عالمی شہرت یافتہ رسالے نیشنل جیوگرافک نے مسئلہ کشمیر کو
دنیا کے چھ انتہائی تشویشناک تنازعات میں شامل کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنوبی
ایشیا میں کشیدگی اور تناؤ کی سب سے بڑی وجہ یہی 67 سالہ پرانا مسئلہ ہے
جسے کبھی بھی فوجی طاقت کے ذریعے حل نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کے مختلف خطوں ،
ملکوں اور علاقوں میں سیاسی اور ماحولیاتی تغیر و تبادلے کے بارے میں
تحقیقات کے بعد رپورٹ شائع کرنے والے بین الاقوامی معیار کے رسالے نیشنل
جیوگرافک نے دنیا بھر میں مختلف نوعیت کے تنازعات اور فسادات کا احاطہ کرتے
ہوئے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں 150 تنازعات
میں شدت ہے۔ 150تنازعات میں سے 6 بڑے تنازعات کو تشویشناک زمرے میں رکھا
گیا ہے۔ تنازعہ جموں وکشمیر کو دنیا کے چھ بڑے تنازعات میں شامل قرار دیتے
ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ اسی 67 تنازعے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان
نیوکلیائی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہوئے اور پاکستان کی طرف سے 1998ء میں
پہلا ایٹمی تجربہ کرنے کے بعد دونوں ملک باضابطہ طورپر نیوکلیائی ہتھیاروں
کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوششوں میں عملاً جڑ گئے ہیں کیونکہ
اس سے کئی سال قبل بھارت اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کرچکا تھا۔ رپورٹ میں بتایا
گیا کہ جب برطانیہ نے 1940ء میں برصغیر سے اپنے دہائیوں پرانے قبضے کو ختم
کرنے کا فیصلہ کیا تو تقسیم ہند اور برصغیر کی آزادی کیلئے مرتب کردہ خاکے
میں برطانیہ ایک ایسا تنازعہ پیچھے چھوڑ گیا جو بعد ازاں نہ صرف بھارت اور
پاکستان بلکہ اس پورے خطے کیلئے عدم استحکام کا موجب بن گیا۔کشمیر کے مسئلے
کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے امریکہ سے شائع ہونے والے اخبار نیویارک ٹائمز
نے انکشاف کیا ہے کہ کشمیر متنازعہ حیثیت بھارت پاکستان کے لیے اختلافات کی
بنیادی وجہ ہے اور خطے میں امن کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے کشمیر کے مسئلے
کو حل کرنے کے لیے اگرچہ دونوں ملکوں کے مابین ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہو
سکی ہے تاہم خطے میں صورتحال تبدیل ہو تی جا رہی ہے افغان پاکستان سرحد پر
انتہا پسندوں کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں جس کی وجہ سے بھارت پاکستان کے
درمیان مستقبل میں شدید نوعیت کے اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں نیو یارک ٹائمز
کے مطابق بھارت پاکستان کے پاس اس وقت ایک سو کے قریب ایٹمی بم موجود ہیں
جسے خطے میں صورتحال مخدوش ہوتی جا رہی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان
اختلافات کبھی کبھار شدید نوعیت اختیار کر جاتے ہیں اگرچہ بھارت نے جنگ کے
دوران ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کرنے کا اشارہ دیا ہے تاہم پاکستان کم دوری
تک مار کرنے والے ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال کر سکتا ہے جسیے خطے میں امن
کو شدید خطرہ لاحق ہو گا اور دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ پھڑ سکتی
ہیں۔اخبار کے مطابق کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور اس مسئلے کے حل نہ ہونے کے
باعث دونوں ملکوں کے مابین ماضی میں کئی جنگی لڑی گئی ہیں اب جبکہ
افغانستان سے نیٹو فوج کا انخلاء ہونے والا ہے پاکستان افغان سرحد پر
انتہاء پسندوں کی سرگرمیاں تیز ہو رہی ہییں جس کی وجہ سے بھارت کو تشویش
لاحق ہے اور خطے میں صورتحال مخدوش ہو سکتی ہے اخبار نے بھارت پاکستان کی
حکومتوں کو زور دیا کہ وہ دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نازک مرحلے پر
اپنے مسائل حل کرنے اور اختلافات کو دور کرنے کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع
کریں۔ اخبار کے اگر بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار آ گئی اور نریندرمودی کو
وزیر اعظم بنایا گیا تو وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال نہ کرنے کی پالیسی پر
نظر ثانی کر سکتے ہیں جیسا کہ موجودہ وزیر اعظم من موہن سنگھ نے حال ہی میں
بھارت کی اس پالیسی کا اظہار کیا تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیار صرف ملک کی سلامتی
کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنا رہا ہے تاہم نریندر مودی اس پالیسی پر نظر
ثانی کر سکتے ہیں جو خطے کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہے۔حریت کانفرنس (گ)
مقبوضہ کشمیر کے چیئرمین سید علی گیلانی اور حریت کانفرنس (ع)کے سربراہ میر
واعظ عمر فاروق نے حکومت پاکستان پر دوٹوک انداز میں واضح کیا ہے کہ
پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ مذاکراتی عمل کے نتیجہ میں مسئلہ کشمیر
حل نہیں ہو گا۔اسلام آباد کو نئی دہلی کے ساتھ مذاکراتی عمل کی بحالی کے
سلسلہ میں ملتجانہ رویہ اختیا رنہیں کرنا چاہیے۔ سید علی گیلانی اور میر
واعظ عمر فاروق کی سربراہی والی حریت کانفرنس کے اعلیٰ سطحی وفود نے نئی
دہلی میں پاکستانی سفارتخانہ میں پاکستان کے نئے ہائی کمشنر عبدالباسط اور
سفارتخانہ کے دیگر اعلیٰ ذمہ داران کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں
اورتبادلہ خیال کیا۔بزرگ کشمیری رہنما نے ملاقات کے دوران پاکستان میں
سرگرم تحریک طالبان پر سخت تنقید کرتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی ملک یا
علاقہ میں بم یا بندوق کی نوک پراسلامی نظام قائم نہیں کیا جاسکتاتاہم وہ
سمجھتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ بات چیت پاکستان کی مجبوری ہے۔ اس موقع پرسید
علی گیلانی کو پاکستان کی آنے کی دعوت دی گئی تاہم بزرگ کشمیری رہنمانے کہا
کہ اْن کی دلی آرزو ہے کہ وہ پاکستان جائیں لیکن بھارت انہیں پاسپورٹ فراہم
نہیں کررہا ہے۔ حریت (گ) چیئرمین سید علی گیلانی نے پاکستانی سفیر
عبدالباسط اور سفارتخانہ کے دیگر اعلیٰ ذمہ داران کے ساتھ تقریباً 3 گھنٹے
سے زیادہ وقت گزارا ۔ انہوں نے پاکستان کی کشمیر پالیسی پر نا پسندیدگی کا
اظہارکیا اور خبردار کیا کہ اگر پاکستان کی حکومت نے تنازعہ کشمیر کا حل
تلاش کرنے کے حوالے سے کسی بھی طرح کی جلد بازی دکھائی تو اس کے نتیجے میں
کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان کو مشرف کے 4نکاتی
فارمولہ کے دائرے سے باہر آکر تاریخی حقائق کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل
کرنے کی پالیسی اپنانی چاہئے۔ حریت اصولی طور مذاکرات کے خلاف نہیں ہے بلکہ
ہمارا یہ مؤقف ہے اور رہے گا کہ مذاکرات کا عمل با مقصد اور نتیجہ خیز ہو۔
مسئلہ کشمیرمیں طوالت دراصل پاکستان کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ دوطرفہ تجارت
اور دیگر معاملات پر رائے زنی کرتے ہوئے سید علی گیلانی نے کہا کہ پاکستان
کو بتایا جائے کہ کشمیر کے حوالے سے جلد بازی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ملک
اس وقت خارجی اور داخلی مسائل میں الجھا ہوا ہے اور بھارت اس کا فائدہ اٹھا
کر اسے یہ معاملہ حل کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ قبل ازیں حریت کانفرنس (ع)
کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق نے پروفیسر عبدالغنی بٹ، مولوی عباس انصاری ،
مختار احمد وازہ ، مصدق عادل اور خلیل محمد خلیل کے ہمراہ پاکستان کے ہائی
کمشنر عبدالباسط کے ساتھ سفارتخانہ میں ملاقات کی۔میٹنگ کے دوران پاکستان
کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے کشمیری لیڈران کے سامنے پاکستانی وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کا ایک تحریری پیغام پڑھا،جس میں میاں نواز شریف نے اس
بات کی یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی
حمایت جاری رکھے گا۔نواز شریف نے اپنے پیغام میں مسئلہ کشمیر کے منصفانہ
اور پائیدار حل کے لئے پاکستان کی سیاسی و سفارتی کوششوں کو جاری رکھنے کا
اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے
بھارت کے ساتھ کسی بھی مذاکراتی عمل سے قبل جموں کشمیر کے عوام کو اعتماد
میں لینے کے ساتھ ساتھ ان مذاکرات میں حریت قیادت کی شرکت کو لازمی بنانے
کے لئے موثر اقدامات اٹھائے گی۔میر واعظ اور ان کے رفقاء نے پاکستانی ہائی
کمشنر پرزور دیاکہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور آبرومندانہ حل تلاش کرنے
کیلئے بھارت کو سہ فریقی مذاکرات پر آمادہ کیا جائے۔ |