حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے
والے مذاکرات ایک عرصے سے نشیب و فراز کو عبور کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب
گامزن ہیں۔ وفاقی وزیراطلاعات ونشریات پرویزرشید کہتے ہیں کہ حکومت امن
وامان کے فروغ کے لیے طالبان سے مذاکرات کررہی ہے اور پارلیمنٹ میں موجود
تمام جمہوری قوتیں طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل پرحکومت کی مدد کررہی ہیں۔
جبکہ میڈیا کے کچھ ذرائع مسلسل ایسی خبریں پھیلاتے رہے کہ حکومت طالبان
مذاکرات ناکام ہو رہے ہیں۔ 28 اپریل کو پاک فضائیہ کے سربراہ سے منسوب ایک
اہم بیان اردو اخبارات میں شائع کیا گیا، جس میںکہا گیا تھا کہ ”طالبان کے
خلاف آپریشن کے لیے تیار ہیں“ لیکن اگلے ہی روز پاک فضائیہ کے ترجمان کی
طرف سے نہ صرف اس بیان کی تردید سامنے آگئی، بلکہ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ
رپورٹنگ پر خفگی کا اظہار بھی کیا گیا۔ اس قسم کی صورتحال پر ہی گزشتہ دنوں
طالبان مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ نے کہا تھا کہ مذاکرات میں جب بھی پیشرفت
ہو تو مصنوعی بحران پیدا کیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کا مذاکرات کے
حوالے سے حالیہ بیان بھی بدامنی سے متاثرہ پاکستانی قوم کے لیے ایک خوشگوار
جھونکے سے کم نہیں۔وزیر اعظم نے برطانیہ کے تین روزہ سرکاری دورے پر لندن
پہنچ کر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کاآغازنیک
نیتی سے کیا، بات چیت آگے بڑھانا چاہتے ہیں، امید ہے ملک میں امن قائم ہو
گا، پوری دنیا میں مذاکرات کے ذریعے ہی مسائل حل کیے جاتے ہیں۔ ان بیانات
سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت، طالبان مذاکراتی عمل میں مثبت پیش رفت ضرور
ہورہی ہے اور اس کے ساتھ حکومت اور فوج کے درمیان ہم آہنگی بھی پائی جاتی
ہے۔ اسی کے پیش نظر گزشتہ دنوں وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان نے بھی
واضح کیا تھا کہ طالبان سے مذاکرات پر سیاسی قیادت اور فوج میں کوئی اختلاف
نہیں ہے۔ ملکی سلامتی پر دونوں ایک پلیٹ فارم پرمتحد ہیں۔
مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے ہی جمعرات کے روز قبائلی جرگے نے طالبان
اور حکومت سے مذاکراتی عمل کو نتیجہ خیز بنانے کی اپیل کی اور کہا کہ امن
کی چابی اسلام آباد میں ہے، جس دن حکومت نے کھیل ختم کرنا چاہا کوئی مسئلہ
باقی نہیں رہے گا، آئین شکنی کرنے والے قبائلی علاقوں میں نہیں، اسلام آباد
میں بیٹھے ہیں، مذاکرات کی کامیابی پاکستان کی کامیابی اور ناکامی پاکستان
کی ناکامی ہے۔جرگے نے فریقین پر زور دیا کہ وہ امن مذاکرات میں تاخیر نہ
کریں اور اس عمل کو آگے بڑھائیں۔ پشاور میں صوبائی دارالحکومت کی تاریخ کے
سب سے بڑے اور نمائندہ قبائلی امن جرگا میں شریک ایک ہزار سے زاید قبائلی
مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے مولاناسمیع الحق کا کہنا تھا کہ غاروں میں بیٹھے
ہوئے طالبان سے ان کا رابطہ ہو جاتا ہے، مگر اسلام آباد والوں سے رابطہ
نہیں ہوتا۔ اگر جنگ سے کامیابی ممکن ہوتی توامریکا اور روس افغانستان میں
جنگ جیت جاتے۔ اگر امریکا بھی یہ کہہ رہا ہے کہ مذاکرات ہی واحد حل ہے تو
پھر دوسرے طریقوں سے مسئلے کوحل کیوں کیا جائے؟ پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ
پاکستان آرمی اور طالبان امن مذاکرات کے حقیقی فریق ہیں۔ موجودہ تنازعے کو
کسی فوجی آپریشن یا جنگجوؤں کے حملوں سے حل نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس کو
پرامن مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ طالبان مذاکراتی کمیٹی کے
ارکان پروفیسر محمد ابراہیم اور مولانا سمیع الحق نے واضح کیا کہ طالبان
ملک کے آئین کو تسلیم کرلیں گے ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے
کہ دونوں مذاکرات کاروں نے گزشتہ دوماہ کے دوران طالبان سے بات چیت کے عمل
میں انھیں ملکی آئین کو تسلیم کرنے پر آمادہ کر لیا ہے اور ان کی کوششوں کے
نتیجے میں حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ بندی کی ڈیڈلائن گزر جانے کے
باوجود اس پر عمل درآمد کیا جارہا ہے اور تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے طے
کرنے پر زوردیاجارہا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز آرمی چیف جنرل راحیل شریف
نے یہ کہا تھا کہ باغی آئین کو تسلیم کرلیں، بصورت دیگر ان سے نمٹ لیں گے۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ حکومت اور طالبان دونوں ہی مذاکرات
کی کامیابی کے لیے کوشاں اور اس کے خواہاں ہیں اورطالبان رابطہ کار کمیٹی
کے رکن مولانا یوسف شاہ نے کہا ہے کہ قوم امن معاہدے کی منتظر ہے، ایک دو
روز میں فریقین کی مذاکراتی کمیٹیوں کی ملاقات ہوجائے گی، لیکن حقیقت یہ ہے
کہ تمام تر کوششوں کے باوجود طالبان اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات
میں سقم ضرور پایا جارہا ہے۔ حکومت اور طالبان ایک دوسرے سے نالاں ہیں اور
مذاکرات کی کامیابی کے اقدامات میں سستی پائی جارہی ہے۔ طالبان شوریٰ اور
حکومتی کمیٹی کے مابین پہلی ملاقات کو 36 روز گزر گئے، آئندہ ملاقات کب ہو
گی، کسی کو کچھ پتا نہیں۔ 23 اپریل کو حکومتی اور طالبان رابطہ کار کمیٹی
کی ملاقات میں کسی اگلی ملاقات کا ایجنڈا طے کرنے کی بجائے دونوں جانب کی
شکایات پر غور کرنے اور ان کا حل نکالنے کے لیے ایک ذیلی کمیٹی بنانے پر
اکتفا کیا گیاتھا۔ ابھی تک اس ذیلی کمیٹی کی بھی کوئی کارکردگی سامنے نہیں
آسکی۔ اندرونی حلقوں کے مطابق حکومت کہتی ہے کہ طالبان نے جنگ بندی میں
توسیع کا معاملہ لٹکا رکھا ہے۔ جبکہ طالبان اس بات پر ناراض ہیں کہ اعلانات
کے باوجود حکومت کی جانب سے ان کا کوئی مطلوبہ قیدی رہا نہیں کیا گیا۔ اس
دوران سرکاری کمیٹی کے ایک معاون میجر(ر) عامر کی امن بات چیت کے عمل سے
علیحدگی بھی اسی فرسٹریشن کی وجہ سے ہے۔ 23 اپریل کو وزیر داخلہ کی صدارت
میں دونوں کمیٹیوں کا اجلاس در اصل فریقین کے مابین براہِ راست ملاقات کے
اگلے دور کے لیے ایجنڈے کی تیاری کے لیے تھا، لیکن حکومتی کمیٹی کی جانب سے
جنگ بندی میں توسیع تک مزید بات چیت نہ کرنے کا عندیہ دیا گیا، پھر اطراف
نے اس بات کا اظہار کیا کہ مخالف فریق ان یقین دہانیوں پر عمل پیرا نہیں ہے،
جو دونوں کے مابین پچھلی ملاقات میں طے ہوئی تھیں۔ اب تحریک طالبان کے
ترجمان شاہداللہ شاہد نے کہا ہے کہ حکومت مذاکرات کے ساتھ جنگ اور دھمکی کی
سیاست پر عمل پیرا ہے، ہم مذاکرات کو سیاسی جنگی ہتھیار کے طور پر قبول
نہیں کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے خلاف ملک بھر میں کارروائیاں تیز
کردی گئی ہیں۔ مذاکرات میں حکومتی سنجیدگی اور خودمختاری نظر نہیں آرہی اور
اس بات کا تعین بھی مشکل ہوگیا ہے کہ مذاکرات کس سے کیے جائیں۔ کیا جنگ اور
مذاکرات ایک ساتھ چل سکتے ہیں اور مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانا صرف طالبان
کی ہی ذمے داری ہے؟ تجزیہ کاروں کے مطابق اس حقیقت کو مان لینے کے بعد کہ
مذاکرات کے بغیر کہیں بھی امن کا قیام تقریباً ناممکن ہے، حکومت اور طالبان
دونوں کو ملک میں قیام امن کے لیے سنجیدہ اور بامقصد جدوجہد کرنی چاہیے۔جس
سے امن کو موقع مل سکے اور بدامنی کی بیخ کنی ہو، یہ اسی صورت میں ممکن ہے
کہ اگر فریقین اپنی شرائط میں نرمی کا مظاہرہ کریں ۔ اگر دونوں فریق اپنی
شرائط سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہی نہ ہوں تو اس صورت میں ان شرپسند عناصر کو
مذاکرات کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور امن کو سبوتاژ کرنے کا موقع ملتا رہے
گا۔ اسی قسم کے شرپسند عناصر متعدد بار بڑے حملے کرکے مذاکرات کو سبوتاژ
کرنے کی کوشش بھی کرچکے ہیں، لیکن ان کی تمام کوششیں نامراد لوٹی ہیں۔
فریقین کو چاہیے کہ مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کریں اور قوم کو خوشخبری
دیں، کیونکہ قوم ایک عرصے سے مذاکرات کی کامیابی کی خوشخبری سننے کے لیے بے
تاب ہے۔ |