بارش کے بعد اندھیروں میں ڈوبا
اور پانی کی بوند بوند کو ترستا میرا کراچی......
کیا ناظم کراچی کے دعوؤں کی قلعی واقعی کھل گئی ہے نہیں ...نہیں.....؟
بجلی ایسی چیز نہیں کہ فوراً خرید کر لے آئیں...وزیراعظم کی عوام کو انوکھی
تسلی
محکمہ موسمیات کے دعوؤں کے مطابق کراچی میں گزشتہ ہفتے کے روز یعنی18جولائی
اور29 اگست کو شروع ہونے والی مون سون کی طوفانی بارشوں سے 32 سالہ ریکارڈ
ٹوٹ گیا ہے اور اِس طرح شہر میں 208 اور 187 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی
اِس بارش نے شہر کراچی میں جو تباہی مچاہی وہ تیکنکی اعتبار سے گزشتہ
32سالوں میں ہونے والی بارشوں کے باعث ہونے والے نقصانات سے قدرے کم ہی ہے
اِس لیے کہ آج سے 32سال قبل ہونے والے بارش نے بالعموم پورے شہر کراچی اور
بالخصوص ملیر، شاہ فیصل کالونی، منظور کالونی، محمودہ آباد، قیوم آباد،
ڈیفنس ویو سیمت ڈیفنس جیسے پوش علاقے میں جو تباہی مچائی تھی اِس کی تباہی
آج بھی اِن علاقوں کے مکینوں کو اچھی طرح سے یاد ہے اور جب کبھی بارشوں کے
دنوں میں اِن علاقوں کے رہائشیوں کو وہ قیامت خیز مناظر یاد آتے ہیں تو آج
بھی اِن کے رونگھٹے یقیناً کھڑے ہوجاتے ہوں گے بہرحال! اِن تمام باتوں کے
برعکس ہفتے کے روز کی اِس طوفانی بارش نے جہاں یقیناً گزشتہ 32سالہ ریکارڈ
توڑا ہے تو وہیں آج اگر ہم تمام سیاسی مصالحتوں اور کدورتوں کو ایک لمحے کے
لئے بالائے طاق رکھ کر اِس بات کا موازنہ کریں تو ہمیں خود کو یہ کہہ کر
تسلی دینے میں ہرگز کوئی عار محسوس نہیں ہوگی کہ اِس طوفانی بارش میں ناظم
شہر سید مصطفیٰ کمال کا ہی یہ کمال رہا اور ان کی مہارت ہی کام آئی کہ
انہوں نے اپنے پہلے سے تیارہ کردہ رین ایمرجنسی پلاننگ کے موجودہ شہری
حکومت کے برق رفتار اور ہنگامی اقدامات و انتظامات کی کچھ اِس طرح سے بنفسِ
نفیس مانیٹرنگ کی کہ جیسے ہی بارش شروع ہوئی انہوں نے شہر بھر کے ٹاؤنز کا
ہنگامی دورہ کیا اور انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ خود اِن خاص اور عام
مقامات پر جہاں بارش کا پانی کھڑا تھا رات دن ایک کر کے کام کیا اور اِس
طرح انہوں نے جس جواں مردی سے اِن علاقوں کو ایسا صاف کیا کہ بارش کے اگلے
ہی روز اِن علاقوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اِن علاقوں میں بارش
ہوئی نہیں تھی یقیناً یہ کریڈٹ بھی اِنہیں اور اِن کی ٹیم کو ہی جاتا ہے۔
یہاں اِس امر سے بھی سے کسی کو کوئی انکار نہیں کہ گزشتہ چار ماہ اور یا
شاید اِس سے بھی زائد عرصہ سے جاری جھلسا دینے والی گرمی کے باعث شاید ہی
کوئی ایسی جاندار (انسان ،چرند و پرند اور حیوان)شِئے رہی ہو کہ جس نے ربِ
کائنات سے ہر گھڑی اور ہر سانس گڑ گڑا کر اپنی اپنی دعاؤں میں بارش کی طلب
نہ کی ہواور یہ اِن کی دعاؤں کا ہی ثمر رہا کہ بالآخر ماں سے ستر گنا زیادہ
اپنی مخلوق سے محبت کرنے والے ربِ کائنات اللہ رب العزت کو اِن پر ترس آہی
گیا اور اُس کے صرف ایک ہی حکمِ خاص سے ملک بھر میں مون سون کی برسات کا
ایک ایسا سلسلہ چل نکلا کہ اِس سے جہاں قیامت خیز گرمی کا زور ٹوٹا تو وہیں
ہر جاندار کو سکھ کا سانس بھی نصیب ہوا مگر جب کراچی والوں کی دعاؤں کی
قبولیت کے بعد گزشتہ ہفتے کراچی میں بارانِ رحمت کے نزول کا یہ بابرکت
سلسلہ شروع ہوا تو یہ دیکھتے ہی دیکھتے حسبِ روایت اِن رحمتوں کا نا رکنے
والا سلسلہ کراچی والوں کے لئے زحمت میں یوں بدل گیا کہ جس سے اِس رحمت کے
بعد دنیا کے بارہویں انٹرنیشنل شہر کراچی میں شاید دو روز کی معمول سے
زیادہ بارشوں کی وجہ سے حکومت سندہ اور شہری حکومت کے ہنگامی رین ایمرجنسی
اقدامات بھی ناکامی ثابت ہونے لگے اور پھر یوں کہیں کہیں بارش کے پانی کی
بروقت نکاسی نہ ہونے کے باعث شہر کراچی کا کچھ حصہ تالاب کا منظر پیش کرنے
لگا جس سے اِس شہر کا نظامِ زندگی بری طرح متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور
مفلوج ہو کر رہ گیا اور اِس سے بھی کوئی انکار نہیں کہ شہر کراچی کی اِکا
دُکا اور بڑی چھوٹی اہم شاہراہوں پر تین سے چار فٹ بارش کا پانی بھی کئی
(دوایک) روز تک کھڑا رہا اِس کا یہ ہرگز مطلب نہ لیا جائے کہ شہری حکومت
اپنے رین ایمر جنسی پلان میں ناکام ہوگئی ہے بلکہ شہری حکومت کے اُن
مخالفین سے میری یہ التجا ہے کہ وہ اِس حقیقت کو بھی صدق دل سے تسلیم کریں
کہ اِس بار بارشیں توقعات سے کہیں زیادہ ہی شروع ہوئیں ہیں ورنہ تو اگر
معمول کی بارشیں ہوئی ہوتیں تو شہری حکومت کا عملہ اور اِس کے رضاکار ہی
بارش کے پانی کی نکاسی کے لئے اور شہر کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے
بہت تھے بہرکیف! موجودہ شہری حکومت سے جن مخالفین کا کام ہی تنقید کرنا ہے
وہ کرتے رہیں آخر کار ایک نہ ایک روز وہ خود تھک کر اِس حقیقت کو بھی مان
ہی لیں گے کہ ناظم شہر سید مصطفی ٰکمال اور اِن کی ٹیم نے شہر کراچی کو جس
طرح اپنے ہنگامی رین پلاننگ سے ہینڈل کیا ہے یہ اُن کا ہی کام تھا اور اگر
اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ شاید اِن طوفانی بارشوں میں شہر کو بے
یارومدد گار چھوڑ کر خود بھاگ کھڑا ہوتا اور شہر کراچی کی غیور اور محب وطن
عوام اُس سے مدد کی بھیک ہی مانگ رہی ہوتی اور وہ اپنے گھر یا کسی ایوان
میں دبکا سکھ کی بانسری بجا رہا ہوتا مگر یہ ہمت اور کمال صرف اور صرف ناظم
شہر سید مصطفیٰ کمال کا ہی کمال تھا کہ انہوں نے اِس طوفانی اور تباہی مچا
دینے والی بارش میں شہر کراچی کی عوام کی بالارنگ و نسل خدمت کر کے ایک نئی
تاریخ رقم کردی ہے۔
جبکہ اِس کے بالکل برعکس محکمہ کے ای ایس سی کے عملے کی ناقص کارکردگی کا
منہ بولتا ثبوت یہ رہا کہ اِس کی انتظامیہ کی نااہلی اور غیر مناسب حکمتِ
عملی کے باعث پورے کراچی شہر میں 5 سے 6 روز تک بجلی غائب رہی جو اِن سطور
کے رقم کرنے تک بہت سے علاقوں میں اب بھی غائب ہے اور شہر کے ہر علاقے میں
محکمہ KESC کے خلاف عوام کا پر تشدد احتجاجوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ
جاری ہے اور بجلی کے ستائے سڑکوں پر نکل کر اپنی بے بسی کا اظہار کے ای ایس
سی کے دفاتر پر حملے کر کے حکومت کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں اور
اِس کے ساتھ ہی محکمہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی انتظامیہ نے بھی اپنی
کوتاہیوں اور اپنی فرسودہ اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے پانی کی کئی روز
کی بندش یہ کہہ کر... کر رکھی ہے کہ طوفانی بارشوں کے باعث بجلی کی طویل
بندش سے ہمارے چھوٹے بڑے متعدد پمپنگ اسٹیشن چل نہیں سکے ہیں جس کی وجہ سے
شہر کراچی کی عوام کو پانی کی سپلائی نہیں ہوسکی ہے اور محکمہ واٹر اینڈ
سیوریج بورڈ کی انتظامیہ کے اِس ایک جملے نے بھی کراچی کی عوام کے صبر و
برداشت اور استحکامت کا ایک ایسا امتحان لینا شروع کردیا ہے کہ ایک طرف
روشنیوں کا شہر کہلانے والے شہر کراچی کی عوام جہاں محکمہ KESC کی کوتاہیوں
اور نااہلی کے باعث اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے تو وہیں اِس شہر ِ بے مثل
اور باکمال کی مگر زرا سی جذباتی عوام بے تحاشہ بارش کے باوجود بھی آج پانی
کی ایک ایک بوند کو ترس رہی ہے یہ بھی کیا حیران کن بات نہیں ہے ....؟کہ
طوفانی بارشوں کو ہوئے ایک ہفتہ ہونے کو آیا ہے کراچی میں آج بھی پانی کی
قلت برقرار ہے یہ ایک قومی المیہ ہی تو ہے کہ دنیا کے آٹھویں ایٹمی ملک اور
ایک بین الاقوامی شہر کراچی کی عوام بجلی اور پانی کو ترس رہی ہے۔
اِس پر ستم ظریفی یہ کہ ملک کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے میڈیا سے
گفتگو کرتے ہوئے عوام کے نام اپنے ایک پیغام میں عوام کو کچھ اِس انوکھے
انداز سے تسلی دیتے ہوئے کہا ہے کہ” بجلی ایسی چیز نہیں کہ حکومت (ہم) کہیں
سے فوراً خرید لائیں بجلی کے پاور پلانٹس لگنے میں وقت لگتا ہے اور حکومت
نئے پاور پلانٹس لگا رہی ہے“ اِن کے کہے ہوئے اِس جملے کی روشنی میں مجھ
سمیت ملک کی ساڑھے سولہ کروڑ عوام اِن سے اپنی جان کی امان چاہتے ہوئے کیا
یہ سوالات کرنے کی جرات کرسکتی ہے کہ یہ پارو پلانٹس آخر اب کب لگیں گے
.....؟ کہ جب سارا ملک عوام کے احتجاجوں کی نظر ہو کر تباہ ہوجائے گا.....؟
اور یا تب لگائے جائیں گے کہ جب ملک میں کام کرتیں صنعتیں اور کارخانے پوری
طرح سے بند ہوجائیں گے....؟ اور یا جب یہ پاور پلانٹس لگائے جائیں گے کہ جب
حکمرانوں کے خرچے سے کچھ بچے گا تو وہ اِس رقم کو اِس ملک اور اِس کی عوام
پر ترس کھا کر اِس کے لئے پاور پلانٹس خرید لائیں گے.....؟ارے ....وزیر
اعظم صاحب ! جو کچھ کرنا ہے جلد کر کرا کر معاملہ ختم کریں کیا کسی وقت کا
انتظار کرنا.....کیا کس کے لئے بھی اغیار (امریکا اور آئی ایم ایف) سے آپ
کو ڈکٹیشن لینا ہوگا....؟
ویسے یہاں امر قابل افسوس ہے کہ وزیر اعظم کے مندرجہ بالا بیان سے عوام کو
شدید مایوسی ہوئی ہے کیوں کہ عوام اِن سے ہرگز اِس طرح کی یہ توقع نہیں
رکھتی تھی کہ ایک عوامی اور مکمل جمہوری حکومت کے وزیراعظم ایک ایسے وقت
میں کہ جب ملک بھر کی عوام بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ سے بیزار ہو کر پرشدت
احتجاجوں کے ساتھ سڑکوں پر ہے اور اِن احتجاجوں سے عوام یہ چاہتی ہے کہ
حکمران اِس کے اِس مسئلے کے فوری حل کی جانب دیرپا اقدامات کریں یا کوئی
ایسی سبیل کریں کے اِن کا یہ مسئلہ جلد ازجلد حل ہو.....اُدھر عوام کے اِن
احتجاجوں کے برعکس وزیراعظم کا یہ بے مقصد بیان عوام کے غم و غصہ میں مزید
اضافے کا باعث بن گیا ہے میرے خیال سے تو وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی
اِس طرح کے مایوس کن بیانات سے عوام کے پیمانہ صبر کو مت آزمائیں اور یہ
بھی کہ اب عوام کو حکمرانوں کی کسی ایسی ویسی نصیحت کی بھی ضرور ت نہیں کہ
کوئی انہیں نصیحتیں ہی کرتا رہے اور اِن نصیحتوں کی آڑ میں عوام تو خاموش
ہوکر ایک طرف بیٹھ جائے اور حکمران اِن کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے کنی
کٹا کر نکل جائیں اور بیچاری معصوم عوام وہیں کی وہیں مسائل کی دلدل میں
کھڑی اِس میں دھنستی چلی جائے۔
آج اِس 21ویں صدی کے حکمرانوں کو یہ بات بھی اچھی طرح سے ذہن نشین کرلینی
چاہئے کہ آج کی یہ عوام اِن سے پہلے 21ویں صدی میں داخل ہوچکی ہے تب ہی تو
اِس نے اپنے بہر مستقبل کے لئے اپنے ووٹوں کے ٹکڑوں سے انہیں اقتدار کی
مسند تک پہنچایا ہے یہ جانتے ہوئے اَب حکمران اپنی کسی چکنی چپڑی باتوں سے
عوام کو بے وقوف نہیں بناسکتے اَب حکمرانوں کو بھی صحیح اور حقیقی معنوں
میں وہ سب کچھ کرکے خود دیکھانا ہوگا جو اُن سے عوام چاہتے ہیں اور جن کی
عوام کو اُن سے امیدیں ہیں۔
میراخیال یہ ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم سید یوسف رضا
گیلانی سمیت پوری حکومتی کابینہ کو ناظم شہر سید مصطفیٰ کمال کو دیکھ کر یہ
سبقِ عظیم حاصل کرلینا چاہئے کہ جس طرح اِس نوجوان ناظم کراچی سید مصطفیٰ
کمال نے ہر مشکل گھڑی میں اپنی پوری ٹیم کے ساتھ مل کر خود کام کر کے عوام
کے دیرینہ مسائل کو فوری طور پر حل کر کے خود کو عوامی توقعات پر پورا
اتارا اور یوں جو ہر مشکل اور کٹھن مرحلے سے سرخروہوا ہے اور میں آج یہ
کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اگر سید مصطفیٰ کمال ناظم شہر نہیں ہوتے تو شاید
اِن طوفانی بارشوں میں کراچی کا نقشہ ایسا ہرگز نہیں ہوتا جیسا خوبصورت اور
پرسکون کراچی شہر آج نظر آرہا ہے ٹھیک ہے کچھ خامیاں اور کوتاہیاں اِن سے
بھی کہیں کہیں ہوگئیں ہوں گی جو میں سمجھتا ہوں قابل معافی بھی ضرور ہوں گی
۔ |