حالات کا رونا تو سب روتے ہیں کہ ملک کے حالات بڑے خطرناک
ہوتے جارہے ہیں۔ملک بڑے نازک دور سے گزر رہا ہے۔فوج حکومت میں تناؤ بڑھتا
جارہا ہے۔بقول شیخ رشید حکومت کو حالات کی نزاکت کا اندازہ نہیں ہورہاوغیرہ
وغیرہ۔اور وزیر اعلیٰ پنجاب فر ماتے ہیں ،اگر جمہوریت کو مضبوط نہ ہونے دیا
گیا تو ملک میں خونی انقلاب آسکتا ہے۔ کوئی ان لوگوں سے پوچھے کہ حالات کو
اس حد تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے ؟ملک میں امن و سلامتی لانے کی ذمہ
داری کس پر ہے؟یہ اچھے جمہوریت کے ٹھیکے دار ہیں جو بار بار حکومت میں آتے
ہیں اور ملک کے حالات ٹھیک کئے بغیر اپنی اپنی باری پوری کرتے ہیں اور رخصت
ہو جاتے ہیں۔صحیح کہا امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہ یہ پانچ فی صد
اشرافیہ پچانوے فی صد عوام پر مسلط ہیں اور ہر مرتبہ یہی ملک کے اقتدار پر
قابض ہوتے ہیں اور اپنے خاندانوں کو نوازنے کے علاوہ یہ کوئی کام نہیں
کرتے۔نسل در نسل یہ اپنی حکومت چلاتے رہنا چاہتے ہیں ۔ان کو ہر مرتبہ حکومت
میں آنے کا گر معلوم ہے۔یہ سارے سال اپنے ترقیاتی فنڈز روکے رکھتے ہیں بلکہ
جتنا عرصہ یہ حکومت کو بچا سکتے ہیں اس وقت تک ترقیاتی فنڈز کو ان کی اپنی
جگہوں پر نہیں لگاتے اور ووٹروں سے انہوں نے جو وعدے کئے ہوتے ہیں وہ سب
بھلا دیتے ہیں اور جب نئے الیکشن سر پر آجاتے ہیں تب یہ لوگ گلیوں سڑکوں پر
توجہ دیتے ہیں اور لوگ پھر بے وقوف بن جاتے ہیں اور دھڑا دھڑ پھر انھیں
لوگوں کو ووٹ ڈالنا اپنا فرض سمجھ لیتے ہیں۔جب عوام اور سیاست دانوں کا یہ
حال ہے تو ملک کے حالات کس طرح بدل سکتے ہیں؟یہ رسہ کشی جاری رہے گی اور جس
کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ چلتا رہے گا۔جو زور آور ہوگا اقتدار پر
وہ قابض ہو جائے گا۔جب سیاسی جماعتیں جو ملک پر مسلط ہیں کھا کھا کر رج
جاتی ہیں اور فوجیوں کی طرف توجہ نہیں دیتیں اور جرنیلوں کی مرضی کے خلاف
چلنا شروع کر دیتی ہیں تو پھر بوٹوں کی ٹاپ سنائی دینے لگتی ہے۔پھر یہ سیا
سی لٹیرے انڈر گراؤنڈ چلے جاتے ہیں۔عدالتوں کو بھی سانپ سونگھ جاتا ہے۔
دیگر دینی اور سیاسی جماعتیں سب خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔کلمہ کی بنیاد
پر حاصل ہونے والا یہ ملک کب تک ان حالات سے دوچار رہے گا؟ کب غریبوں کی
تقدیر بدلے گی؟ہم سب یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اﷲ اس قوم کی حالت
کو نہیں بدلتا جس کو خود اپنی حالت کے بدلنے کا کبھی خیال تک نہیں آتا۔کیا
ہماری حالت یہی نہیں ہو چکی ہے۔ہم حالات سے دل برداشتہ ہو کر خود کشی تو کر
لیتے ہیں لیکن ظالم اور جابر حکمر انوں کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کی ہم
میں ہمت نہیں ہوتی۔مخلص اور مفاد پرست لوگوں میں ہم تمیز نہیں کر پاتے۔ووٹ
دیں گے تو ہمیشہ غلط لوگوں کو دینگے۔دین دار اور محب وطن لوگ نہ ہمیں پسند
ہیں اور نہ ہمیں نظر آتے ہیں۔پورے معاشرے کی مجموعی سوچ جب تک نہیں
بدلتی،ہم سب جب تک سچی توبہ اپنے رب سے نہیں کرتے اور شیطان کی بندگی چھوڑ
کر رحمان کی بندگی میں نہیں آجاتے ہمارے حالات نہیں بدل سکتے۔میڈیا نے تو
معاشرہ کو دین سے بالکل دور کر رکھا ہے۔ناچنے،گانے،کھا نے اڑانے اور ہر طرح
کے غیر فطری اعمال میں مگن رہنے کے ہماری آئندہ نسلوں کو اور کچھ نہیں
سکھایا جا رہا ۔ان باتوں سے ذہنی سکون مل رہا ہے؟اگر مل رہا ہے اور ان
باتوں کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں تو مگن رہیں ہم ان ہی باتوں میں۔بھول
جائیں اپنے دین کو توبہ کر لیں ہمیشہ کے لئے مسجدوں میں جانے سے۔بلکہ نام
بھی مسلمانوں والا ہم کیوں رکھیں؟کیونکہ اس دور میں جو مسلمان بننا چاہے وہ
تو بنیاد پرست،دہشت گرد اور پتہ نہیں کیا کیا کہلاتا ہے۔اگر یہود،ہنود اور
نصاریٰ کو خوش رکھنا ہے اور دنیا میں ترقی کرنا ہے تو مسلمان ہونے کے تکلف
میں نہ پڑیں اور پورے کے پورے دنیا داروں میں شامل ہو جائیں تب ہماری دنیا
تو بن جائے گی نا۔ابھی تو ہم نہ پورے کے پورے مسلمان ہیں نہ پورے کے پورے
دنیا دار ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ایک کشتی میں سوار ہوں۔دو کشتیوں
میں پاؤں نہ رکھیں۔جب ہم دو ٹوک فیصلہ کر لیں گے تب ہمارے حالات بدل سکیں
گے ورنہ حالات کا رونا بیکار بات ہے۔حالات بدلتے ہیں بدلتے رہیں گے۔جیسی
عوام ویسے حکمران یہ قدرت کا فیصلہ ہے اس کے مطابق ہم سوچ لیں اور اپنی
قسمت کو بنانا یا بگاڑنا جو ہم چاہتے ہوں اس روش پر چلیں۔اﷲ ہمیں صحیح
فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین) |