ا س سے پیشتر میں نے16 اپریل کو ز،ز، اور ز
آرٹیکل لکھ کر سیاست کے موضوع کے تحت جمع کرایا لیکن وہ 21 اپریل تک شائع
نہ ہؤا تو میں سمجھ گیا کہ مجھ سے ہی کوئ غلطی ہوئ ہے لہٰذا میں نے 21
اپریل کو طنز و مزاح کے موضوع کے تحت دوبارہ جمع کرایا اور اسی روز شائع ہو
گیا۔ اس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا کہ ہمارے ملک میں سیاست کو مزاح ہی
کے طور پر لیا جاتا ہےاور الیکٹرونک میڈیا میں بھی ڈاکٹر یونس بٹ صاحب
جیسےعظیم لکھاری بھی طنز و مزاح کو ہی اپنے دل کی بڑھاس نکالنے کا ذریعہ
بناتے ہیں لہٰذا " ہماری ویب" نے بھی کوئ زیادتی نہیں کی اور مجھے بھی کوئ
شکایت نہیں ہوئ۔
دوسری بات "بین الا قوامی سیاست" یعنی تیسری جنگِ عظیم کے منڈلاتے بادل جس
کی جانب میں نے کچھ اس طرح اشارہ کیا تھا کہ یہ بادل ملائیشین ائر لائن کا
طیارہ غائب ہونے سے جنوبی چینی سمندر ( ساؤتھ چائنا سی ) سے اُٹھے اور
یوکرائن تک پہنچ چکے ہیں جس کی تصدیق درجِ ذیل رپورٹ میں گریگ ٹوروڈ اور
مائیکل مارٹینا نے 23 اپریل یعنی کل رائٹر کے ذریعے کی:-
"HONG KONG/BEIJING (Reuters) - When Chinese naval supply vessel
Qiandaohu entered Australia's Albany Port this month to replenish
Chinese warships helping search for a missing Malaysian airliner, it
highlighted a strategic headache for Beijing - its lack of offshore
bases and friendly ports to call on."
جوں کا توں کاپی پیسٹ اس وجہ سے کیا کہ مَبادا میرے ترجمے میں کوئ کثافت
شامل نہ ہو جائے۔ یہ تو ہے رپورٹ کی شروعات اور اب میں اس کی ہائ لائٹس پیش
کرتا ہوں:-
"China is determined to eventually challenge Washington's traditional
naval dominance across the Asia Pacific and is keen to be able to
protect its own strategic interests across the Indian Ocean and Middle
East.", "The United States, by contrast, has built up an extensive
network of full bases - Japan, Guam and Diego Garcia - buttressed by
formal security alliances and access and repair agreements with friendly
countries, including strategic ports in Singapore and Malaysia.",
"China's first carrier, the Liaoning, a Soviet-era ship bought from
Ukraine in 1998 and re-built in a Chinese shipyard, is being used for
training and is not yet fully operational.", "Chinese officials and
analysts have bristled at suggestions by Western and Indian counterparts
that Beijing is attempting to create a so-called "string of pearls" by
funding port developments across the Indian Ocean, including Pakistan,
Sri Lanka, Bangladesh and Myanmar.
یہ میں نےپوری رپورٹ میں سے محض وہ جملے چنے ہیں جن میں مختلف ممالک کے نام
ہیں جن سے ملکر میدان جنگ کا نقشہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ رپورٹ چونکہ بہت
طویل ہے اور مناسب بھی نہیں کہ میں دوبارہ اشاعت کیلئے جمع کراؤں اس لئے اس
کا لنک پیش ہے تاکہ کوئ پوری پڑھنا چاہے تو ضرور پڑھے:
https://news.yahoo.com/search-mh370-reveals-military-vulnerability-china-210758573.html?soc_src=mediacontentsharebuttons
اب میں آتا ہوں تیسری بات کی طرف یعنی اپنے گزشتہ کالم کے آخری حصہ کی جانب
جس میں میں نے موجودہ سپر پاور اور آئندہ وجود میں آنے والی سپر پاورز کو
مشورہ دیا ہے جو بظاہر ایک مزاح محسوس ہوتا ہے لیکن میرے اسی مشورہ کی ملک
کے نامور سینیئر صحافی جناب سہیل وڑائچ نے کل رات ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام
میں کچھ اس طرح تصدیق کی۔ انھوں نے کہا :-
" ریاست دو قسم کی ہوتی ہیں ایک فلاحی اور دوسری دفاعی۔ فلاحی ریاست میں
عوام کےٹیکس سے عوام کی بہبود کے کام کیئے جاتے ہیں اور دفاعی ریاست میں
پڑوسیوں سے دشمنی کر کےعوام کی فلاح کی بجائے جنگوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔"
میں نے اس میں اضافہ کر کے لکھا ہے کہ جب عوام کا سارا تیل نکل جائے اور
سپر پاور بن کر پوری دنیا پر حکومت کرنے کا بھوت سوار ہو جائے تو لازمی طور
پر پوری دنیا کے عوام کا تل نکالنے کے بعد پوری دنیا کی دولت بھی سمیٹنے کی
ضرورت پیش آیئگی۔ لہٰذا جن حکمرانوں میں ہمت ہے وہ اس پر عمل پیرا ہیں اس
میں کیا مزائقہ ہے ان کو یہی کرنا چاہیے ، کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ |