کیا مشرف واقعی عدلیہ کا سامنا
کر سکیں گے.....؟
کیا قوم کو بُرے وقت دِکھانے والے مشرف خود بھی بُرے وقت دیکھ پائیں گے......؟
قوم سے ایک سوال یہ ہے کہ جہاں عدالت نے ملک کے سابق آمر صدر پرویز مشرف کو
عدالت میں طلبی کا نوٹس جاری کر کے ایک اچھا اقدام کیا ہے تو وہیں قوم کو
یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اگر مشرف عدالت میں پیش نہ ہو سکے ....اور اِس کے
ساتھ ہی کیا مشرف واقعی عدلیہ کا سامنا بھی نہ کرسکے ....؟ تو قوم کو اُس
وقت کیا کرنا چاہئے میرے اِس سوال کا جواب بھی قوم کو اپنی اعلیٰ فہم و
فراست کے مطابق خود ہی دینا ہوگا اور اُسے اُس وقت یہ بھی ثابت کردینا ہوگا
کہ یہ ایک مہذب اور سول لائیزڈ قوم ہے تو کیا قوم اِس کے لئے بھی تیار ہے....؟
اگرچہ یہ پوری پاکستانی قوم کے لئے ایک حوصلہ افزا خبر ہے کہ جو گزشتہ دنوں
ملک بھر کے تمام بڑے چھوٹے اخبار کی صفحہ اول کی زینت بنی اور جِسے نہ صرف
ملکی سرکاری اور ہر نجی ٹی وی چینل نے متواتر اپنے ہر نیوز بولیٹن میں ٹیلی
کاسٹ کیا بلکہ غیر ملکی چینلز نے بھی اِسے خاصی اہمیت کے ساتھ اپنی اہم خبر
قرار دے کر اپنے یہاں ضرورپیش کیا ہوگا خبر کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی
کورٹ جسٹس خواجہ محمد اشرف نے فیروز والا میں بار سے اپنے خطاب کے دوران
پچھلے دنوں پرویز مشرف کے اُس ٹیلی ویژن بیان کے حوالے سے جس میں انہوں نے
کہا تھا کہ ”میں نے بہت اچھا وقت دیکھا ہے “اِس کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں
نے کہا کہ پرویز مشرف نے اچھے دن دیکھے، اَب بُرا وقت بھی دیکھیں گے اِس
موقع پر اُن کا یہ کہنا بھی ملک کی مایوس عوام میں ایک نئی روح اور تازگی
پھونک گیا ہے کہ بڑے مگرمچھوں کو سزائیں دیئے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا،
ایک مرتبہ کسی بڑے مگرمچھ کو سزا ہوجائے تو باقی سب ٹھیک ہوجائیں گے انہوں
نے یہ بھی کہا کہ اَب کسی کو جمہوریت پر شب خون مارنے کی اجازت نہیں دی
جائے گی....اِس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں عدلیہ کی بحالی اور ججز کی
آزادی سے ملک کی سترہ کروڑ عوام کے حوصلے بھی بلند ہوئے ہیں اور اِس کے
ساتھ ہی قوم بھی یہ اُمید رکھتی ہے کہ عدلیہ کی بحالی اور ججز کی آزادی سے
ملک میں انصاف کا بولا اور باطل کا منہ کالا ہوگا اور اِس کے ساتھ ہی مجھے
ارسطو کا یہ ایک قول بھی یاد آرہا ہے کہ” جو معاشرہ عدل و انصاف کی بنا پر
قائم کیا جائے اُس میں تمام افراد کے اخلاق خود بخود سدھر جاتے ہیں تو اِسی
طرح اُدھر دوسری طرف جس معاشرے میں ناانصافی ہوگی اُس میں پندو نصیحت اور
وعظ و ارشاد سے افراد کے اخلاق کو سدھارنے کو تمام کوششیں بھی بے کار ثابت
ہوں گی“ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس معاشرے میں عدل نہیں ہوگا اُس میں
کبھی استحکام نہیں آسکتا اور شاید ہی وجہ ہے کہ گزشتہ 62 سالوں میں ہمارے
یہاں وہ استحکام نہیں آسکا جیسا کہ استحکام کی تعریف ہے کیوں کہ ہمارا ملک
ایک بڑے عرصے تک آمریت کے زیر تسلط رہا جس میں فرد واحد کی ہی حکمرانی ہوتی
ہے اور وہ کسی ایسے قانون قاعدے کو نہیں مانتا جو اِس کے مرضی منشا سے
مطابقت نہ رکھتے ہوں اور اگر کوئی آمر کسی قانون کو مانتا بھی ہے تو وہ صرف
اُن ہی قوانین کو جو اُس کی طبیعت کے مطابق ہوں یا پھر وہ جو اِس کے اپنے
ہی وضع کردہ قوانین ہوتے ہیں جن کی وہ پاسداری کرنے کا بھی پابند ہوتا ہے
اور یہی وجہ ہے کہ اپنے دور اقتدار میں محض امریکی آشیرباد حاصل کرنے کے
چکر میں مگن ملک کے سابق آمر صدر پرویز مشرف جنہوں نے قوم کو بُرے وقت
دِکھائے اور خود اِن کے بقول وہ اچھے دن دیکھتے رہے اور اپنا اچھا وقت تو
گزارتے رہے اور اِن ہی اپنے آرام اور عیاشیوں میں وہ قوم کو اِسے معاشی،
سماجی، مذہبی، اخلاقی اور سیاسی طور پر مسائل کے ایک انتہائی بد بودار دلدل
میں دھکیل گئے ہیں کہ قوم اِس سے آج تک نکل ہی نہیں پارہی ہے اور اُدھر ایک
اور افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ آج حکمران اور قوم سب کے سب مل کر بھی اِس
بدبو دار دلدل سے نکلنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں تو الٹا اِس دلدل سے نکلنے
کے بجائے اِس کے اندر کی جانب اور ہی دھنستے ہی چلے جارہے ہیں۔ میرے نزدیک
تو یہاں ہم سب کے لئے غور و فکر کرنے کا ایک پہلو تو یہ بھی ہے کہ مشرف نے
ایسا کیا کچھ کر دیا ہے.....؟ کہ قوم اِس دلدل سے نہ تو نکل ہی پارہی ہے
اور نہ ہی اِس سے چھٹکارا ہی حاصل کر پارہی ہے۔ بہرحال! اِن مشکل اور
پریشان کن لمحات میں یہ ایک اچھا امر ہے کہ قوم کسی ایک نقطے پر تو متفق
نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اِن مشکلات اور ملک و قوم کے خلاف کی جانے والے
سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے قوم یکدل اور یک جان ہے اور اِس پلیٹ فارم پر
مکمل طور پر ملی یکجہتی اور یگانگت کا ثبوت دیتے ہوئے یہ ضرور چاہ رہی ہے
کہ گزشتہ 9سالوں میں جس آمر شخص نے تن انتہا اپنی مرضی کے فیصلے کر کے ملک
اور قوم کی بقا و سالمیت کا سودا کرتے ہوئے اِس وطنِ عزیز پاکستان کی
خودمختاری کو بھی امریکہ کے ہاتھوں رہن رکھ دیا ہے اِسے قانون کے تمام
تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جو بھی سزا ملے اِسے ضرور ملنی چاہئے اور سپریم
کورٹ کی جانب سے عدالت میں طلبی کا نوٹس جاری ہونے کے بعد پورے پاکستان کو
یہ قوی اُمید ہوگئی ہے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور اب سپریم کورٹ
انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملک کے اُس آمر صدر کو عدالت میں
پیش کر کے ملک کی تاریخ میں عدل و انصاف کا ایک ایسا باب رقم کرے گا کہ
دنیا یہ کہہ اٹھے گی کہ یہ ہے انصاف اور یہ ہے عدل کیوں کہ عدل وانصاف کے
بغیر نہ تو کوئی معاشرہ پنپ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی قوم ترقی کی راہ پر
گامزن ہوسکتی ہے اور نہ ہی وہ ترقی و خوشحالی کی راہیں سر کرسکتی ہے۔
یہ انسان کی کم عقلی اور ناسمجھی ہی تو ہے کہ وہ طاقت کے نشے میں اپنی
زندگی کے کسی بھی ایک حصے میں اتنا مست ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ بھول
جاتا ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ رعب اور دبدبا سب ختم ہوجائے گا اور یہ نادان
انسان طاقت کے گھمنڈ میں یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ جیسے اِس کی یہ طاقت اور قوت
ہمیشہ اِس کے پاس ہی رہے گی اور اِسے کوئی اِس سے نہ تو چھین سکتا ہے اور
نہ ہی کوئی اِسے ختم ہی کرسکتا ہے مگر کارخانے قدرت میں ہر معاملہ انسانی
سوچ اور عقل کے بالکل برعکس ہے کیوں کہ اِس کا اپنا ایک اصول ہے جس میں
سارے فیصلے اور کام اٹل ہیں اور اِن سب کے ہونے کے لئے وقت مقرر ہے اور جو
کہ ایک لمحہ بھی نہ تو آگے ہی ہوسکتے ہیں اور نہ ہی پیچھے ہوسکتے ہیں یعنی
جب ربِ کائنات وقت مقررہ پر کسی کو کچھ کرنے کا حکم دیتا ہے تو وہ کام
ہوجاتا ہے اور اِسی طرح جب اللہ کسی انسان کو کوئی چیز اِس کی ضرورت اور
طاقت سے زیادہ عطا کرتا ہے تو اِس میں بھی اُس کی حکمت پنہاں ہوتی ہے اور
اللہ رب العزت اپنے بندے کو وہ چیز عطا کر کے اُس کا امتحان اور اُس کی
آزمائش کر رہا ہوتا ہے اور جو اللہ کے امتحان اور آزمائش میں اُس وقت سرخرو
ہوگیا تو اِس میں اِس کی دنیا اور آخرت دونوں ہی سنور جاتی ہے اور اگر کوئی
اِس میں ناکام ہوا تو دنیا اور آخرت دونوں ہی میں اُس کی زلت اور رسوائی
اِس کا مقدر بن جاتی ہے بالکل ایسا ہی ایک امتحان اور ایک آزمائش خالقِ
کائنات اللہ رب العزت نے 12اکتوبر1999 کو ملک کے سابق آمر صدر پرویز مشرف
کو اقتدار کا مسند سونپ کرلیا کہ یہ میرا بندہ پرویز مشرف اِس اقتدار پر
فائز ہو کر اپنے تمام تر اختیارات کے باوجود میرے بندوں کے لئے کتنے خیر کے
کام کرسکتا ہے اور اِس کے اِس منصب پر فائز رہنے سے میرے بندے اِس کے کتنے
اچھے کاموں سے سیراب ہوں گے اور اِس کے پھیلائے ہوئے شر سے کتنے بچ پائیں
گے۔ مگر واقعی پرویز مشرف تو اپنے اقتدار کو سنبھالتے ہی پہلے ہی روز سے یہ
بھول چکے تھے کہ ملک اور قوم کی حکمرانی کی یہ عظیم ذمہ داری انہیں کوئی
ایسی ہی نہیں مل گئی تھی بلکہ اِس میں قانونِ قدرت کی بھی مرضی شامل تھی وہ
بھی اِن سے ایک ایسا امتحان لینا چاہتا تھا کہ جس سے مشرف کو بچنا اور اِس
میں پھنسنا خود مشرف کے اختیار میں بھی تھا اگر انہوں نے اپنے دور اقتدار
میں اچھے کام کئے ہوتے تو آج ہر معاملے سے مشرف سرخرو ہوتے مگر انہوں نے تو
اپنے اقتدار کے نشے میں چور ہو کر بے شمار ایسے انسانیت سوز مظالم کی حد
کردی کہ اِن سے زمین بھی تھرا گئی اور آسمان بھی رو پڑا.... اور آج یہی وجہ
ہے کہ جب انصاف کے دروازوں تک قوم کے مظلوموں کی آوازوں نے دستک دی تو
انصاف بھی قوم کے اِن مظلوموں کی درد بھری داستانیں سن کر چلا اٹھا ہے اور
اب یہ انصاف جس کا 9 مارچ2007 کو گلا دبانے کی کوشش بھی اِن ہی مشرف صاحب
نے کی تھی جس میں یہ اپنے حساب سے تو کامیاب ہوگئے تھے مگر اِس ملک میں
انصاف کو زندہ رہنا تھا اور وہ بالآخر پورے دو سال اور 8 روز آئی سی یو میں
رہنے کے بعد یہ انصاف 16مارچ 2009 کو پوری طرح صحتیابی کے بعد الحمدا للہ
پھر سے اِس قابل ہوگیا ہے کہ یہ اُن لوگوں کو سبق سیکھا سکیں کہ جو ہر دور
میں اِس کے دشمن بنے رہے اور اِسے اپنے مرضی کے مطابق استعمال کرتے رہے۔
بہرکیف! یہ ملک اور قوم کے لئے ایک اچھا اور نیک شگون ہے کہ سپریم کورٹ نے
ملک کے سابق صدر پرویز مشرف کو عدالت میں طلبی کا نوٹس جاری کردیا ہے اب
دیکھنا یہ ہے کہ کیا پرویز مشرف عدالت کا سامنا کر پائیں گے.....؟ یا ہچر
مچر سے کام لیتے ہوئے حسبِ عادت وہ کنی کٹا کر نکل جائیں گے.....؟اور کیا
واقعی قوم کو بُرے دن دِکھانے والے مشرف خود بھی اپنے اچھے دنوں کی یادوں
کو بھول کر بُرے دن دیکھ پائیں گے......؟یا امریکی مشینری کے حرکت میں آتے
ہی وہ تمام پریشانیوں سے خود بخود آزاد ہوکر اپنی بقیہ زندگی بھی یوں ہی
خوش وخُرم گزارتے رہیں گے جس طرح انہوں نے امریکا کہ اشاروں پر اپنے دورِ
اقتدار میں ملک و قوم پر انسانیت سوز مظالم ڈھاکر اپنا اچھا وقت گزارا....؟
یہ وہ سوالات ہیں جو قوم کو سمجھنے اور سمجھانے کے ہیں اور غور وفکر کرنے
کے بھی ہیں کہ اگر پھر ایسا ہوگیا تو کیا ہوگا امریکہ اپنی ٹانگ اڑا کر
انہیں بچالے گیا تو ہم کیا کریں گے سِوائے صبر و تحمل کے۔ |