حکومت کسی کی بھی ہو جناب محترم ملاں فضل الرحمان صاحب ٧٣ کے آئین کے تناظر
میں اسکا حصہ بننے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں اور کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اس
بار بھی حضرت نے جدوجہد کی مگر نواز شریف بھی تجربہ کار سیاستدان ہے اسنے
پہلے تو حضرت کو لارے لپے میں ٹرخایا مگر ملاں جی بھی ارادے کے پکے اور نیت
کے کھوٹے ہیں میاں صاحب کی چوکھٹ نہیں چھوڑی اور آخرکار جمہوریت کی مضبوطی
کے لیے ملاں فضل الرحمان صاحب نےمیاں نواز شریف کو دو عدد سکہ رائج الوقت
وزارتوں اور ایک عدد کشمیر کمیٹی کی چئرمینی کے مہر پر سیاسی نکاح کے لئیے
راضی کر لیا ، لیکن میاں صاحب نے مہر کی فوری ادائگی کی یقین دہانی کے
باوجود تادم تحریر میاں صاحب نے مہر ادا نہیں کیا۔ جسکی وجہ سے موصوف کو
اپنا سیاسی گھر اجڑتا ہوا نظر آرہا ہے اور لگتا ہے بات سیاسی خلع تک پہنچ
جائے گی اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب بھی جمہوریت کی مضبوطی کے لئیے ہی ہو
گا۔ میں نے عقل و خرد کے بہت گھوڑے دوڑائے اور سمجھنے کی کوشش کی کہ یہ
کیسی جمہوریت ہےکہ جس میں شمولیت و اخراج دونوں ہی اسکے استحکام کلئیے ہی
ہے۔ اور اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ یہ جمہوریت کا استحکام انکے پیش نظر نہیں
ہوتا اگر کچھ پیش نظر ہوتا ہے تو صرف ذاتی مفاد کا استحکام ہی ہوتا ہے۔
ویکیپیڈیا موصوف کے بارے میں جو لکھتا ہے وہ بیان کرکے آگے بڑھتا ہوں ،
بینظیر بھٹو کے دور میں سیاسی بخشش کے طور پر فضل الرحمن کشمیر اور خارجہ
کمیٹی کا سربراہ بنتا رہا۔ بلوچستان میں ق-لیگ حکومت کی شمولیت کے دوران
فضل الرحمن ایران سے ذیزل ناجائز درآمد کرتا رہا جس کی وجہ سے مخالفین
نےمولانا ذیزل کا خطاب دیا۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی بخشش کے الزام لگے۔[1][2]
2013ء کے انتخابات میں شکشت ہوئی مگر نواز شریف سے جوڑ توڑ کر کے خیبر
پختونخواہ میں حکومت بنانے اور بلوچستان میں شمولیت کی دھن میں مگن رہا (
https://ur.wikipedia.org/wiki/ ) ۔ میری قوم کا ہاضمہ بہت مضبوط اور حافظہ
بہت کمزور ہے اس لئیے آپکی میموری ریفریش کرنے کے لئیے لکھ رہا ہوں اور
دوسری وجہ یہ ہے کہ ملاں جی نے آج عمرآن خان اور طاہر القادری کے احتجاج کے
بارے میں بیان داغتے ہوئے فرمایا کہ عمران خان اور طاہرالقادری بیرونی
ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں۔ جب مولانا
سترہویں ترمیم پاس کروا کے مشرف دور میں اپوزیشن لیڈر بن رہے تھے تب
جمہوریت یاد نہ آئی۔ پنچابی میں کہتے ہیں کہ چھج تے بولے چھاننی وی بول رہی
ہے۔ موصوف کا مسئلہ یہ ہے کہ اسکو دوسرے کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے پر
اپنی آنکھ میں شہتیر نظر نہیں آتا ۔ ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوتے ہیں بدنام
۔ جناب کی خدمت میں دست بدستہ درخواست ہے کہ واقعی اگر آپ مارشل لاء کی روک
تھام کرنا چاہتے ہیں تو ان سے کہیں جن سے آپ سیاسی نکاح کرتے ہیں کہ
کارکردگی دکھائیں اور عوام کے مسائل حل کریں تو پھر کوئی مارشلاء نہیں آئے
گا ، لیکن اگر لچھن یہی رہے تو پھر تو بندوق والے آئیں گئے لیکن آپ ٹھنڈ
رکھیں آپ اسکا حصہ ہوں گئے ٧٣ کے تناظر میں ، کیونکہ آپ پاور سے باہر رہ
نہیں سکتے اور نہ آپکو سیاسی بیوہ کی زندگی قبول ہے ، سہاگن وہ جو پیا من
بھائے اور آپ تو حکومت کے سنگھاسن پہ بیٹھے ہر پیا کے من کو بھاتے ہیں خواہ
وہ پیا نام نہاد جمہوری ہو یا فوجی ڈکٹیٹر اسکی وجہ شائد یہ ہے کہ آپ کم حق
مہر پہ مان جاتے ہیں۔
اگر یہ سب حقیقت ہے تو نہ ماننے کا سبب ؟ ہاں گر غلط ہے تو حرف غلط کیطرح
مٹا دو سب۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا، کہ انھوں نے امریکاسے نفرت کی وجہ سے کتے
کوشہیدکہا۔ یہ امریکا کی نفرت میں کہا یا طالبان سے محبت میں کیونکہ امریکا
سے تو آپ حکومت کی بھیک مانگ چکے ہیں انکے چاہنے والے ریفرنس کے لئیے وکی
لیکس دیکھ لیں مولانا کو دیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں یہ سچ
ہے۔ اگر موصوف نے دین پڑھا ہوتا تو شائد شہادت کی توہین نہ کرتا۔ یہ دین
بھی ذاتی مفاد میں استعمال فرماتے ہیں ، الیکشن سے پہلے موصوف نے فتوی دیا
کہ ہمارے خلاف امیدوار کھڑے کرنا گناہ ہے۔ حضرت جی آپ نے یہ استدلال کہاں
سے کیا ہے ۔ خود بدلتے نہیں قرآن بدلنے کی ناپاک کوشیش کرتے ہیں۔ موصوف نے
کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حثیت سے پوری دنیا کے دورے فرمائے مگر پرفارمنس
بگ زیرو۔ آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم پر جو نام نہاد مداری مفاد پرست
مسلط ہیں ہم ان سب کے مستحق ہیں، ہم ووٹ دیتے وقت زرا نہیں سوچتے بریانی کی
پلیٹ اور قیمہ والے نان کے عوض اپنی نسلوں کا مستقبل داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
ہم ایک تماش بین قوم ہیں منہ کے وقتی ذائقے اور انٹرٹینمنٹ کے لئیے اپنے
مستقبل کے حقوق سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ میرا ایک جاننے والا ایم پی کا
الیکشن لڑ رہا تھا اسنے اہل حلقہ کی خوب مرغن کھانوں سے سیوا کی اور الیکشن
جیت کر ایم پی ائے بن گیا اور حلقے سے بھی غائب رہنے لگا۔ ایک دن حلقہ کے
ایک شیخ صاحب آئے اور ڈویلپمٹ کے کام نہ ہونے کا رونا رونے لگے اور کہنے
لگے کہ تمہارے جاننے والے کو ووٹ دیا تھا اب وہ میرا کام نہیں کرتا ۔ میں
نے شیخ صاحب سے کہا جناب بریانی کھانے میں نہیں جاتا تھا آپ ہی جاتے تھے
اور میں نے اسے ووٹ دینے کا نہیں کہا تھا ایسا کام آپکو کیوں کہوں گا جو
میں نے خود نہیں کرنا تھا ، آپ نے تو بریانی حلال کرنی تھی سو کی اب شیر
بنو اور بگھتو۔ |