لج پال اور احسان فراموش

موجودہ حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیسی ہے؟ اس پر بات کرنے سے قبل دو چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھ لیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔کیونکہ جو بات میں کہنے جا رہا ہوں وہ آپکو باآسانی سمجھ آجائے گی، پہلی کہانی کچھ اس طرح بیان ہوتی ہے کہ ’’ دو ہنسوں کی جوڑی کا ایک جنگل سے گزر ہوا تو دیکھتے ہیں کہ ایک بکری ایک ہاتھی کے اوپر سوار ہے ۔اور وہ ہاتھی کو ’’ حکم دیتی ہے کہ فلاں درخت کی ٹہنی کو نیچے کرو اور ہاتھی ایسا ہی کرتا ہے اور بکری اس ٹہنی سے پتے کھا لیتی ہے اور پھر نیا حکم صادر کرتی ہے اور ہاتھی کی کیا مجال کہ وہ بکری کی حکم عدولی کرنے کا سوچ بھی لے۔ ہنس کی اہلیہ محترمہ ہنس سے کہتی ہے ۔ہم یہ کیا دیکھ رہے ہیں۔ ہنس کہتا ہے کہ ہمیں اس سے کیا لینا اور دینا ہے۔چل اپنی منزل کی جانب قدم بڑھاؤ مگر ہنس کی اہلیہ بھی ذرا وکھری ٹائپ کی بیگم واقع ہوئی اس نے کہا نہیں میرے شوہر نامدار میں ایسے ہی جانے والی نہیں ہوں،میں تو معاملے کی تہہ تک جا کر اصل صورت حال کا پتہ لگاؤ گی۔

مجبور ا ہنس اپنی بیگم کے ساتھ ہولیا اور ہاتھی کے قریب پہنچ کر بکری سے پوچھنے لگی کہ بہن تو بکری ہی ہے ناں…… بکری نے اثبات میں سر ہلایا تو ہنس کی بیگم نے دوسرا سوال کر ڈالا کہ بہن ہم یہ کیا دیکھ رہے ہیں کہ تو اتنے بڑے ہاتھی کے اوپر بیٹھ کر احکامات جاری کرتی ہو اور ہاتھی بلا چوں چرا اسے بجا لاتا ہے۔ کیا یہ واقعی اصلی ہاتھی ہے یا چائینہ سے آیا ہے ۔یہ ماجرا کیا ہے کچھ ہمارے ’’ پلے ‘‘ بھی تو ڈالیے۔ بکری نے اپنی داستان سنانی شروع کی’’ میں یہاں سے کچھ فاصلے پر واقع گاؤں میں رہتی تھی۔ میرے ساتھ ایک بہت بڑا بھیڑوں بکریوں کا ایک قبیلہ تھا۔میرے ہاں نومولود بچے بھی تھے کہ ہمارامالک دوسروں کے ساتھ مجھے بھی اس جنگل میں چرانے کے لیے لے آیا میں چونکہ زیادہ چلنے پھر نے سے معذور تھی لہذا یہاں ایک جگہ بیٹھ گئی۔ اور سستانے لگی۔ یہاں مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہاں کسی کی پناہ گاہ ہے۔ کیونکہ دو کمسن بچے میرے ساتھ لپٹ کر پیار کرنے لگے تھے۔ پیار کرتے کرتے ان بچوں نے میرا دودھ پینا شروع کردیا۔ میں نے سوچا کہ انکی ماں نہیں ہے اور باپ بھی چھوڑ چھاڑ کر بھاگ گیا ہوا ہے۔ لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ میرے بچے جو گھر پر تھے وہ تو کسی اور بکری کے دودھ پر پل جائیں گے لیکن انکا کیا بنے گا……یہی سوچ کر میں نے یہاں جنگل میں قیام کر لیا……اور انکی کی خدمت کرنے لگی ۔ جب یہ بچے یعنی شیر جوان ہوئے تو انہوں نے سارے جنگل کے جانوروں کو طلب کیا اور کہاں کہ یہ ہماری ’’ ماں ‘‘ ہے جنگل کے سب باسی اسکی تعظیم کریں گے جو یہ حکم دے گی سب کو ماننا پڑے گا ۔ پھر ایک دن انکا باپ ادھر سے گزرا تو س نے کہا کہ میں تمہارا باپ ہوں۔ان میرے بچوں نے اسے جواب دیا کہ ہوگا لیکن ہم نے تو اسے ہی اپنا سب کچھ پایا ہے۔ ہم نہیں مانتے…… اس دن سے میں یہاں حکم چلاتی ہوں جنگل کے سب باسی میرا حکم مانتے تھے ۔کسی کی مجال نہیں کہ میری حکم عدولی کرے…… بکری کی باتیں سن کر ہنس کی اہلیہ نے کہا کہ اے میاں ہنس ہم بھی کسی پر نیکی کریں اور عیش کی زندگی بسر کریں۔ دونوں وہاں رہنے لگے ایک دن ایک چوہا بھیگا ہوا ادھر آنکلا تو ہنسوں کی جوڑی نے چوہے سے نیکی کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے ہنس کی اہلیہ نے اپنے پروں کے نیچے چھپایا اور اسے گرمی پہنچائی جب چوہے کو ہوش آیا تو اس نے اپنی فطرت کے مطابق ہنس کی اہلیہ کے ’’ پروں ‘‘ کو کتر ڈالا ۔ہنسوں کی جوڑی نے چوہے کو آزاد کیا اور اپنے وطن جانے لگے تو ہنس کی اہلیہ نے اپنے شوہر نامدار سے کہا کہ میں کیسے اڑوں؟ چوہے نے تو میرے ’’پر ‘‘ کاٹ دئیے ہیں۔ تب دونوں میاں بیوی ملکر بکری کے پاس آئے اور اسے کہا کہ ہم نے تمہاری داستان سے متاثر ہوکر نیکی کی ہے تو بدلے میں ہمیں یہ صلہ ملا ہے۔ بکری نے پوچھا کہ تم نے اس سے نیکی کی ہے۔؟ ہنسوں کی جوڑی نے یک زبان ہو کر کہا کہ چوہے سے نیکی کی ہے……پر بکری نے جواب دیا کہ نیکی کرنے سے پہلے دیکھ لیا جاتا ہے کہ جس سے وہ نیکی کر رہے ہیں کیا وہ لج پال بھی ہے یا نہیں

میرا اتنی طویل داستان سنے کا مقصد تھا کہ میاں نواز شریف کے لیے اس داستان مین ایک سبق ہے۔وہ ہمیشہ اپنے ساتھ ایسے ہی ساتھیوں کو پالتے ہیں جن کی فطرت چوہے جیسے ہوتی ہے ۔اور وہ انکی پرواز کی صلاحیت کو کم کرنے کے درپے رہتے ہیں۔چاہے خواجہ سعد اور خواجہ آصف ہوں یا پرویز رشید انہوں نے ہمیشہ انکے لیے مشقلات کے پہاڑ ہی کھڑے کیے ہیں۔

یہی بات میں پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کے کرتا دھرتاوں سے کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ نے میاں نواز شریف جیسے احسان فراموشوں کی بجائے ’’ لاڑکانہ ‘‘ اور’’ نواب شاہ ‘‘ کے باسی شیر دل ،لج پال اور دوستی و یارانہ نبھانے کا دل گردہ رکھنے والوں سے دوستی رکھی ہوتی تو آج پاکستان اور آپکا مقام دنیا دیکھتی۔آپ نے ہمیشہ نیکی بقول بکری کے ان لوگوں سے کی ہے جو نیکی اور احسان کے معنی و مطالب سے ہی نا آشنا تھے۔شائد میاں نواز شریف اور ہماری اسٹبلشمنٹ کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا کہ دوستی اور احسان کرنے کے حوالے سے ’’نسلوں کا انتخاب‘‘ بڑا معنی رکھتا ہے ۔اگر آپ میر جعفر اور میر صادق کے قبیلے کے افراد سے وفا کی توقع رکھیں تو آپ کو کون عقل مند اور فہم و فراست کا مالک کہے گا؟ بکری نے شیر کے بچوں سے نیکی کی تو اجر کمایا ہنسوں کی جوڑی نے چوہے سے نیکی کی تو ’’اڑنے کی صلا حیت‘‘ گنوا بیٹھے کیا میاں محمد بخش نے سچ کہا ہے ۔ کہ ’’ نیچاں دی روشنی کولوں فیض کسے نہ پایا……کیکر تے انگور چڑھایا تے ہر گچھا زخمایا‘‘

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 160983 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.