میڈیا آزاد یا بے لگام....؟

اس بات سے انکار کی گنجائش ہی کہاں ہے کہ میڈیاموجودہ دور کی طاقتور اور متاثر کن حقیقت بن چکا ہے۔ میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ ہر دور میں ذمہ دار صحافیوں نے مشکل ترین حالات میں بھی جان جوکھوں میں ڈال کر حقائق عوام تک پہنچاتے ہوئے اپنے فرائض کو نبھایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اصول پسند صحافت کے لیے غیرجانبداری اور آزادی کا ہونا انتہائی ضروری ہے، لیکن افسوس! کچھ عرصے سے ملک میں صحافیوں کی آزادی کو سلب کرنے کی بھر پور کوششیں کی جارہی ہیں، اگر کوئی صحافی حق بات کرے تو وہ کسی نہ کسی کو تو کڑوی محسوس ہوتی ہی ہے، جس کا خمیازہ بھی اس صحافی کو قتل، حملے اور دھمکیوں کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ ہمارے یہاں خبر دینے والے صحافی ہی مسلسل خبر بنے ہوئے ہیں، کبھی اپنے ساتھیوں کے قتل، کبھی ان کی تحقیقات اور کبھی مزید ہلاکتوں کی کوریج۔ ان الجھے ہوئے حالات اور غیر واضح صورتِ حال میں اکثر درست اور غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کی قیمت صحافی اپنے خون سے ادا کرتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ قانون کے آہنی ہاتھ کبھی قاتلوں تک نہیں پہنچتے۔ گزشتہ ایک دہائی میں ملک کے 23 صحافی ہدف بنا کر قتل کیے گئے ہیں اور حملے تو کئیوں پر ہوئے، لیکن ابھی تک کسی ایک بھی مجرم کوکیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ انہی حالات کی بدولت صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے پاکستان کو دنیا میں صحافیوں کے لیے بدترین ملک قرار دیا تھا۔ سی پی جے کے مطابق پاکستان 2003ءکے بعد سے پریس کے بدترین ممالک میں سے ایک ہے۔ اسی بنا پر پاکستان کے صحافتی حلقے کھلم کھلا یہ بات کہتے ہیں کہ تشدد اور دباؤ کے نتیجے میں رپورٹنگ کے درست معیارات پر کافی حد تک سمجھوتہ کیا جا چکا ہے، جس کے نتیجے میں اکثریت تک حقائق پہنچنے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستانی حکمران اس تشدد کو روک سکتے نہیں یا پھر روکنا چاہتے نہیں۔ پیشہ ور صحافیوں کے لیے کام کرنے کے حالات صرف بہت مشکل ہی نہیں، ناممکن ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں قانون کی آہنی ہاتھوں کی گرفت سے آزاد قاتلوں کے رحم و کرم پر پاکستانی صحافیوں کی زندگی اب کئی قسم کے خطرات میں الجھ کر رہ گئی ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان کے معروف صحافی حامد میر کو کراچی میں چھ گولیاں ماردی گئیں،جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے۔ ان پر ہونے والے حملے نے نہ صرف صحافتی حلقوں میں کھلبلی مچادی، بلکہ عوامی سطح پر بھی ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ پوری قوم اورتقریباً تمام ملکی رہنماﺅں نے حامد میر پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے حملہ آوروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ تمام صحافتی اداروں نے بھی حامد میر پر ہونے والے حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے حامد میر کے خلاف اظہار یکجہتی کیا۔ ایسے حملوں میں عام طور پر طالبان کا نام لیا جاتا ہے، لیکن تحریک طالبان نے اس حملے سے اظہار لاتعلقی کردیا۔ حملے کے حوالے سے ابھی کوئی پیش رفت نہ ہوئی تھی کہ حامد میر کے صحافی بھائی عامر میر نے اس حملے کا الزام پاکستان کے باوقار اور اہم ادارے آئی ایس آئی پر لگاتے ہوئے ذمہ داری آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام پرڈالی۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کو سارا دن جیو نیوز چینل پر ایک مجرم کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ جس سے نہ صرف یہ کہ سربراہ آئی ایس آئی پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی گئی،بلکہ اس عمل سے ملک کے باوقار اور اہم حساس ادارے اور ملک کی بھی جگ ہنسائی ہوئی اور بھارتی میڈیا نے حامد میر پر حملے کی آڑ میں پاکستان کے سب سے بہترین انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھرپور انداز میں ہرزہ سرائی کی۔ جنگ گروپ کی طرف سے پاکستانی فوج اور ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی پر بلاسوچے سمجھے الزام تراشی سے گویا بھارتی میڈیا کی دلی مراد بر آئی اور اس نے چیخ چیخ کر زخمی صحافی سے اظہار یکجہتی سے زیادہ آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کے پہلو کو نمایاں کیا۔ ٹائمز آف انڈیا، انڈیا ٹوڈے، ہندوستان ٹائمز سمیت تمام بڑے بھارتی اخباروں اور کئی بڑے چینلز نے پاکستانی ایجنسی پر الزامات کویوں ہوا دی، جیسے شاید وہ ایسی ہی کسی خبر کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ کوئی موقع ملے تو وہ پاکستان اور اس کی سیکورٹی کے ذمے دار اداروں پر الزامات کی بوچھاڑ کرسکیں اور کرتے بھی کیوں نہ جب پاکستان کے صحافتی ادارے جیو نے بنا کسی ثبوت کے آئی ایس آئی پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ جس طرح دفاعی اداروں کو الزامات کا نشانہ بنایا گیا، اس کی مثال کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔

دوسری جانب حامد میر پر ہونے والے حملے سے جیو، جنگ گروپ کو ملنے والی تمام ہمدردیاں تشویش میں بدل گئیں اور عوام اور قومی رہنماﺅں نے آئی ایس آئی پر الزام تراشی جنگ گروپ کی جانب سے گہری سازش قرادیتے ہوئے اس کی بھرپور مذمت کی۔ سوشل میڈیا پر بھی عوام نے کھل کر جیو نیوز کی خبر لی اوراسے یہود و ہنود ممالک کا ایجنٹ گردانا۔ ایکس سروس مین سوسائٹی نے پاک فوج اور بالخصوص آئی ایس آئی کے خلاف جیو ٹی وی کے پراپیگنڈے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور اجلاس میں کہا گیا کہ حامد میر پر حملے کے فوری بعد چینل پر آئی ایس آئی کے ڈی جی کو اس واقعہ کا براہ راست ذمہ دار ٹھہرانا اور ان کی فوٹو کو اسکرین پر بار بار دکھانا تشویشناک امر تھا۔ شرکاءاجلاس کے مطابق ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ آئی ایس آئی کے وقار کو مجروح کرنے کے لیے خصوصی اسٹیج تیار کیا گیا۔ یہ بات سب پر واضح ہوجانی چاہیے کہ آئی ایس آئی پاک فوج کی پہلی دفاعی لائن کا کردار ادا کرتی ہے۔ آئی ایس آئی پاکستان دشمن فورسز کے خلاف ایک ڈھال ہے۔ خفیہ ہاتھوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ دشمنوں کے ایجنٹ ملک کو کمزور کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ میڈیا کے کچھ حلقے بھی ان دشمنوں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں اور وہ پاکستان کے عوام اور فوج کے تعلقات کو کشیدہ کرنے پر جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک حالت جنگ میں ہو اور ملک کی بقا بیرونی دشمنوں کے خطرے میں ہو، عوام، پاک فوج کے خلاف کسی بھی ایسی میڈیا مہم کی متحمل نہیں ہوسکتی، جس سے پاک فوج پر غیر ضروری دباﺅ پڑ رہا ہو۔ ایکس سروس مین سوسائٹی نے پیمرا سے مطالبہ کیا کہ وہ زرد صحافت کے ذریعے پاکستان کے اہم اداروں کے خلاف کردار کشی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کا فرض ادا کرے۔ میڈیا ہاﺅسز کو ریاست کے اداروں کے مابین یکجہتی کو فروغ دینے اور سوسائٹی میں پائی جانے والی خلیج کو ختم کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔روزنامہ اسلام سے بات کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل حمید گل نے کہا کہ آئی ایس آئی کے خلاف پروپیگنڈا غیرملکی ایجنڈا لگتا ہے۔

انتہائی اہم ریاستی ادارے کے سربراہ پرجنگ وجیو کی جانب سے الزامات عاید کیے جانے کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اظہار یکجہتی کے لیے آئی ایس آئی کے ہیڈ کواٹر کا دورہ کیا اور ملکی سلامتی کے لیے آئی ایس آئی کے کردار کو قابل تعریف ٹھہرایا۔ میاں نوازشریف سمیت تمام سیاسی و مذہبی رہنماﺅں نے جنگ گروپ کے اس اقدام کی بھرپور مذمت کی۔ جبکہ سیکرٹری دفاع آصف یاسین ملک نے نجی نیوز چینل جیو کے خلاف ریفرنس وزیر دفاع خواجہ آصف کو بھجوایا، جس کی وزیردفاع نے منظوری دے دی۔ پیمرا کو جیو نیوز کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس میں آئی ایس آئی اور فوج کے خلاف مہم چلانے کا حوالہ دیا گیا ہے، ریفرنس میں جیو کی جانب سے کی گئی پیمرا رولز کی خلاف ورزیوں کی بھی نشاندہی کی گئی۔ ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ واقعہ کے بعد جیو نے دفاعی ادارے پر جھوٹے الزامات کا سلسلہ شروع کردیا، جو جیو کی ادارتی نا اہلی ہے، ریفرنس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی ملکی وقار، خودمختاری اور دفاع کے لیے کام کرتی ہے، جبکہ جیو نیوز کی تاریخ پاکستان مخالف پراپیگنڈے سے بھری ہوئی ہے، جس کے ثبوت بھی پیش کیے جاسکتے ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ حقائق پیش کرنے کے لیے صحافت کے لیے آزدی ضروری ہے، مگر اس آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی سلامتی کے اداروں کو ہی مورد الزام ٹھہرانا سراسر ناانصافی اور ظلم ہے۔ایسے اقدامات سے ملک اور ملکی سیکورٹی اداروں کی عزت مجروح ہوتی ہے، کسی بھی میڈیا گروپ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آزادی کی آڑ میں دانستہ یا نادانستہ اپنے ہی ملک کی عزت کو نقصان پہنچائے۔ جنگ ملک کا ایک سب سے بڑا صحافتی گروپ ہے، حملے کے بعد پوری قوم کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں، لیکن آئی ایس آئی پر الزام تراشی سے وہ ساری ہمدردیاں نفرت میں بدل گئیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 702031 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.