فیس بک پر وہ پوسٹ دیکھ کر مجھے شرم محسوس ہوئی اور فیس
بک چھوڑنے کو دل کیا۔ پھر سوچا کہ فیس بک چھوڑنے سے کیا ہوگا؟ شائد کچھ
نہیں۔۔۔سوچتے سوچتے میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ میں اس کے بارے
میں کچھ لکھوں۔۔۔۔۔۔
فیس بک ایک سماجی نیٹ ورکنگ سروس ہے۔اسے 4 فروری 2004 کو قائم کیا گیا ہے۔
2008 میں اس کے صارفین کی تعداد تقریبا 100 سو ملین تھی اور 2013 میں یہ
تعدا د 1.11 بلین تک پہنچ گئی تھی ۔اس کے علاوہ فیس بک پر مختلیف قسم کے
پیجز ہوتے ہیں۔کئی پیجز معلومات کی فراہمی کے لئے ہوتے ہیں کئی کسی ادارے
یا کمپنی کے بارے میں، کئی کسی سیاستدان ، علمائکرام، سائنسدان اور فلمسٹار
وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ان پیجز کی تعداد 54, 200,000 ہے اور ہرروز اس میں تیزی
سے اضافہ ہوتا جارہاہے۔ کئی پیجز ایسے ہوتے ہیں جو نوجوانوں پر بہت برے
اثرات چھوڑ جاتے ہیں اور ان میں ہم خود اپنے ملک کے سیاستدانوں پر ایسے
ایسے تنقید کرتے ہیں کہ وہ تنقید ایک مُہذب قوم کی پہچان نہیں ہوتی۔میں
ایسے پیجز کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں جو مجھے نہیں لگتا کہ فیس بک پر ان
کا کوئی مثبت کردار ہو۔پہلے پیج کا نام ہے۔(I Hate Imran Khan ( The Master
of U Turn))جو ابھی تک تقریبا 101, 340 لوگوں نے لائک کیااور دوسرے پیج کا
نام (I Hate Nawaz Shareef ( The Master of " Noora Kushti")) جو کہ 138,
476 لوگوں نے لائک کیا ہے۔ان دونوں پیجز پر ہمارے مغزز سیاستدان اور
وزیراعظم جناب نواز شریف صاحب اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان
جیسے عظیم رہنما وں کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ
ہم نے اپنا ملک صرف اپنی پارٹی تک محدود رکھا ہے۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ
ہم نے اپنے پیارے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اوران پیجز پر ہم
اپنے لیڈروں کے بارے میں ادھر اُدھرکے فضول باتیں کر رہے ہیں۔ان پیجز کے
پروفائل تصاویر اور ، اور بہت ایسے تصویریں ہیں جنہیں دیکھ کر آدمی شرم
محسوس کرتا ہے۔ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہم کیا اور کس کے ساتھ یہ مذاق کر رہے
ہیں۔ان پیجز پر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم نے پاکستان کو دو حصوں میں
تقسیم کر دیا ہے، ایک حصہ نواز شریف صاحب کو اور دوسرا عمران خان صاحب کو
دیا ہے۔حالانکہ نہ تو پاکستان نواز شریف صاحب کا ہے اور نہ عمران خان صاحب
کا۔ یہ تو ہمارا ملک ہے کیونکہ ہم ہونگے تو پاکستان ہوگا اور ہم نہیں ہونگے
تو کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔یہ الگ بات ہے کہ یہ دونوں سیاستدان ملک کے ترقی اور
خوشحالی کے لے بہت کچھ کر رہے ہیں اور انہی کی وجہ سے ہمارے پیارے ملک میں
مثبت تبدیلی سامنے آرہی ہے۔غلطی ہماری ہے کیونکہ ہم ایک دوسرے کی وجود کو
تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں۔کوئی کہتا ہے میں پی ٹی ائی کا ہوں اور کچھ
کہتے ہیں کہ ہم پی ایم ایل این وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔ہم نے اپنے سوچ
کو محدود کر دیا ہے اور یہ بھول گئے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں۔میرا یہ مطلب
ہرگزنہیں کہ کوئی اپنی پارٹی چھوڑے یا اپنی پارٹی کے مخالف بن جائے بلکہ
میرا یہ مطلب ہے کہ ہمیں ایک دوسرے پر تنقید نہیں کرنی چاہئے کیونکہ تنقید
سے نہ تو کوئی مسئلہ حل ہو سکتا ہے، نہ خوشحالی آسکتی ہے اور نہ ہی ملک
ترقی کر سکتا ہے۔اباگر ایک کام کرنے سے ہمیں کچھ نہیں مل سکتا تو ہم وہ کام
کیوں کرتے ہیں؟؟؟؟افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں پیجز جو بہت مُدت سے چل
رہے ہیں، آج تک کسی نے ان کے بارے میں کیوں کچھ نہیں لکھا اور ان پر بات
کرنیکے لئے کسی کے پاس وقت کیوں نہیں ہے؟؟؟یا ہمیں واقعی اپنے ملک سے کچھ
ذیادہ محبت نہیں ہیں اور ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرنا پسند کرتے ہیں۔کیا
ہم نے سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا؟ کیا انفرادیت کا یہ سوچ ہمیں
ایک اور بنگلہ دیش بننے پر مجبور نہیں کر سکتا؟کیا ہم وہ آزادی بھول گئے
ہیں جن کے لئے ہمارے بزرگوں نے بہت قربانیاں دی تھی؟ اب اس کا فیصلہ ان
لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جو یہ دو پیجز چلا رہے ہیں کہ نہیں صرف اپنی پارٹی
سے محبت ہے یا اپنے پیارے ملک پاکستان سے۔۔ اگر یہ پیجز ختم نہیں کر سکتے
تو کم از کم ا ان پرکسی سیاستدان کا مذاق اڑانا اور ان کے خلاف بیہودہ
باتوں اور فضول کلمات سے اجتناب تو کرسکتے ہیں نا؟ میرا مطلب اس سے کسی پر
تنقید کرنا ہرگز نہیں ہے۔ میراصرف یہ مطلب ہے کہ ہمیں اختیاط کرنی چاہئے ،
ایک دوسرے پر تنقید سے اجتناب کرنی چاہئے اور کسی پارٹی کے لئے نہیں بلکہ
اپنے پیارے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے سوچنا چاہیے اور دل کھول کر
اپنے ملک کی ترقی کے لئے جتنا ممکن ہو ، کام کرنا چاہئے۔ |