اسلامی 'معاشرتی وصحافتی اقداراور نیوز چینلز کا کردار

 پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی آڑ میںنیوز کے نام پر وجود میں آنے والے ٹی وی چینلوں میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی الگ الگ چھابڑی لگائی ہوئی ہے اور ہر ایک کے پاس فروخت کیلئے مختلف مال ہے مگر ہر چھابڑی پر کچھ چیزیں مشترک ہیں جوہرچھابڑی والا آوازیں لگا لگا کر فروخت کرنے میں مصروف ہے اور ان مشترک چیزوں میںجھوٹ ' خواہشات کا سراب ' آسائشات و تعیشات کی ہوس اورعریانیت و فحاشی کے ساتھ تعلیم و تہذیب اور کلچرو ثقافت کے نام پر بے حیائی ' مذہبی اقدار سے بغاوت اورشریعت و اسلام کی توہین شامل ہیں ۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے ' رینکنگ میں اضافے اور اشتہارات ' دولتو طاقت کے حصول کی حرص و ہوس کا شکار ان نیوز چینلز کے مالکان ' فنکار ' اینکرز اور ہوسٹ سب نے اپنے اپنے مفادات کیلئے حلال و حرام کی تمیز کھو دی ہے اور ہر جائز یا ناجائز طریقے سے لوگوں میں مرچ مصالحہ لگا کر خبریں پھیلائی جاتی ہیں،اتنا بھی نہیں سوچا جاتا کہ صحافت ایک ایسا مقدس فریضہ ہے جسکے متعلق قرآن مجید میں بھی آیا ہے کہ اے نبی پاکۖ !اگر کوئی فاسق بھی آپ کے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اسکی تحقیق کرلیجئے!

ہمارے نجی ٹی وی چینلزکا یہ عالم ہے کہ کہیں کسی موٹر سائیکل کا ٹائر بھی پھٹ جائے تو بنا تحقیق کئے خبر نشر ہوجاتی ہے کہ فلاں علاقے میں بم دھماکہ سنا گیا ہے اور عوام میں خوف وہراس پھیلانے کے بعد اس خبر کی تردید کردی جاتی ہے ' اسی طرح پہلے کسی ملزم' جرائم پیشہ عناصر یا مطلوب دہشت گرد کی گرفتاری کی خبر چلائی جاتی ہے اورکچھ گھنٹوں بعد خبر نشرکیجاتی ہے کہ مذکورہ ملزم ' مجرم یا مطلوب دہشتگرد پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا ہے ۔
عجب تماشہ ہے جس کا کوئی اختتام دکھائی نہیں دیتا!

عوام تک حقائق پہنچانے کے نام پر ریٹنگ بڑھانے کیلئے جس طرح بناء تحقیق خبریںنشر کرنے کاانداز الیکٹرونک میڈیا نے اپنا ہے وہ صحافتی اصولوں سے انحراف ہی نہیں بلکہ قومی مفادات سے متصادم بھی ہے جبکہ نیوز کے علاوہ ٹاک شوز میں بھی اینکرز جس طرح سے مہمانوں کے منہ میں اپنی زبان ٹھونستے ہیں ' سیاستدانوں کوباہم لڑانے کی کوشش کرتے ' فوج کے خلاف اکساتے اور جانبدارانہ کرداراداکرتے دکھائی دیتے ہیں اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا عوام کو حقائق کی فراہمی کی ذمہ داری نبھانے کی بجائے اپنے مخصوص مفادات کیلئے قوم کی دی گئی ڈائریکشن میں موڑ نے کی کوشش کررہاہے اور ان ٹاک شوز کا مقصدبنیادی طورپر عوام میں ہیجان و اضطران پیداکرنا ہے تاکہ ڈائریکشن دینے والی قوتوں سے مفادات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پروگرام کی رینکنگ بڑھاکر ان پروگراموں کیلئے زیادہ سے زیادہ اسپانسرز اور اشتہارات کاحصول ممکن بنایا جاسکے ۔

دوسری جانب حال ہی میں عوام تک حقائق پہنچانے کے نام پر چینلز چھاپہ مار پروگرامز شروع کئے ہیں جن کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ غیر قانونی سرگرمیوں اورعوام کے جان و مال سے کھیلنے والے عناصر' ملاوٹ خوروں ' منشیات و اسلحہ فروشوں کی ریکنگ اور ان کے بارے میں تمام معلومات کے حصول کے بعد ان سے اپنا حصہ یا دوسرے لفظوں میں ''بھتہ ''مانگا جاتا ہے جو بھتہ اداکرنے کے ساتھ ہفتہ یا منتھلی باندھ دیتا ہے وہ تو امان پاجاتا ہے مگر انکار کرنے والا بھتہ خوروں کے ''دستی بم '' کی طرح چینلز کے ''چھاپہ مار پروگرام '' کا شکار بن جاتا ہے ۔

انٹرٹینمنٹ کے نام پر الیکٹرونک میڈیا پر پیش کئے جانے والے ڈراموں کی اسٹوری اور لوکیشنز و لائف اسٹائل عوام میں اپنی غربت سے نفرت اور ڈراموں و میڈیا پر کھائی جانے والی دولت و طاقت کے حصول کیلئے جائز و ناجائز اور حرا م و حلال کا فرق مٹتاجارہا ہے ' رشوت 'کمیشن اور کرپشن عام ہوتی جارہی ہے ۔ دولت مند خواتین سے شادی کرنے یا جہیز کے نام پر سسرال کو لوٹ کر امیر بننے کے رجحان نے غریب خاندانوں کی بیٹیوں کی شادیوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں اور امیر لڑکیاں کے حصول سے محروم نوجوان دولت کے حصول کیلئے جرائم کی راہ اپنا رہے ہیں جس سے معاشرے میں جرائم کا گراف بڑھتا ہی چلاجارہا ہے جبکہ ٹی وی پر دکھائے جانے والے اشتہارات میں موجودمصنوعات کو میڈیا کے ذریعے زندگی کیلئے لازم قرار دیئے جانے سے خواتین میں ان اشیاء کی خریداری کا بڑھتا رجحان گھریلوبجٹ کو متاثرکرکے زندگیوں میں پریشانی گھول رہا ہے اور ان اشیاء کی خریداری کی استطاعت سے محروم کا خاندانوں میں خانگی اختلافات بڑھ جانے سے نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث معاشرے میں طلاقوں کی شرح ہی خطرناک حد تک نہیں بڑھ رہی بلکہ شادی شدہ خواتین کے دیگرافرادسے مراسم ' آشنا کی مدد سے شوہر کو قتل کرنے یا شوہرکے ہاتھوں بیوی کو قتل کئے جانے کے واقعات بھی عام ہوتے جارہے ہیں ۔

ٹی وی چینلز پر پیش کئے جانے والے مارننگ شوز ' موسیقی کے پروگرام اورڈراموں میں موجود خواتین کا لباس 'میک اپ' انداز اور وضع قطع جبکہ خواتین نیوز اینکرز کی سج دھج معاشرے کی دیگر خواتین میں بھی ان جیسی بننے کی خواہشات کو جنم دے رہی ہیں اور ان خواہشات کا شکار معصوم بچیاںمیڈیا میں اپنی جگہ بنانے کے شوق میں ان بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ کر نہ صرف عزت سے محروم ہورہی ہیں بلکہ بلیک میل ہوکر شکاریوں کے مفادات کیلئے اس پیشے کو اپنانے پر مجبور ہیں جسے کسی بھی معاشرے میں عزت و وقار حاصل نہیں ہے ۔دوسری جانب حسین دکھائی دینے کی کوشش کرتی نیوز اینکرز ' بڑھاپا چھپانے کیلئے مغربی انداز اپناتی پروگراموں کی خواتین میزبان اور ڈراموںمیں کردار نبھاتی فنکاراؤں کا دوپٹہ لینے سے اجتناب ' چست لباس سے جھلکتے نسوانی خدوخال اور فیشن شوز کے نام پر لگایا جانے والاعریانیت کابازار ٹی وی دیکھنے والے مردوں میں نفسانی خواہشات کو دو آتشہ کررہا ہے جس کی وجہ سے بڑی عمر کے مرد حضرات ساتھ کام کرنے والی خواتین سے جنسی مراسم قائم کرنے 'مزدورپیشہ طبقات جسم فروش حسیناؤں سے وقت الفت خریدنے اور کم عمر نوجوان عاشقی کے نام پر معاشرے کوبگاڑنے میں مصروف ہیں اور جو ان تینوں اقسام کے وسائل سے محروم ہیں وہ معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں ملوث پائے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ نجی چینلز کے قیام کے بعد سے جنسی زیادتی اور جسم فروشی اور ناجائز تعلقات کے واقعات اور تعلقات کے شاخسانے میں قتل کی وارداتوں میں اندوہناک حدتک اضافہ ہوچکا ہے ۔ دوسری جانب ز یادتی و زنا بالجبر کے واقعات کی رپورٹنگ اور ان پر پروگرام سازی کے دوران میڈیا نمائندگان جس طرح متاثرہ خاتون و لڑکی سے اورکیمرے کے ذریعے اس کے ساتھ ہونے والے واقعہ کی منظر کشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ایکبارپھرعوام کے سامنے اس لڑکی کوبرہنہ کرنے اورپھر سے اس کی عزت لوٹنے کے مترادف ہوتا ہے ۔

آج میڈیا کی آزادی کے نام پر ہمارے ٹی وی چینلز نیوز ' ٹاک شوز ' مارننگ شوز ' چھاپہ مار پروگراموں ' ڈراموں 'ایڈورٹائزمنٹ اور فیشن شوز کے نام پر جو کچھ بھی کیمرے کی آنکھ میں اپنے انداز و مفاد کے تحت مقید کرکے منی اسکرین پر عوام الناس کے سامنے پیش کررہے ہیں اسے حرص دولت ' ہوس قوت اور اجارہ دای کی خواہش کے ہاتھوں مغلوبیت کہنے کے ساتھ فحاشی و عریانی پھیلانے اور تعیشات و آسائشات کی خاطرحرام دولت کمانے ' جسم فروشی کو فروغ دینے ' جرائم میں اضافہ کیلئے ماحول سازگار بنانے اور اسلامی و پاکستانی تہذیب و ثقافت کو بربادکرکے معاشرے کو مغرب زدہ معاشرہ بنانے کی سازش قرار نہ دیا جائے تو یقینا ایمان سے محرومی ہوگی اور یہ سب کچھ سامراجی اشاروں و بیرونی سرمائے سے ہورہا ہے جس پر الیکٹرونک میڈیا کے چیک اینڈبیلنس پر مامور پیمراکی خاموشی فکر انگیز اورحکمرانوں ' سیاستدانوں ' ملکی سلامتی و خود مختاری کے تحفظ کے ضامن اداروں اور اسلامی اقدارکے تحفظ کی ذمہ دار مذہبی جماعتوں کے ساتھ پاکستانی ثقافت و تہذیب کادم بھرنے والی سماجی تنظیموں و شخصیات کی خاموشی مجرمانہ غفلت اور اپنے فریضے سے نفرت ہی کہلائی جاسکتی ہے جس کانتیجہ معاشرے کی مکمل بربادی اور پاکستان کی سلامتی کو خطرات کی صورت ہی نکل سکتا ہے !

Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 194 Articles with 130784 views The Visiograph Design Studio Provide the Service of Printing, Publishing, Advertising, Designing, Visualizing, Editing, Script Writing, Video Recordin.. View More