کیسے مان لوکے حامدمیرکا کہا سب سچ ہے ...؟؟؟توکیا پھر میں اورتم بھی
حامدمیرہیں......؟؟؟؟
آج ایک باتونی کی کسی بات کے مخالف تو ہزارہوگئے ہیں...؟؟مگر کیا وجہ ہے کہ
اِس کاحامی کوئی نظرنہیں آرہاہے....؟ حتی کہ آج اِس کی مخالفت میں خود اِس
کے اپنے ہی شعبے کے ایسے بے شمار لوگ بھی شامل ہیں جو کبھی اِس کی شخصیت
اور اہلیت کے قائل رہے ہیں اور شاید آج بھی یہ لوگ دبے دبے لفظوں میںکہیں
نہ کہیں اِس کی تعریف بھی ضرور کرتے ہوں گے...؟ مگر آج ایک ایسے وقت میں کہ
جب اِن کا اپناہی سینئر ساتھی اپنی زبان سے نکلے کچھ جملوں اور الفاظ کی
وجہ پریشانی میں مبتلاہے یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے پیارے اور بہادر ساتھی کا
ساتھ اِس حال میں چھوڑ کر کسی اور (اپنے مالکان کا کمرشل چلارہے ہیں اوراِن
)کی خدمت کررہے ہیں یہ ایساکیوں کررہے ہیں...؟؟ یہ بھی سب جانتے ہیں اُمید
ہے کہ آپ میرااشارہ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کس کی بات پر....کن کی مخالفت
اور مذمت و مزاحمت کی بات کررہاہوں...؟آج کسی کی کسی بات پرجیسی صُورتِ حال
میرے یہاں پیداہوگئی ہے، اَب تواِس سے اُسی وقت ہی نکلنا ممکن ہوسکے گاجب
صاف وشفاف تحقیقات کی جائے اور کسی مثبت نتیجے پر پہنچ کر قوم کے سامنے اُن
تمام حقائق کو آشکارکردیاجائے جن کی بنیادوں پر کسی نے کسی کے لئے اپنے
تعین تو سچ بولامگر جن سے متعلق جو کچھ کہاگیااُن سے متعلق ایساکہناکوئی
زیب نہیں دیتاکہ کوئی بس یوں ہی اُن سے متعلق آسانی سے وہ سب کچھ کہہ جائے
جن سے متعلق ہماری تاریخ گواہ ہے کہ کبھی بھی کسی نے بھی ایساکچھ نہیں
کہاجیساکہ آج کہہ دیاگیاہے ۔
تو بہرحال ..!اَب وہ دن بھی کوئی دورنہیں ہیں کہ کسی کے پیش آئے واقع کے
بعد اُس کی زبان سے نکلے ہوئے کسی ایک جملے سے متعلق شروع ہونے والی
تحقیقات میں بال کی کھال نکال کردودھ کا دودھ پانی کا پانی جلدکردیاجائے
گااور قوم کے سامنے وہ سب کچھ آجائے گا آج جس کی وجہ سے قوم اور اداروں میں
ہیجانی کیفیت پیداہوگئی ہے۔
حضرت بایزیدبسطامی ؒ کا قول ہے کہ ” سچائی میں بڑی طاقت ہے اور وہ آپ
دکھاکررہتی ہے“اَب یہ دیکھناآپ کا کام ہے کہ جس نے جب ...اور جہاں اور جس
انداز سے سچ کہاہے...؟ اِس کے سچ کی طاقت اپنا آپ کب دکھاتی ہے...؟مگر یہ
حقیقت ہے کہ سچ کی طاقت اپنا آپ کبھی نہ کبھی ضروردکھاتی ہے...؟بس آپ میں
...اوراُس میں ہمت ہونی چاہئے کہ تب آپ اپنے کہے پر ڈٹے رہیں اوروہ بھی آپ
کے سچ کی طاقت کا مقابلہ کرسکے.. جس کے بارے میں آپ نے اپنے تعین کبھی سچ
کہاتھا اور اِسی طرح سقراط کے بھی سچ سے متعلق کہے ہوئے یہ تاریخی اقوال ہر
زمانے.. اور ہرمعاشرے کے ہر فرد کے لئے تاقیامت مشعلِ راہ ہیںا ور ضروررہیں
گے وہ کہتاہے کہ” دنیا میں کوئی ہستی نہیں جو مجھے خوف دلاکرسچ کہنے سے روک
سکے میں سرتسلیم خم کرنے کے بجائے موت کو ترجیح دیتاہوںاور دوسری جگہہ
سقراط کا یہ بھی کہنا ہے کہ ” یادرکھوفتح طاقت کی نہیں بلکہ سچ کی ہوتی ہے“
اَب سقراط کے اِن کہئے کو کون ایساہوگا..؟جو اِنہیں جھٹلائے مگر شرط صرف یہ
ہے کہ دیکھنا یہ چاہئے کہ سچ کہنے والا خود کتناسچاہے...؟ اور اِس کاماضی
اپنے سچ کے حوالوں سے کیا حیثیت رکھتا ہے...؟
اگرچہ آج اِس سے بھی انکار نہیں ہے کہ دنیا کے جن معاشروں اور تہذیبوں نے
اپنے افراد کے ہجوم کو ہر حالت میں سچائی کا عادی بنایا اوراِن میں سچائی
ہی کی تبلیغ کی ہے اصل میں سچ اور سچائی اور حق اِن ہی معاشروں اور تہذیبوں
کا طرہ امتیازبنے ہیں اور اِن معاشروں اور تہذبیوں ہی میں سچ اور سچائی ہی
بڑی طاقت بنی ہیں اور اُن کے ہر شعبے ہائے زندگی میں حق اورسچ غالب رہے
ہیںاور اِنہی کی بنیادپر اُن معاشروں اور تہذیبوں نے ترقی و خوشحالی کی
منزلیںطے کیں ہیں۔
آج بے شک میرے دیس میں بھی سچ کی اہمیت اور عظمت کے سب ہی قائل ہیں مگر
معلوم نہیں پھر بھی کیوں میرے اپنے لوگ حق و سچ بولنے والوں سے خائف رہتے
ہیں جب کہ جو خائف رہتے ہیں وہ بھی اپنے کاموں اور ذمہ داریوں میں کھرے اور
سچے ہیں اور جو دوسرے کسی وجہ سے سچ بولتے ہیں اُن کے سچ میں کہیں نہ کہیں
تھوڑی بہت جھوٹ کی آمیزش ضرورشامل ہوتی ہے مگر چونکہ اِنہیں یہ ہی
گھمنڈمارے جاتاہے کہ اِن کا شعبہ اِنہیں اپناجھوٹ چھپانے اور دوسرے کے کردہ
اور ناکردہ فعل کو جھوٹ کے ساتھ سچ کرکے سامنے لانے کی ذمہ داری سونپاہے تو
سو یہ جو چاہیں کریں اور جیساچاہئے پیش کریں اِن سے کوئی پوچھنے والا نہیں
ہے، یہ ایک آزمودہ حقیقت ہے کہ ہر معاشرے اور ہر تہذیب میں ”سچاشخص اگرکسی
مصلحت کے تحت بھی جھوٹ بولے تو لوگ اِس کو سچ سمجھیں گے اورجھوٹااگرسچ بھی
بولے تو لوگ اِس کوجھوٹ سمجھیں گے“ اَب یہ تو آپ کو پرکھناہے کہ کون،کیوں
اور کیا کہہ رہاہے ...؟
اَب یہاں میں سچے اور جھوٹے کو جاننے کے لئے باباخو ش حال خان خٹک کے یہ
دواقوال نقل کررہاہوں ایک موقع پربابا خوش حال خان خٹک کہتے ہیں کہ” سچے
لوگوں کے چہروں پر بہادری کی سی تازگی اور جھوٹوں کے منہ پر خزاں کی سی
پژمردگی چھائی ہوتی ہے“اور دوسری جگہہ آپ ؒ فرماتے ہیں کہ” میرے سچ بولنے
کی وجہ سے میرے گاؤں میں میراکوئی خیرخواہ نہیں “ آج جن لوگوں نے کسی بھی
وجہ سے سچ و حق کا علم
بلندکیاہے اور اِسی وجہ سے یہ اپنے ہی گاؤں، شہر ، مُلک ، شعبے اور اپنے ہی
لوگوں میں تنہا محسوس کررہے ہیں،اِنہیں یقین ہوناچاہئے کہ وہ نہ تو تنہاہیں
اور تنہارہیںگے ، آج اِن کے گاؤں ، شہر، مُلک اور شعبے والوں نے جو اِن
کاساتھ چھوڑدیاہے تو ایسانہیں ہے ، وہ سب لوگ بھی اِن ہی کے ساتھ ہیں ،
بس..! آج یہ لو گ اِن کے کسی سچ کی مخالفت یوں کررہے ہیں کہ یہ اپنے اپنے
مالکان کے نوکر ہیں اور نوکری کررہے ہیں یا اِن میں پروفیشنل جیلیسی بھی ہے
یوںاِس طرح یہ اپنے ہی ساتھی کی مخالفت کرکے اپنے مالکان کے غلہ (نقدی
رکھنے کا صندوقچہ ) بھر رہے ہیں،کیوں کہ یہ ایسانہیں کریںگے تو اِن کی دال
دلیہ کیسے چلے گی ..؟اپنے دال دلیہ چلانے اور اپنی نوکریاں بچانے کے لئے
اپنے مالکان کے ایماں پر یہ اُچھل اُچھل کر اپنے ساتھی کی مخالفت اپنے شعبے
کی خدمات سمجھ کرکررہے ہیں حالانکہ وہ یہ بات بھی اچھی طرح سے جانتے ہیںکہ
آج جو سچ بولے یا حق کا علمبردارہو،کیا وہی حامدمیر ہے، اگر ایساہی ہے تو
پھروہ بھی اور میں بھی حامدمیر ہوں، توتم بھی حامدمیر ہو، اور وہ بھی حامد
میر ہے، آج جو کسی مصالحت پسند ی یا ظاہری اورباطنی وجوہات کی بناپر کسی
دباؤ کاشکارہے، اورآج وہ اپنے ساتھی حامدمیر کے حق وسچ کو دبانے میں پیش
پیش ہیں، مگر چونکہ یہ بھی وہ جانتے ہیں کہ سچ کا ذائقہ کڑوا مگر اثر میٹھا
ضرور ہوتا ہے، کبھی نہ کبھی حامدمیرکی زبان سے نکلے ہوئے جملے اور الفاظ
ضرورطاقت کے ساتھ سامنے آجائیں گے.؟مگرپھر بھی راقم الحرف کا چلتے چلتے
اتناضرورکہنا ہے کہ حامدمیر کو اپنے ہی اداروں سے متعلق ایساکھراسچ یوں
ہرگزنہیں بولناچاہئے تھاکہ جس سے اپنے ہی قومی اداروں کا امیج خراب ہواور
ہم دنیامیں نہتے ہوکررہ جائیں اور تب ہماراسچ بھی ہماراساتھ چھوڑجائے، اَب
صحافت اور سچ کا یہ ہرگزمطلب نہیں ہے کہ سچ اپنے ہی اداروں اور اپنے ہی
محسنوں کو نیچادکھانے کے لئے بولاجائے ،کبھی کبھی اپنوں کے معاملے میں
خاموشی بھی اچھے ثمرات چھوڑجاتی ہے،، حامد میر کو ہر حال میں خاموش
رہناچاہئے تھااور اَب بھی کچھ نہیں ہواہے بہت وقت ہے حامدمیر اپنے قومی
اداروں سے متعلق کہے ہوئے جملے اور الفاظ واپس لیں اور مُلک وقوم اور
اداروں کو ہیجانی کیفیت سے جھٹکارہ دلادیں۔ |