حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
ولادت وسیادت:
ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی سے قبل راجہ بھیم سنگھ نے ضلع مظفر نگر
میں ایک قصبہ اپنے نام سے بسایا جو "تھا نہ بھیم"کہلایا۔پھر مسلمانوں کی
آمد وسکونت پر اس کا نام "محمدپور"رکھا گیا، مگر یہ نام مقبول ومشہور نہ
ہوا اور وہی پرانا نام معروف رہا ۔البتہ "تھانہ بھیم"سے تھانہ بھون ہوگیا۔
آگرہ شہر کے نواح میں واقع یہ چھوٹا سا قصبہ اپنی مردم خیزی میں مشہور چلا
آرہا ہے اور یہاں کے مسلمان شرفاء اہل شوکت وقوت اور صاحب فضل وکمال رہے
ہیں۔مجدد الملۃ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی قدس سرہ کے اجداد نے آج سے
صدیوں قبل تھانیسرضلع کرنال سے نقل سکونت کرکے تھانہ بھون میں اقامت اختیار
کی تھی۔آپ کے جد اعلی سلطان شہاب الدین والی کابل رہے ہیں اور سلطان غزنوی
کی حکومت کے زوال کے بعد جذبہ جہاد کے تحت کئی بار ہندوستان پر حملہ کیا
اور بامراد لوٹے ان کی اولاد میں شیوخ تھانہ بھون کے علاوہ حضرت شیخ مجدد
الف ثانی ،شیخ جلال الدین تھانیسری اور شیخ فرید الدین گنج شکر جیسے کاملین
پیدا ہوئے ہیں۔
آپ کے والد ماجد شیخ عبدالحق ایک مقتدر رئیس صاحب نقد وجائیداد اور ایک
کشادہ دست انسان تھے فارسی میں اعلی استعداد کے مالک اور بہت اچھے انشاء
پرداز تھے۔ایسے عالی خاندان میں جہاں دولت وحشمت اور زہد وتقوی بغل گیر
ہوتے تھے حضرت مجدد الملت کی جامع شخصیت 5ربیع الثانی 1280ھ بمطابق 9ستمبر
1863ء کو ظہور پذیر ہوئی والد ماجد نے آپ کی تربیت بڑے ہی پیار ومحبت سے
کی،تربیت میں اس بات کو خاص اہمیت دی کہ برے دوستوں اور غلط مجالس سے آپ
دور رہے ،آپ کی طبیعت خود بھی ایسی واقع ہوئی تھی کہ کبھی بازاری لڑکوں کے
ساتھ نہیں کھیلے بچپن سے مزاج دینی تھا،12سال کی عمر میں پابندی سے نماز
تہجد پڑھنے لگ گئے تھے۔
تعلیم وتربیت:
حضرت مجدد الملت کی ابتدائی تعلیم میرٹھ میں ہوئی فارسی کی ابتدائی کتابیں
یہیں پڑھیں اور حافظ حسین مرحوم دہلوی سے کلام پاک حفظ کیا پھر تھانہ بھون
آکر حضرت مولانا فتح محمد صاحب سے عربی کی ابتدائی اور فارسی کی اکثر
کتابیں پڑھیں ذیقعدہ 1295ھ میں آپ بغرض تحصیل وتکمیل علوم دینیہ دارالعلوم
دیوبند تشریف لے گئے اور پانچ سال تک یہاں مشغول تعلیم رہ کر 1301ھ میں
فراغت حاصل کی اس وقت آپ کی عمر تقریباً19سال تھی زمانہ طالبعلمی میں حضرت
میل جول سے الگ تھلگ رہتے اگر کتابوں سے کچھ فرصت ملتی تو اپنے استاد خاص
حضرت مولانا محمد یعقوب قدس سرہ کی خدمت میں جابیٹھتے۔
حضرت مجدد الملت کو علوم عقلیہ سے خاص مناسبت تھی فطرت نے حاضر جوابی،
سلاست لسانی اور ذہانت وفطانت سے پوری طرح آراستہ کیا تھا۔علوم وفنون میں
مہارت کے باوجود تواضع کا حال قابل دید ہے،1300ھ کا واقعہ ہے آپ کو خبر ملی
کہ دستار بندی کا جلسہ بڑے پیمانے پر ہونے والا ہے اور حضرت گنگوہی رحمہ
اللہ کے مقدس ہاتھوں یہ رسم طے پانے والی ہے،اپنے ہم سبقوں کو جمع کرکے
حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی کی خدمت میں پہنچے اور عرض کی" حضرت ہم نے
سنا ہے کہ ہم لوگوں کی دستار بندی ہوگی حالانکہ ہم ہرگز اس کے اہل نہیں ہیں
یہ تجویز منسوخ فرمائی جائے ورنہ اس میں مدرسہ کی بڑی بدنامی ہوگی،یہ سن کر
صاحب بصیرت استاد نے فرمایا تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے یہاں چونکہ تمہارے
استاد موجود ہیں اس لیے ان کے سامنے تمہیں اپنی ہستی کچھ نظر نہیں آتی باہر
جاوگے تب تمہیں اپنی قدر معلوم ہوگی جہاں جاو گے بس تم ہی تم ہوگے،دنیا نے
دیکھا کہ یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف صحیح نکلی۔
درس وتدریس:
تکمیل تعلیم کے بعد والد ماجد اور اساتذہ کرام کی اجازت سے آپ کانپور تشریف
لے گئے اور مدرسہ فیض عام میں پڑھانا شروع کردیا چودہ سال تک وہاں پر
دارالعلوم دیوبند کی عام فضاوں سے حاصل کیے گئے فیض کو عام کرتے رہے،1315ھ
میں کانپور چھوڑکر آپ آبائی وطن تھانہ بھون تشریف لائے اور یہاں حضرت حاجی
امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کی خانقاہ کو نئے سرے سے آباد کیا اور
مدرسہ اشرفیہ کے نام سے ایک درسگاہ کی بنیاد رکھی جہاں آخر دم تک
تدریس،تزکیہ نفوس اور اصلاح معاشرہ جیسی خدمات سرانجام دیتے رہے ،
اس مراجعت پر حضرت حاجی صاحب نے آپ کو ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا" بہتر
ہوا کہ آپ تھانہ بھون تشریف لے گئے امید ہے کہ خلائق کثیر کو آپ سے فائدہ
ظاہری وباطنی ہوگا،اور آپ ہمارے مدرسہ ومسجد کو ازسرنو آباد کریں گے،میں ہر
وقت آپ کے حال میں دعا کرتا ہوں" سلوک ومعرفت:
ظاہری علوم کی تکمیل کے بعد مجدد الملۃ کے دل میں تزکیہ باطن کا داعیہ پیدا
ہوا ، چنانچہ شوال1201ھ میں جب کہ آپ طالبعلمی کی زندگی ختم فرماکر کانپور
میں اشاعت علوم میں مصروف تھے سفر حج کی تو فیق ہوئی،حضرت والا اپنے والد
ماجد کی معیت میں زیارت حرمین شریفین کے لیے روانہ ہوئے مکہ معظمہ پہنچ کر
شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی خدمت میں حاضر ہوئے
،حضرت حاجی صاحب مجدد الملۃ کے آنے سے بہت خوش ہوئے اور دست بدست بیعت کی
نعمت سے سرفراز کیا اور فرمایا تم میرے پاس چھ مہینے رہ جاؤلیکن حضرت والد
ماجد نے مفارقت کو گوارا نہ کیا ،اس پر حاجی صاحب نے فرمایا کہ والد کی
اطاعت مقدم ہے اس وقت چلے جاؤپھر دیکھا جائے گا،1310ھ میں آپ دوبارہ مکہ
مکرمہ تشریف لے گئے اور چھ ماہ حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں رہے۔
اس دوران حضرت حاجی صاحب نے آپ کو شرف خلافت سے نوازا اور ساتھ یہ فرمایا
میاں اشرف،توکل بخدا تھانہ بھون جاکر بیٹھ جانا اگر سخت حالات پیش آئیں تو
عجلت مت کرنا،ان وصیتوں اور باطنی دولت کو لے کر آپ 1311ھ میں وطن واپس لوٹ
آئے اور حضرت حاجی صاحب کی وصیت کے مطابق تھانہ بھون میں رشد واصلاح باطنی
کا م شروع کردیا،ہندوستان کے طول وعرض سے لوگ پروانہ وار آتے رہے اور علم
وعرفان کی نعمت سے سرفراز ہوتے رہے۔
حضرت اپنے مریدین ومعتقدین کے تزکیہ نفس اور ذہنی وعملی تربیت کا بطور خاص
اہتمام فرماتے تھے،اور یہ انہی کے فیض تربیت کا نتیجہ ہے کہ ان کے خلفاء
ومریدین میں ان کے دیگر معاصرین کی نسبت دینی شعور زیادہ اجاگر ہے فکر ونظر
کا اعتدال اور توازن ان کے متبعین کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔
علمی آثار:
حضرت مجدد الملۃ کے علمی فیوض وبرکات اس قد مختلف الانواع ہیں کہ ان سب کا
احاطہ ایک مختصر مضمون میں نہیں ہوسکتا وہ قرآن پاک کے مترجم ہیں مجدد ہیں
مفسر ہیں اس کے علوم وحکم کے شارح ہیں اس کے شکوک وشبہات کے جوابات دینے
والے ہیں وہ محدث ہیں احادیث کے اسرار ونکات کے ظاہر کرنے والے ہیں وہ
فقیہہ ہیں ہزاروں فقہی مسائل کے جواب لکھے ہیں ان کی تصنیفات ہندوستان کی
طول وعرض میں پھیلیں اور ہزاروں مسلمانوں کی اصلاح وفلاح کا باعث
بنی،مسلمانوں کی اصلاح میں جو دقیق نظر ان کو بارگاہ الہی سے عنایت ہوئی
تھی اس کا اندازہ ان کی اصلاحی کتب سے بخوبی ہوسکتا ہے ان اصلاحات کا دائرہ
اتنا وسیع ہے کہ مجالس ومدارس اور خانقاہوں سے شروع ہو کر شادی وغمی کے
رسوم اور روز مرہ زندگی کے دیگر عام احوال کو محیط ہیں ،آپ کی تقریبا
400موعظ جواسلامی احکام ،رد بدعات اور مسلمانوں کی مفید تدابیر وتجاویز پر
مشتمل ہیں ،شائع ہوئے ہیں،مواعظ کے علاوہ اس سلسلے کی اہم کڑی آپ کی کتاب
حیوۃ المسلمین ہے جس میں آپ نے قرآن پاک واحادیث نبویہ کی روشنی میں
مسلمانوں کی دینی ودنیاوی ترقی کا پرگرام مرتب کیا ہے اس سلسلہ کی دوسری
کتابیں اصلاح الرسوم ،صفائی معاملات،اصلاح امت،اصلاح انقلاب امت بہشتی زیور
،بہشتی گوہر وغیرہ ہیں اور ہر ایک کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کی
اخلاقی اجتماعی معاشرتی زندگی خالص اسلامی طریق اور شرعی نہج پر ہو،آپ کی
تصنیفات اور ہر شعبہ زندگی میں تحریرات واصلاحات کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے
کہ آپ اپنے زمانہ کے مجدد،جامع شریعت وطریقت اور حکیم الامت تھے،جیسا کہ
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں بے شک
وہ {حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ}مجدد تھے انہوں نے ایسے
وقت میں دین کی خدمت کی جب کہ دین کو بہت احتیاج تھی۔
تصانیف:
علماء اسلام میں ایسے بزرگوں کی کمی نہیں جن کی تصانیف کے اوراق اگر ان کی
زندگی کے ایام پر بانٹ دیے جائیں تو اوراق کی تعداد زندگی کے ایام سے زیادہ
ہوجائے امام ابن جریر طبری ،حافظ خطیب بغدادی امام فخر الدین رازی،حافظ ابن
جوزی وغیرہ متعدد نام اس سلسلے میں لیے جاسکتے ہیں ہندوستان میں اس سلسلے
کا اخیر نام حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا ہے۔
آپ کی تصانیف اور رسائل کی تعداد 800تک ہے ،ان میں سے چند ایک کے نام پیش
خدمت ہیں۔
تفسیر بیان القرآن ،سلیس بامحاورہ ترجمہ، تفسیر میں روایات صحیحہ اور اکابر
کے اقوال کا التزام کیا گیا ہے۔
اعمال قرآنی ،قرآن مجید کی بعض آیتوں کے خواص
حقیقۃ الطریقۃ ،سلوک وتصوف کے مسائل وروایات پر مشتمل ایک بے نظیر کتاب
احیاء السنن،فقہی ترتیب پر جمع کیے گیے احادیث کا مجموعہ
امداد الفتاوی،فقہی مسائل اور مباحث کا ایک نادر مجموعہ
الانتباہات المفیدہ ،جدیدتعلیم یافتہ لوگوں کے مذہبی اعتراضات کے جوابات
اعلاء السنن ،مذہب حنفی کی موید احادیث ،محدثین اور اہل فن کی تحقیقات کا
مجموعہ
بہشتی زیور،اسلامی معلومات کا مکمل ذخیرہ
المصالح العقلیہ،اسلامی احکام ومسائل کے مصالح وحکم کا بیان
جمال القرآن ،اصطلاحات تجوید پر مشتمل ایک عام فہم رسالہ
نشر الطیب ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مشتمل جامع مانع کتاب
وفات:
حضرت مجدد الملۃ قدس سرہ نے 83سال 3ماہ 11دن اپنے وجود مسعود سے دنیا کو
متبرک ومنور فرمانے کے بعد 16رجب المرجب 1362ھ بمطابق 20جولائی 1943ح کی
درمیانی شب رحلت فرمائی،انا للہ وانا الیہ راجعون
آپ کی نماز جنازہ شیخ الاسلام حضرت علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے
پڑھائی،تھانہ بھون کے قبرستان میں آپ آرام فرما ہیں۔ |