حالیہ دنوں میں اسلام آباد کاموسم گرم ہو رہا ہے اور گرمی
کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے ایسے ہی اسلام آباد کی فضاؤں میں جنرل ریٹائرڈ
مشرف کے مقدمے کی وجہ سے وفاقی حکومت اور فوج کے درمیان بھی موسم کافی گرم
نظر آتا ہے
وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کے دو جرنیلوں کو بائی پاس کرتے ہوئے جنرل
راحیل شریف کو فوج کا سربراہ مقرر کیا تو سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہو گیا
کوئی اسے ساڈا جج ساڈا جرنیل تے ساڈا افسر کہہ رہا تھا تو کوئی اسے شریف کے
سابقے سے مشابہت دے رہا تھا غرضیکہ ایک طوفان تھا جو تھمنے کا نام ہی نہیں
لے رہا تھا جب حکومت نے سابق آرمی چیف کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا تب پاک
آرمی کے سربراہ کے ایک مختصر سے بیان نے ملک کے سیاسی منظر نامے میں ہلچل
مچا دی جس کے بعد خواجگان کی طرف سے جوابی فائر نے جلتی پر تیل کا کام کیا
سب سے زیادہ شدت اس وت پیدا ہوئی جب خواجہ آصف نے اسمبلی فلور پر داروں سے
متعلق تھوڑا کڑوا بیان دیا اس دوران فوج کے کورپس کمانڈرز کی ماہانہ
کانفرنس کے دوران فوج کے اہم جرنیلوں کی طرف سے صورتحال پر ناپسندیدگی کی
اطلاعات موصول ہوئی اسی پس منظر میں وزیر اطلاعات یہ وضاحت کرنے کی ضرورت
محسوس ہوئی ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اگرچہ سیاسی
حلقے اور تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ فوج اور ملک کی سیاسی حکومت کے
درمیان کوئی بڑا بحران نہیں ہے اور ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں
ہے لیکن کوئی بھی اس حقیقت سے مکمل طور پر انکار کرنے کا حوصلہ نہیں کرتا
کہ حکومت کے متعدد اقدامات اور مختلف معاملات پر وزراء کے بیانات فوج میں
بے چینی پیدا کرنے کا سبب بنے کانفرنس کے بعض شرکاء کے حوالے سے جو خبریں
اخبارات میں شائع ہوئی ہیں ان میں فوجی قیادت کی بے چینی کا ذکر موجود ہے
ان خبروں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فوجی لیڈر بعض معاملات پر حکومتی
اقدامات اور رویوں سے خوش نہیں ہیں بظاہر جنرل راحیل شریف کے بیان میں کوئی
خاص بات نہیں ہے اور جیسا کہ وزیر اطلاعات پرویز رشید اور اپوزیشن لیڈر سید
خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ان کا بیان بالکل مناسب ہے ہر ادارے کو اپنے
مفادات کا تحفظ کرنے اور اپنے وقار کے لئے کام کرنے کا حق حاصل ہے لیکن
پاکستان کے مخصوص پس منظر میں یہ بیان غیر معمولی طور پر سخت اور ایک
وارننگ کی حیثیت رکھتا ہے اگرچہ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے
کہ پاک فوج ملک کے سیاسی نظام کی حمایت کرتی ہے اور اسے خراب کرنے کی خواہش
نہیں رکھتی لیکن پاکستان جیسے ملک میں فوج کو بطور ادارہ تنقید کا نشانہ
بنانا یا ایسے بیانات جاری کرنا جن سے فوج یا فوجی قیادت کی توہین کا پہلو
نکلتا ہو انتہائی خطرناک اور پریشان کن ہے تاریخی پس منظر کے علاوہ ملک کی
موجودہ سکیورٹی صورتحال بھی اس حوالے سے بے حد اہمیت رکھتی ہے جنرل راحیل
شریف نے اپنے ایک بیان میں ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات کا ذکر
کیا تھا حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کو بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات کا
سامنا ہے ابھی طالبان کے ساتھ معاملات طے نہیں ہو پا رہے کہ دیگر انتہا
پسند گروہ اپنے آپ کو منوانے کے لئے دہشتگردی میں مصروف عمل ہیں گزشتہ ہفتہ
کے دوران ہی سبی اور اسلام آباد میں ہونے والے بم دھماکوں میں 50 سے زائد
لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے سکیورٹی کی اس غیر معمولی صورتحال میں فوج
اور اس سے متعلقہ اداروں کی اہمیت میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے جمہوریت کے
حوالے سے یہ اصول بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے کہ سیاسی معاملات میں فیصلے کرنے
کا حق اور اختیار صرف عوام کے منتخب نمائندوں اور ان کی منتخب کردہ حکومت
کو حاصل ہے اس اصول کو ماننے کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ
ملک میں صرف فوج ہی ایک ایسا ادارہ ہے جو احسن طریقے سے کام کر رہا ہے یہی
وجہ ہے کہ امن و امان کی خراب صورتحال ہو یا کسی قدرتی آفت کی صورت میں
بحالی اور امداد کی ترسیل کا کام سرانجام دینا ہو ، فوج کو ہی آگے بڑھ کر
خدمات سرانجام دینا پڑتی ہیں ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے کے
دعویدار سیاستدان بار بار موقع ملنے کے باوجود کوئی ایسا ادارہ استوار کرنے
میں کامیاب نہیں ہو سکے جو بحرانی صورتحال میں امداد کی ترسیل ، بحالی یا
امن و امان کی نگرانی کے لئے خدمات سرانجام دے سکے ملک کی سیاسی مشکلات کے
حوالے سے سابقہ فوجی آمروں کو جتنا بھی الزام دیا جائے مگر یہ کھلی حقیقت
ہے کہ مضبوط ادارے استوار کرنے میں ناکامی کی ساری ذمہ داری سیاستدانوں پر
عائد ہوتی ہے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران سیاستدانوں کو برسر اقتدار آنے کے
متعدد مواقع ملے لیکن ہر بار ہر سیاسی لیڈر نے ذاتی پوزیشن مستحکم کرنے اور
گروہی مفادات حاصل کرنے کے سوا قومی سطح پر کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام
نہیں دیاملک میں امن و امان اور سکیورٹی کے معاملات بگڑنے کے باوجود پولیس
کے ڈھانچے یا اس کو بہتر بنانے اور مستحکم کرنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی
گئی یہی وجہ ہے کہ کراچی ہو یا بلوچستان ، وہ معاملات جن میں پولیس کو مؤثر
کردار ادا کرنا چاہئے ، ان میں بھی رینجرز یا پھر انتہائی صورتوں میں ایف
سی اور فوج کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ان حالات کا تقاضہ ہے کہ ملک کے برسر
اقتدار سیاستدان فوجی آمروں کی برائیوں اور غیر قانونی سرگرمیوں کی تفصیلات
ازبر کروانے اور بے وقت کی راگنی کے بجائے اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں پر
غور کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کی کوشش کریں افسوس کا مقام ہے کہ یہ رویہ
ابھی تک دیکھنے میں نہیں آ یااوراسی تناظر میں سابق صدر آصف علی زرداری اور
میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات اور بعد ازاں رضا ربانی کی طرف
سے جاری ہونے والے بیان کہ: اگر کوئی بری صورت حال پیدا ہوئی تو ہم جمہوریت
کا ساتھ دیں گے :بڑا کھلا اشارہ ہے کہ کہیں سے خطرے کی بو محسوس کی جا رہی
ہے اس وقت پاکستان میں پارلیمانی طرز حکومت موجود ہے لیکن اہم معاملات صرف
وزیراعظم اور ان کے چند دل پسند رفقاء کے مشوروں اور صوابدید سے طے پاتے
ہیں قومی اسمبلی کے اراکین کو سرکاری فیصلوں کے لئے ربر اسٹیمپ کے طور پر
استعمال کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں پارلیمانی جمہوریت کا اہم ترین ادارہ
پارلیمنٹ ابھی تک ٹھوس بنیادوں پر استوار نہیں ہو سکا اور نہ ہی اس کے
بیشتر ارکان کو جمہوری پارلیمانی روایات کا علم ہے ایسے میں حکومت کے چند
دل پسند رفقاء اور وزراء وہ غلطی دہرا رہے ہیں جو ماضی کے سیاستدان دہراتے
آئے ہیں ۔ایک ایسے وقت میں جب ملک بڑی مشکل سے بہتر راستے پر گامزن ہے طاقت
کے ان دونوں ستونوں کو جو ش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہو گا۔ |