پورا ملک رشو ت خو ری، لوٹ کھسوٹ۔اقربا پروری،بدامنی،دھشت
گردی اور ،شہزادہ ازم میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنی جماعت کو
خاندانی جاگیربنا رکھا ہے اور قومی خز انے کو شیرِ مادر سمجھ کر ہضم کرنے
کی راہ اپنائی ہوئی ہے۔ سماجی برائیوں پر غلبہ تو ھاصل نہیں ہو سکا اور نہ
ہی اس کی سعی کی جا تی ہے لیکن ایک خوا ہش بڑی شدید ہوتی ہے کہ کسی طرح فوج
کو نکیل ڈالی جائے ۔ہم کتابوں میں ایک کہانی پڑھا کرتے تھے جس میں چند چوہے
ایک خونخوار بلی سے بڑے نالاں تھے ۔بلی دبے پاؤں نمودار ہو کر ان میں سے
کسی ایک چوہے کو روزانہ اپنا شکار بنا لیتی تھی اور دوسرے چوہے اپنی جان
بچانے کیلئے بلوں میں گھس جاتے تھے۔ایک دن چوہوں نے آل پارٹی کانفرنس منعقد
کی اور اس میں متفقہ طور پر یہ قرار داد منظور کی کہ بلی کے گلے میں ایک
گھنٹی باندھ دی جائے تاکہ جب کبھی بلی نمودار ہونے کا ارادہ کرے تو ہمیں
خبر ہو جائے کہ بلی آرہی ہے اور ہم اپنی اپنی بلوں میں گھس جائیں اور یوں
بلی کے ظلم و جبر کا نشا نہ بننے سے بچ جائیں۔اس تجویز پر سارے چوہے پھولے
نہیں سما رہے تھے۔ وہ اپنے تئیں یہ سمجھ رہے تھے کہ انھوں نے مسئلہ فیثا
غورث حل کر لیا ہے۔وہ ابھی تک اپنی قرارداد اور دانشوری کے نشے میں ڈوبے ہو
ئے تھے کہ ایک نحیف سا چوہا اٹھا اور یوں گویا ہوا (یہ گھنٹی والی تجویز تو
بڑی لاجواب ہے اور اس سے ہم سارے محفوظ و مامو ن بھی ہو جائیں گئے لیکن
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟سارے چوہے اس
سوال پر سرد آہیں بھرنے لگے ،ان کے چہروں پر مایوسی کا رنگ نمایاں ہونے
لگا۔ وہ جس بے مثل تجویز پربڑے نازاں نظر آتے تھے اپنے دوست کے ایک سوال پر
بالکل بے بس نظر آ رہے تھے ۔ انھیں ایسے محسوس ہونے لگا جیسے ہنوز دلی دور
اسے والی کیفیت ہے اور وہ اب بھی بلی کی سفاک گرفت میں ہیں۔ابھی وہ سوال کے
خوف اور سراسیمگی میں ہی کھوئے ہوئے تھے کہ اچانک بلی ایک دفعہ پھر نمو دار
ہوئی اور سارے چوہے ایک دفعہ پھر اپنی جانیں بچانے کی فکر میں اپنے اپنے
بلوں میں گھس گئے۔فوج کو نکیل ضرور ڈالی جائے لیکن یہ ڈالے گا کون؟ کیونکہ
نکیل اسی وقت ڈالی جا سکتی ہے جب جماعتوں کے اندر جمہوریت رائج کی جائے جب
تک یہ نہیں ہو گا کچھ بھی ھاصل نہیں کیا جا سکے گا۔پی پی پی کے شریک چیرمین
آصف علی زرداری کو بخوبی علم تھا کہ فوج کی قوت اور طاقت کیا ہوتی ہے اس
لئے اپنے دورِ حکومت میں انھوں نے انتہائی تا بعداری سے فوج کی ہر تجویز کو
سر آنکھوں پر رکھا۔انھیں اپنے اقدامات سے کبھی بھی غصہ اور طیش نہیں
دلایالیکن اس کے باوجود بھی کئی دفعہ ایسے مرحلے بھی آئے جب وہ دبئی یاترا
پر بھی نکل جاتے کیونکہ جان بچانے کا یہی نسخہِ کیمیا تھا۔ یہ ٹھیک ہے آ صف
علی زرداری ایک سندھی سیاست دان ہیں اور پی پی پی کے شریک چیرمین کی حیثیت
سے فوج سے ان کی مخاصمت کی ایک لمبی داستان ہے کیونکہ فوج پی پی پی کیلئے
کوئی نرم گوشہ نہں رکھتی لیکن اس کے باوجود بھی انھوں ے فوج کی ہاں میں ہاں
ملائی تا کہ اس کے غضبناک ہونے کے امکانات کم سے کم ہو جائیں ۔انھیں فوج کی
ناراضگی کے نتائج کا علم تھا کیونکہ انھوں نے اس کا بھاری خمیازہ بھگتا ہوا
تھا لہذا اب وہ اس خمیازے کو ایک دفعہ مزید بھگتنے کیلئے تیار نہیں
تھے۔میاں برادران ایک دفعہ سعودی مدد سے تو بچ گئے تھے لیکن اگر اس طرح کا
مرحلہ دوبارہ آیا تو پھر سعودی عرب بھی بے بس ہو گا لہذا پہلے ہی سوچ لیں
کے فوج سے محاذ آرائی کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔وہ پنے جن پر وہ تکیہ کئے
ہوئے ہیں وہ پتے سب سے پہلے ہوا دیں گئے کیونکہ ان کا انداز ہی یہی ہے
۔ایسے بے وفا اور چار چشم لوگوں نے انھیں کل بھی چھوڑا تھا اور وہ آزما ئش
کی گھڑیوں میں ایک دفعہ پھر انھیں چھوڑ جائیں گئے ۔چھوڑنا ان کی فطرت میں
شامل ہے لہذا وہ بھی مجبور ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ڈنگ مارنا بچھو کی فطرت
میں شامل ہے ۔میاں برادران کو ایسے لوگوں پر کوئی گلہ نہیں ہونا چائیے
کیونکہ یہی دستورِ زمانہ ہے کہ جو ڈوب رہا ہے اسے ڈوب جانے دو اور جو طلوع
ہو رہا ہے اسے سلام کرو۔چڑھدا سورج زندہ بار ہی ان کا منشور ہے اور اس
منشور پر وہ بڑی سختی سے کاربند ہیں۔
انسان کو جب طاقت اور اقتدار مل جاتا ہے تو وہ پرانے وقت کو بھول جاتا
ہے۔وہ یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ اس سے جو غلطی ماضی میں ہوئی تھی اب اس پر
قابو پا لیا گیا ہے لہذا اپنی نئی طاقت سے اپنے مخالفین کو سرِ خم تسلیم
کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔وہ نئے جذبوں کے ساتھ اپنے مخالفین کے خلاف
نئی ریشہ دوانیوں اور سازشوں میں میں جٹ جاتا ہے لیکن وہ پھر کہیں نہ کہیں
نئی خطا کر جاتا ہے اور یوں بنی بنائی بازی اس کے اپنے ہا تھوں سے نکل جاتی
ہے اور اسے ایک دفعہ پھر مات ہو جاتی ہے لیکن اب کی بار اس کا سبب کچھ اور
ہوتا ہے۔انسان کی ساری داستان اپنی خطاؤں کی سزا پانے کی داستان ہے۔۔میاں
برادران کو یاد ہونا چائیے کہ وہ ۲۰۰۱ میں فوج کے جرنیل جنرل پرویز مشرف
سے معافی مانگ کر سعودی عرب پدھارے تھے۔شیر کہلانا تو بڑا آسان ہوتاہے لیکن
شیر بننا بڑا مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس راہ پر کبھی کبھی جان کی بازی بھی
لگانی پڑتی ہے ۔وہ سارے لوگ جو جنرل پرویز مشرف کو سبق سکھانے کا عزم رکھتے
ہیں۔کاش دوسروں سے انتقام لینے سے پہلے وہ اپنے گریبان میں جھانک لیں کہ ان
کا اپنا ماضی کتنا بھیانک اور سفاک ہے اور ان کے اپنے ہاتھ کس طرح دوسروں
کے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ میاں برداران نے جیا لوں کے ساتھ بے پناہ جو رو
ستم روا رکھے تھے ۔انھوں نے اپنے ان کارناموں کا حساب تو کبھی نہیں دیا
لیکن اگر جنرل پرویز مشرف نے انھیں ایک دفعہ جہاز کی سیٹ کے ساتھ باندھ دیا
تو قیامت ٹوٹ پڑی ۔جیا لوں نے تو اپنے قائد کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کی
تھیں اور ان پر قیامت ڈھانے والے کوئی اور نہیں جنرل ضیا الحق اور میاں
برادران تھے۔پی پی پی کی قیادت جیالوں کی عزت و وقار کا تحفظ کیا کرتی اس
نے تواقتدار کی خاطر اپنی قائد کے لہو کا سودا بھی کر لیا تھا لہذا ان سے
کسی بھی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ سوداگروں کا اقتدار پورا ہوا پی پی
پی کا اپناعہد پورا ہوا۔ایک تناور درخت اپنوں کی نوازشوں سے زمین بوس
ہوا،قصہِ ماضی ہوا اور جیالے شرمسار ہوئے کہ اتنی دیر آبلہ پائی کا مقصد
کیا تھا؟ اپنے لہو سے پھول کھلانے کا جنون کیوں تھا؟قائد کی خاطر ز ندا نوں
کو آباد کرنے کا صلہ کیا تھا؟جمہوریت کی خاطر اپنی جوانیوں کا خراج کس لئے
دیا تھا؟اگر قربانیوں کا نتیجہ کسی کے ذاتی اقتدار کا حصو ل اور وراثتی
اقتدار کو مضبوط کرنا تھا تو پھر قربانیوں کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟کہتے
ہیں اقتدار کی جنگ میں محبت کا کہیں کوئی وجود نہیں ہوتابلکہ اقتدار میں تو
صرف مفاد ات کا وجود ہوتا ہے لیکن جیالے مفاد ات کے نہیں محبت کے اسیر
تھے۔بدلتی آنکھوں میں انھوں نے اپنی محبت کو مرتے دیکھا تو چپکے سے اپنے
اپنے گھروں میں دبک کے بیٹھ گئے تاکہ محبت رسوا ہونے سے بچ جائے۔ان کے ساتھ
ہی پی پی پی بھی ایسے ہی بیٹھ گئی جیسے یہ جماعت کہیں موجود ہی نہیں تھی
حالانکہ کل تک اس کے نعروں سے پاکستان کے درو دیوار کانپتے تھے۔سچ تو یہ ہے
کہ پی پی پی کی بنیادوں میں عشق و وفا کا لہو تھا ۔اس کی طاقت محبت کی
سچائی تھی لیکن وہ سچائی جب اقتدار کے ایوانوں میں گروی رکھ دی گئی تو پی
پی پی پی کے جیالے یتیم اور لا ورث ہو گئے۔انھوں نے اپنی محبت کا سودا کرنے
کی بجائے خاموشی کی چادر اوڑھ لی کہ عشق کا ایک رنگ یہ بھی ہوتا ہے کہ
خاموشی میں عشق کو نئے معنی عطا کئے جائیں ۔جیالوں کو نہ کوئی کل مار سکا
تھا اور نہ کوئی آئیندہ مار سکے گا کیونکہ ان کا وجود محبت کے خمیر سے اٹھا
ہے جسے جنر ل ضیا لحق کی آمریت بھی جھکانے میں ناکام رہی اور جس کا جنرل
پرویز مشرف بھی کچھ نہ بگاڑ سکا انھیں لہذا کون ہے جو انھیں مار
پائیگا؟۔جیالے سچے جذبوں کا اظہار بن کر سینہِ وقت پر اپنی جراتوں کی
داستان رقم کرتے رہے لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد نئی قیادت
نے انھیں اس طرح نظر انداز کیا کہ وہ بے موت مر گئے۔وہ فاقہ مست جھنیں کوئی
آمر نکیل نہ ڈال سکا ا نھیں ان کی اپنی قیات نے نکیل ڈال کر بے بس کر دیاہے
کیونکہ زمینی حقائق بدل چکے ہیں۔۔۔۔
|