سراج الحق اور دیگر قائدین سے توقعات

جماعت اسلامی پاکستان کے نو منتخب امیرمحترم سراج الحق نے حلف امارت اٹھانے کے بعد اب مرکزی مجلس شوریٰ کے ارکان سے مشاورت کے بعدتنظیم نو بھی کر دی ہے۔ جس کے مطابق لیاقت بلوچ سیکرٹری جنرل ٗ پروفیسر خورشید احمد ٗ حافظ محمد ادریس ٗ اسد اﷲ بھٹو ٗ راشد نسیم اور میاں محمد اسلم نائب امراء ٗڈاکٹر فرید احمد پراچہ ٗ خالد رحمان ٗ حافظ ساجد انور اورمحمد اصغر ڈپٹی سیکرٹری جنرل جبکہ امیر العظیم کو سیکرٹری اطلاعات کا منصب دیا گیا ہے۔الحمد اﷲ تمام عہدیداران تجربہ کاراورجہاں دیدہ ہیں۔کم سے کم الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک متوازن ٹیم کا انتخاب کیا گیا ہے۔دو ہفتے پہلے سراج الحق نے منصورہ لاہور میں ایک با وقار اور پرُ جوش تقریب میں اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر نئی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔اس طرح وہ جماعت اسلامی کے پانچویں منتخب امیر بن گئے تھے۔اس سے قبل راقم الحروف کو قاضی حسین احمد (مرحوم ) کی تقریب حلف برداری میں شریک ہونے کا موقع ملا تھا۔وہ تقریب روایتی انداز اور سادہ نوعیت کی تھی۔جس کا اہتمام جامع مسجد منصورہ میں کیا گیا تھا۔ تاہم اب کی بار منعقدہ اس خصوصی تقریب کا احوال ٹی وی سکرین کے ذریعے سے دیکھنے کا موقع ملا ہے ۔جس کا اہتمام ایک آزمائشی ٹی وی چینل کے توسط سے کیا گیاتھا۔یہ واحد ٹی وی چینل تھا کہ جس نے سراج الحق کی حلف برداری کی تقریب براہ راست دکھائی تھی۔اس سے یہ چیز ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ جماعت اسلامی جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال تو کرنا چاہتی ہے ٗ مگر شاید ابھی مالی طور پر دوسری جماعتوں کے ہم پلہ نہیں ہو سکی ہے ۔ایک اوروجہ موثررابطوں میں کمزوری بھی ہو سکتی ہے ٗورنہ تو اپنی نوعیت کی یہ منفرد تقریب دیگر ٹی وی چینلوں پر بھی دکھائی جاسکتی تھی۔اس تقریب کے حوالے سے فوری طور پر یہ تاثر ذہن میں آیا کہ پہلی تبدیلی تو یہ آئی ہے کہ جماعت اسلامی مسجد سے نکل کر باہر کھلے لان میں آ گئی ہے ۔

جماعت اسلامی میں مرکزی امیر سے لے کر صوبائی ٗ ضلعی اور مقامی امراء تک کے انتخابات باقاعدگی کے ساتھ کروائے جاتے ہیں ۔ہر سطح کے انتخابات کو ایک دستوری تقاضا سمجھ کر منعقد کیا جاتا ہے۔ اس میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ کسی بھی سطح کے انتخابات میں کوئی امیدوار نہیں ہوتا۔نہ ہی کوئی انتخابی مہم چلائی جاتی ہے۔اگر کوئی فرد اس قسم کی سرگر می میں ملوث ہو یا اس کے بارے میں کو ئی شکایت سامنے آئے تو وہ نااہل قرار پاتا ہے۔ہر سطح کے انتخابات میں ارکان جماعت خفیہ بیلٹ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ البتہ مرکزی اور صوبائی امیر کے انتخاب کے لیے مجلس شوری ٰ عام ارکان کی رہنمائی کے لیے تین ارکان کا ایک پینل نامزد کر دیتی ہے۔تاہم دستور جماعت اسلامی کے مطابق اس پینل سے باہر کسی بھی رکن کو امیر جماعت کے عہدہ کے لیے ووٹ دیا جاسکتا ہے۔ جماعت اسلامی وطن عزیز کی شاید واحد دینی اور سیاسی جماعت ہے کہ جس کا باقاعدہ ایک مفصل دستور بھی موجود ہے ۔ اس دستور کو نہ صرف جماعتی انتخابات بلکہ اس کی تنظیم اور ارکان کے معاملات کو صحیح نہج اور طریقے پر چلانے کے لیے بھی ایک اہم دستاویز اورما خذ کادرجہ حاصل ہے۔دستور کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جماعت اسلامی کا رکن بننے والے ہر فرد کے لیے چند دیگر اسلامی کتب کے ساتھ ساتھ اس دستور کامطالعہ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔جماعت اسلامی کے مقامی حلقوں میں مختلف موضوعات پر سٹڈی سرکلز کا اہتمام بڑی توجہ سے کیا جاتا ہے۔ اس میں جہاں قرآن مجید کی تفاسیر ٗاحادیث و سیرتﷺ ٗآثارصحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین ٗ تاریخ خلفائے راشدین ٗتقابل ادیان ٗ اسلام اور دیگر مذاہب کے ساتھ ساتھ کیمونزم ٗسوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کا موازنہ بھی کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح دستور جماعت اسلامی پربھی باقاعدہ سٹڈی سرکلز منعقد کیے جاتے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کی کئی ایک دینی اور سیاسی جماعتوں ٗ تنظیموں اور انجمنوں نے اپنے اپنے دستور جماعت اسلامی کے دستور کو سامنے رکھ کر مرتب کیے ہیں۔

اس دفعہ امیر جماعت اسلامی پاکستان کے انتخاب سے قبل دیکھا گیا ہے کہ میڈیا میں اس حوالے سے کوئی خاص تبصرے یا تجزیے سامنے نہیں آئے تھے۔انتخابی عمل کے آخری دنوں میں کچھ خبریں ضرور سامنے آ رہی تھیں۔مگر زیادہ دلچسپی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اسی طرح کسی بھی تجزیہ نگار اور پنڈت کی طرف سے کوئی پیش گوئی بھی سامنے نہیں آئی تھی۔البتہ جب انتخابی نتیجے کا اعلان کیا گیا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کچھ لکھاری حیران اور شاید کچھ پریشان بھی ہو گئے تھے۔ان کی یہ حیرانی اور پریشانی خبروں ٗتجزیوںٗ کالموں اور دیگر مضامین وغیرہ کے ذریعے بار بار سا منے آتی رہی ہے۔اس کار خیر میں ہر قابل ذکر قلمکار نے اپنا حصہ ضرور ڈالا ہے۔اخبارات و رسائل کے ساتھ ساتھ ٹی وی شوز میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت دیکھنے کو ملتی رہی ہے۔ بہر حال وقت بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔لیکن گزرے ہوئے ایک ایک لمحے اور اس میں موجود ایک ایک سبق پر نظر رکھنا مستقبل کی منصوبہ بندی کے کام آتا ہے۔اس کے علاوہ اپنے دامن کو نہ صرف یہ کہ صاف رکھنا بلکہ اسے ساتھ ساتھ جھاڑتے بھی جانا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ چیز بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ میڈیا اور صحافت کے کچھ اپنے تقاضے اور مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔تاہم بعض دفعہ خبریت کے لیے یا پھر کچھ ہل چل مچانے کے لیے اپنی طرف سے مرچ مصالحہ بھی لگا دیا جاتا ہے۔سنسنی خیزی پیدا کرنے یا پھر توجہ حاصل کرنے کے لیے کبھی کبھی طنز اور مزاح سے بھی کام لیا جاتا ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ با ذوق لوگ طنز و مزاح سے محظوظ ہوتے اور لطف اٹھاتے ہیں مگر بعض سادہ لوح اور جذباتی قسم کے لوگ لٹھ لے کر پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ اس قسم کارویہ اور اندازکسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ آپ فون کر کے یا ملاقات کرکے اپنا نکتہ نظر واضح کر سکتے ہیں یا پھر اگر ضروری سمجھیں تو وضاحتی تحریر بھی بھجوائی جا سکتی ہے۔تا ہم تینوں طریقوں میں شائستگی اور دلیل سے ہی کام لیا جائے تو اس کے بہتراور مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا تعلق کسی ایک واقعہ یا ایشو تک محدود نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ سیاسی جماعتوں اورمیڈیا کا تعلق تو آپس میں چولی دامن کا سا ہے۔ گویا ۔ ۔ ۔ ۔ ہر روز نیا طور ہے ٗ ہر روز نئی تجلی ٗ والا معاملہ ہے۔

حلف امارت کی اس تقریب میں سب نے دیکھا کہ جانے والا اور آنے والا ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ایک دوسرے سے مسکرا مسکرا کر بات چیت کر رہے تھے۔کوئی مخالفانہ نعرہ بازی یا ہلڑ بازی نام کی چیز دور دور تک دکھائی نہیں دیتی تھی۔کسی دوسری جماعت میں اس طرح کا منظر کبھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔وہاں تو جانے والے کے خلاف چارج شیٹ پیش کی جاتی ہے اور آنے والے کا فاتحانہ انداز ایسے معلوم ہوتا ہے کہ گویا موصوف کوئی ملک فتح کر کے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پارٹی عہدے سے الگ کیا جانے والا فرد یا تو کسی دوسری جماعت کا رخ کرتا ہے یا پھر اپنی پارٹی کا اعلان کرکے خود ہی اس کا بانی صدر یا چیئر مین بن بیٹھتا ہے۔تا ہم جماعت اسلامی اس قسم کے جھگڑوں اور بکھیڑوں سے محفوظ چلی آ رہی ہے۔اس کی بنیادی اور اہم وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کسی فرد یا خاندان کے گرد گھومنے والی پارٹی نہیں ہے۔یہاں حسب و نسب یا دولت و مرتبہ کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ جماعت اسلامی کے مقصد اور مشن کے لیے کسی فرد کی قربانیوں اور جدوجہد کو سامنے رکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں ۔یہ تمام چیزیں جماعت اسلامی کے دستور میں بڑی صراحت کے ساتھ درج کی گئی ہیں۔امیر کا انتخاب ہو یا شوریٰ کا ہر موقع پر دستور کو سامنے رکھا جاتا ہے ۔اسی طرح دیگر تمام فیصلوں میں بھی دستور کو اولیت دی جاتی ہے۔

جماعت اسلامی کے پانچویں امیر سراج الحق کو میڈیا کے علاوہ دینی اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور ان کے کارکنان کی طرف سے بھی خوش آمدید کہتے ہوئے بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی ہے۔عام شہریوں نے بھی سراج الحق کے بارے میں اچھے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا ہے۔جماعت اسلامی اس پر جتنا بھی اﷲ کا شکر ادا کرے ٗ وہ کم ہے۔اب سراج الحق کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ انہیں جماعت کے اندر بھی تبدیلیاں لانا ہوں گی ۔ فعال شخصیات اور مختلف شعبہ جات کے ماہرین کومشاورت میں شامل کرکے ان کی صلاحیتوں سے بھی استفادہ کے مواقع نکالنا ہوں گے۔امید ہے کہ وہ مرکزی مجلس شوریٰ کی مشاورت سے آگے قدم بڑھاتے چلے جائیں گے۔اسی طرح دیگر دینی اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط کو بھی از سر نو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ایک اصولی دینی تحریک ہونے کے ناطے جماعت اسلامی اپنے نصب العین اور دستور و منشور کے قریب تر جماعتوں اور تنظیموں کے ساتھ تعلقات اور روابط کو بھی مضبوط کرنا ہو گا ۔عالمی استعمارکے اسلام اور مسلم دشمن ایجنڈے کے خلاف دینی جماعتوں کو ایک آواز ہو کر میدان میں نکلنا ہو گا۔لبرل اور سیکولر عناصرخم ٹھونک کر اسلام کے خلاف آئے دن ہرزہ سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔بین الاقوامی مسائل اور امت مسلمہ کو درپیش مشکلات کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیزکے گھمبیر مسائل اور عوام کو درپیش روز مرہ کے مسائل کی طرف بھی بھر پور توجہ دی جائے ۔ اس وقت جماعت اسلامی کے کارکنان میں ایک نیا جذبہ اور ولولہ پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ تو اسے سابق امیر قاضی حسین احمد (مرحوم ) کا دور ثانی بھی کہتے ہیں ۔جماعت اسلامی کے اندر اور باہر سراج الحق سے لوگوں نے بہت ساری امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ اگر وہ بڑے پیمانے پر کوئی سرگرمی اپنے کارکنان کو دیں تو امید کی جانی چاہیے کہ جماعت اسلامی کا مخلص اور محنتی کارکن اب بھی معجزے دکھا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے قائدین کا دامن ہر قسم کی کرپشن اوردیگر آلودگیوں سے پاک اور صاف ہے۔ماضی میں جماعت اسلامی کو جہاں اور جس طرح کی بھی ذمہ داریاں ملی ہیں ٗ اس کے افراد کی کارکردگی مثالی رہی ہے۔ مخالفین بھی جماعت اسلامی کے لوگوں کی تعریف کرتے ہیں۔یہ وہ سرمایہ ہے کہ جس سے دوسری جماعتیں تہی دامن ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ جماعت اسلامی کو دوسروں کے پیچھے پیچھے چلنے کی بجائے آگے بڑھ کر قومی سیاست میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

Malik Muhammad Azam
About the Author: Malik Muhammad Azam Read More Articles by Malik Muhammad Azam: 48 Articles with 52010 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.