جمعرات کے روز وزیراعظم
میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے
ہنگامی اجلاس میں ملکی مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے کافی خوش آیند پیش رفت
ہوئی ہے۔ اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان، وزیر دفاع خواجہ
آصف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی سرتاج عزیز
کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف، ڈائریکٹر جنرل آف انٹر سروسز
انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی اور ڈائریکٹر جنرل آف انٹیلی جنس بیورو آفتاب
سلطان نے اہم ملکی امور کو سلجھانے کی بات کی ہے۔اجلاس میں طالبان سے
مذاکرات کی حکمت عملی، افغانستان میں انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی
صورتحال اور ایران سے حالیہ سرحدی معاملات پر کشیدگی، ایرانی قیادت کے
پاکستان پر الزامات اور دھمکیوں پر مشتمل ایجنڈے پر غور کیا گیا، گزشتہ کچھ
ہفتوں سے سول اور ملٹری قیادت کے درمیان کشیدگی پر بھی بات چیت ہوئی ۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دو ٹوک اعلان کیا کہ
فوج ملکی سلامتی اور تحفظ کے لےے ہر طرح کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لےے تیار
ہے، اپنی سرحدوں پر کسی کو بھی چھیڑ خانی کی اجازت نہیں دیںگے، نہ کسی کے
معاملات میں مداخلت کررہے ہیں ،نہ کسی کو اپنے معاملات میں مداخلت کرنے
دیںگے۔تجزیہ کاروں کے مطابق اجلاس کی کامیابی سے کافی حد تک یہ واضح ہوگیا
کہ حکومت اور فوج میں تناﺅ نہیں ہے، اگر کچھ تناﺅ تھا تو وہ بھی وقتی تھا
اور فوج پر تنقید سمیت اہم امور پراختلاف رائے کے نتیجے میں تناﺅ کی کیفیت
عارضی ثابت ہوئی۔ وسیع تر قومی مفاد سول ملٹری اختلافات پر غالب آ گیا، فوج
اور حکومت ایک بار پھر ایک صفحے پر آگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سیاسی و عسکری
قیادت نے اتفاق کیا ہے کہ تمام معاملات کو ملکی بقا، سلامتی کی نظر سے
دیکھتے ہوئے ہی آگے بڑھنا ہے، کوئی بھی ایسی بات جس سے ملکی بقا، سلامتی کو
خطرہ لاحق ہو ، اسے ہر صورت طے کرنا ہے اور خرابی کو ٹھیک کرنا ہے، مزید
خراب نہیں کرنا۔ جیسے مشرف کیس سے جڑے حکومتی وزراءسمیت مختلف حلقوں کی طرف
سے دیے گئے سخت بیانات کو بادی النظر میں فوج پر تنقید سمجھا گیا، جس کے
نتیجے میںجنم لینے والی بے چینی اور تحفظات کا سفر پاک فوج کے افسروں،
جوانوں سے ہوتا ہوا عسکری قیادت تک پہنچا تو بات سول ملٹری تعلقات میں تناﺅ
تک پہنچ گئی۔ رپورٹ کے مطابق اسی حوالے سے ایک فوجی عہدیدار کاکہنا تھا کہ
اہم ایشوز پر مشاورتی عمل کے دوران فریقین کی رائے ایک جیسی نہیں ہوتی، اس
عمل کے دوران بعض مواقع پر اختلاف رائے اختلافات کی شکل بھی اختیار کر جاتا
ہے، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ فریقین میں کوئی میچ پڑ گیا ہے۔ وزیر
اعظم کے زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس جیسی میٹنگز میں ملکی
دفاع کے معاملے پر پایا جانے والا اتفاق ایک اچھا شگون ہے۔ اختلافات کا یہ
مطلب نہیں کہ کوئی مارشل لاءآ رہا ہے، اگر رائے میں کوئی فرق ہو یا کسی
معاملے پر اختلاف رائے ہو بھی جائے تو اس کا فوری طور پر یہ مطلب نہیں
نکالنا چاہیے کہ سسٹم کو کوئی خطرہ ہو گیا ہے۔ دونوں اطراف سے بالغ نظری،
معاملہ فہمی اور ملکی مفاد کو مقدم رکھنے کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے اجلاس میں کہا کہ پاکستان کسی قسم کے تنازعات میں الجھنے کی
بجائے ترقی کے راستے کو اپنائے گا، دنیا میں پاکستان کی متاثرہ ساکھ کو
دوبارہ نیک نامی میں تبدیل کیا جائے گا۔حکومت اور طالبان کے درمیان
مذاکراتی عمل میں پیش رفت اور اس کے مستقبل پر بھی خاصا غور کیا گیا۔اجلاس
سے ایک روز قبل ہی طالبان نے حکومت کی جانب سے جنگ بندی کا مثبت جواب نہ
دینے کے الزام پر جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد
معاملات کچھ شدت کی جانب مبذول ہوتے نظر آرہے تھے۔لیکن اجلاس میں مذاکرات
کے حوالے سے مثبت پیشرفت دیکھنے میں آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں
عسکری قیادت نے حکومت کو یقین دلایا کہ طالبان سے مذاکرات پرحکومت جو بھی
فیصلہ کرے گی، وہ اس کے ساتھ ہیں، مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں۔ جبکہ
وزیراعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں طالبان سے مذاکرات
جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے وزیرداخلہ
کوہدایت کی ہے کہ وہ طالبان کمیٹی کے ارکان سے رابطے کرکے مذاکرات میںحائل
تعطل کودورکریں، مگر اس میں یہ بھی خیال رکھا جائے کہ طالبان کومذاکرات کے
دوران مکمل سیزفائر کااعلان کرناپڑے گا، اگر ایسا نہیں ہوا تو اس سے
مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچے گا۔ وزیراعظم نے وزیرداخلہ کو کہا کہ حکومت
کی قیام امن کی کاوش ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں ہے، حکومت آگ اورخون کی
ہولی کی بجائے ملک میں امن اور ترقی چاہتی ہے،جس کے بعد اطلاعات ہیں کہ
وفاقی حکومت نے طالبان کو مذاکرات کے دوران جنگ بندی پر قائل کرکے ان سے
باقاعدہ اعلان کروانے کے لیے مولانا سمیع الحق کو ٹاسک دے دیا ہے۔
وزیرداخلہ نے حکومتی کمیٹی کے ارکان اور طالبان کمیٹی کے سربراہ مولاناسمیع
الحق کے ساتھ جمعرات کو بات چیت میں یہ واضح کیاکہ وہ طالبان سے مذاکرات کے
عمل کے دوران مکمل فائربندی کرنے کااعلان کروائیں۔ وزیرداخلہ نے کہا ہے کہ
یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں، چندماہ میں حکومت نے
انتہائی سنجیدگی،خلوص اوربردباری سے مذاکرات کے راستے میں حائل تمام
رکاوٹوںکودورکیا ہے۔ اگر مذاکرات میں سنجیدگی نہ ہوتی تو حکومتی ٹیم خود
جنوبی وزیرستان کیوںجاتی؟ اگرطالبان کوبعض معاملات میں اعتراضات ہیں توبہت
سے تحفظات ہمیں بھی ہیں، مگر اس کے باوجود ہم نے مذاکرات کے عمل کو خلوص
نیت سے آگے بڑھایا۔ دونوں اطراف سے اعتراضات اور تحفظات مذاکرات کی میز پر
ہی دور ہوسکتے ہیں۔ میڈیا میں بیانات سے نہیں۔ میں نہیںسمجھتا کہ اگر فائر
بندی ختم کردی جائے تو بامقصد مذاکرات آگے بڑھ سکیں گے۔ جبکہ طالبان کا
کہنا ہے کہ انہوں نے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے ہیں، لیکن جنگ بندی میں
توسیع اس لیے نہیں کی کہ حکومت نے ہمارے مطالبات پورے نہیں کیے، جنگ بندی
کے باوجود ہمارے پچاس ساتھیوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔ برطانوی
نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں حکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ نے بھی کہا کہ
طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے حکومت کی جانب سے معاملات میں تاخیر ہوئی،
حکومت کو جن معاملات پر عملدرآمد کرنا ہے، جلد سے جلد کرنا چاہیے، تاکہ بات
چیت کا عمل راستے پر آ سکے۔ مولانا سمیع الحق نے ایک بیان میں کہا ہے کہ
موجودہ صورتحال میں دونوں حلقوںکو صبر و تحمل اور وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرنا
چاہیے، مذاکرات میں اتار چڑھاﺅ، تاخیر، تعطل، ناراضی اور گلے شکوے معمول کی
بات ہے۔
دوسری جانب طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ اس بات کا
امکان ہے کہ طالبان شوریٰ کو جنگ بندی میں توسیع پر آمادہ کرنے کے لیے
کمیٹی کے ارکان خود وزیرستان جائیں۔ قیدیوں کی رہائی کے معاملے بارے طالبان
کو شدید تحفظات ہیں، اگر ان کی شکایات کا ازالہ کر دیا جائے تو جنگ بندی
میں توسیع کا امکان ہے۔ حکومت کو بھی قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر طالبان
کے تحفظات سے آگاہ کیا جا چکا ہے، جنگ کسی صورت نہیں ہونی چاہیے، طالبان کی
جانب سے جنگ بندی میں توسیع کے لیے کوشش جاری ہے۔ پروفیسر ابراہیم نے یہ
بھی کہا کہ طالبان سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں، میڈیا پر چلنے والی خبروں
کے بعد طالبان کی جانب سے جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے کے فیصلے کا معلوم
ہوا۔ دونوں کمیٹیاں مذاکرات کے حوالے سے رابطے میں ہیں اور جب معاملات کسی
اہم نقطے پر پہنچ جائیں گے تو دونوں کمیٹیاں فاٹا میں ملاقات کرکے معاملات
کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گی۔ واضح رہے کہ جمعہ کے روز وفاقی کابینہ کے
اجلاس میں بھی وزیر اعظم نے کابینہ کو طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات
میں پیشرفت کے حوالے سے اعتماد میں لیا اور وفاقی کابینہ نے قیام امن کے
لیے طالبان سے مذاکراتی عمل جاری رکھنے کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ کابینہ
ارکان کا کہنا تھا کہ قوم قیام امن کے لیے حکومت کی جانب دیکھ رہی ہے، اس
لیے مذاکراتی عمل کو جاری رکھا جائے۔ |