیا گیا ہے۔جس کا مقصدایک طرف عدلیہ کو پیغام دینا ہے کہ اس کو تحفظِ
پاکستان آرڈنینس پر کس طرح کا فیصلہ دینا ہے اور دوسری طرف پاکستانی عوام
کو یہ باور کرانا ہے کہ اصل طاقت کا منبع انتہا پسند ہیں وہ جس کو چاہیں
الیکشن لڑنے دیں ا ور وہ اپنے مقاصد کیخلاف ہونے والی قانون سازی کی کوشش
کو سبوتاژ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لئے عوام کو جلد یا بدیر ان کا
ہی ساتھ دینا ہے۔ بقول شاعر:
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے |