یہ بات اب راز کی با ت نہیں رہی کہ تبلیغی جماعت نے
اسلام کی اشاعت میں وہ کارنامے انجام دیے ہیں کہ کھربوں کے بجٹ رکھنے والے
تعلیمی و نشریاتی ادارے نہیں دے سکتے۔تبلیغی جماعت والوں کا کوئی لمبا چوڑا
مینوفیسٹو نہیں ہے اور نہ ہے کوئی انقلابی دستور شائع کیا ہے۔ بس خلوص دل
کے ساتھ اللہ کا نام لے کر گلی گلی قریہ قریہ گھومنا اور توحید کی دعوت
دینا ان کا پہلا اور آخری نصب العین ہے۔ہندوستان کے محلہ میوات سے شروع
ہونے والا یہ کام اب ایک عالمی تحریک کا روپ دھار چکا ہے۔تھوڑی سے عمر میں
، مجھے سینکڑوں لوگ دیکھنے کو ملے جو تبلیغی جماعت کے ساتھ جُڑ کرولی اللہ
بن چکے ہیں۔کل تک جو لوگ ناچ گانے اور عریانیت میں مبتلاتھے آج و ہ داعی
دین برحق بن گئے ہیں۔اس تحریک کا عالمی روپ دھارنے کی واحد ایک وجہ ہے کہ
اس کے بانیان نے بلاخوف و خطر اور کسی لالچ و طمع کے بغیر، انتہائی قناعت و
للہیت کے ساتھ دعوت کا بیڑا اٹھایا اور پھر یہ کام اتنا پھیلا کہ اب نہ کسی
انجمن کا محتاج ہے اورنہ ہی اس کے لیے کسی بجٹ کی ضرورت ہے اور نہ ہی ملکوں
کے آئین اور قوانین اس کام کو روکنے کی سکت رکھتے۔
مولانا زبیرالحسن صاحب ان مخلص تبلیغی رہنماؤں میں ایک تھے۔ اللہ ان کو
غریق رحمت کرے۔ایک زمانہ ان کا طوطی پورے ہند میں بولتا رہا، وجہ صاف ظاہر
تھی کہ وہ صرف ایک داعی الی الحق نہیں تھے بلکہ ایک عظیم محدث، ولی کامل
اور اکابرعلماء دیوبندکی حسین روایات کا ایک جیتا جاگتا ثبوت تھے۔اللہ نے
انہیں شریعت کے ساتھ طریقت کا فہم بھی عطاء کیا ہوا تھا۔
اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے
بعد اسلام کی بقاء و استحکام اور نشرواشاعت کے لیے جن لوگوں نے سب سے زیادہ
قربانی دی وہ علمائے دیوبند تھے۔ ان کے کئی سلسلے تھے ان میں ایک سلسلہ
دعوت و تبلیغ کا تھا۔ اور مولانا زبیرالحسن ان عظیم سلسلوں کو جاری وساری
رکھنے کے لیے ایک مینارہ ِ نور کی حیثیت رکھتے تھے۔ان تبلیغی بزرگوں کی
مساعی جمیلہ سے کتنے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے اور کتنوں نے فسق و فجور کی
راہ کو ترک کرکے دین حق کی طرف لوٹ آئے اور داعی حق بن گئے۔
حضرت مولانا زبیرالحسن کی سوانح پر تو اکابر علماء و شیوخ لکھیں گے۔ میری
دانست کے مطابق حضرت رحمہ اللہ ایک جلیل القدر بزرگ ہونے کے ساتھ ایک جید
مدرس بھی تھے۔ وہ سفر اور حضر میں ایک ہی کام میں منہمک رہتے تھے وہ تھا
مخلوق کا خالق سے رشتہ جوڑنا، صلح کرانا اور دوستیاں پیدا کرانا، جہاں بھی
مولانا رحمہ اللہ کا بیان ہوتا وہاں تشگانِ دین دور دور سے چلے آتے اور
خاموشی سے حضرت کی بات سنتے اور اپنی حیثیت اور فہم کے مطابق ان کے علمی و
عملی اور اخلاص کے دریائے سے سیراب ہوتے۔ان کا ایک ہی مشن تھا کہ ملت میں
بیداری کی روح پھونک دی جائے۔عام آدمی کے دل و دماغ میں اعمال صالحہ اور
اخلاق اسلامیہ کا طوفان کھڑا کیا جائے ، ان کی بھر پوردینی تربیت کا انتظام
ہو اور ان کی عملی زندگیوں میں اسلامی روح پیدا ہوجائے۔بغور جائزہ لیں تو
یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ تبلیغی جماعت نے اسلامی ریاست کے لیے لاکھوں مہذب
شہری فراہم کیے ہیں جن کے اعمال کے ساتھ اخلاق بھی اعلی ہیں۔ اسلام کی
تبلیغ و اشاعت اور پوری دنیا میں اسلام کا اصلی پیغام عام آدمی تک جس انداز
میں تبلیغی جاعت اور اس کے بزرگوں نے پہنچائی ہے اس کی مثال ماضی قریب میں
کہیں پر بھی نہیں ملتی۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ تبلیغی جماعت عام آدمی کے لیے ایک عظیم دینی
درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک چلتا پھرتا مدرسہ ہے جہاں سے ہر کوئی مے
کشید کرسکتا ہے ۔یہ جماعت پوری دنیا میں اسلام کی نشرو اشاعت اور اخلاق
حسنہ کی ترویج کا سب سے سستا اور مشہور سرچشمہ ہے۔ یہ ایک ایسا چشمہِ صافی
ہے جس کی نلیاں مغرب تا مشرق جنوب تا شمال پھیلی ہوئی ہیں۔اس چشمہ کی ایک
خاص انفرادیت ہے۔اس کا دائرہ فیض و محبت کسی حد کا محتاج نہیں بلکہ عرب
وعجم میںبلاتفریق مذہب و مسلک ، رنگ و نسل اور غریب و امیر اس کا فیض پہنچ
رہا ہے ۔
اس جماعت کے ایک عظیم روحانی پیشوا حضرت مولانا زبیرالحسن صاحب اٹھارہ مئی
دوہزار چودہ کو علی الصبح دہلی میں اللہ کے پیارے ہوئے ہیں۔ حضرت نے
پسماندگان میں تین صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں چھوڑی ہیں مگر سچی بات یہ
ہے انہوں نے لاکھوں متبعین و سالکین ااور اہل دل و درد چھوڑے ہیں۔آج ان کے
انتقال پرملال پر ہر آنکھ اشک بار ہے۔ان کی دینی خدمات صدیوں تک یاد رہیں
گی اور جب تک قیامت بپا نہیں ہوتی ان کا روحانی وتبلیغی فیض انسانیت کو
پہنچتا رہے گا۔جب بھی تبلیغی جماعت کی تاریخ مرتب کی جائے گی مولانا
زبیرالحسن کا نام سرفہرست ہوگا۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ راحتیں و لذتیں نصیب
کرے۔آمین
|