ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف بونوں کا اتحاد۔۔

ابتدا میں ایک بات واضع کرنا چاہتا ہوں کہ منہاج القرآن سے نہ کل اور نہ آج میرا کوئی تعلق ہے اور نہ آئندہ میرا کوئی ارادہ ہے۔ قادری صاحب کے ساتھ میرے بیشمار اختلافات ہیں اور انکا اظہار میں نے حجرے کی اوٹ سے نہیں کیا بلکہ برسر میدان منہاجیوں سے مباحث کی ہیں ۔ کویت میں قیام کے دوران اپنے تحفظات کا اظہار انکے مقامی قائدین سے بحث کرکے پہنچاتا تھا۔ اور اس کے علاوہ لندن میں قیام کے دوران بھی مختلف موضوعات پر منہاجیوں سے مباحث کرتا رہا ہوں جسکی شہادت میرے لندن میں مقیم دوست و مخالفین بھی دے سکتے ہیں۔ یہ سب بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ میں جو بھی تحریر کروں گا غیر جانبداری سے تحریر کروں گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب سے ایک لاکھ اختلافات کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ڈاکٹر صاحب بہت کلئیر ویثرن رکھنے والے شخص ہیں، انکے علاوہ نام نہاد سیاسی لیڈران ویژن تو دور کی بات ہے سروں سے بھی گنجے ہیں، معذرت کے ساتھ گنجا صرف وہ نہیں جسکے سر پہ بال نہیں بلکہ ہر وہ شخص گنجا ہے جسکا سر عقل سے خالی ہو۔ خدا گنجے کو ناخن نہ دے کا مطلب کیا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ خدا عقل سے عاری شخص کو حکومت نہ دے۔ بندر ہتھ استرا آجاتا ہے۔ آج سے ایک سال پہلے قادری صاحب نے جو کچھ الیکشن المعروف سلیکشن و کرپٹ نظام کے بارے میں کہا تھا حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا، یہی ایک لیڈر کی خوبی ہوتی ہے کہ اسکی نظر مستقبل کے حالات و واقعات پر ہوتی ہے جن سے لیڈر اپنی قوم کو آگاہ کرتا رہتا ہے جسکی روشنی میں قوم اپنی منزل کا تعین کرتی ہے، بدقسمتی و ستم ظریفی نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہم قوم بن نہ سکے، ہم بیس کروڑ کا ایک ہجوم ہیں، لیڈر قوموں کے ہوتے ہیں ہجوم کے نہیں، ہجوم کو ایک مداری ہی کافی ہوتا ہے جو ڈگڈگی بجا کر ہجوم کو محظوظ کرتا ہے۔ یہی تماشہ نصف صدی سے ہو رہا ہے کبھی مداری نام نہاد جمہوریت کی ڈگڈگی بجاتا ہے اور کبھی آمریت کی ۔ جب آمریت کی ڈگڈی بجانے والا چلا جاتا ہے تو تماش بین ہجوم اسکی سر و لے و ردھم کو یاد کرتا ہے۔ یہی گورکھ دھندہ ہو رہا ہے جسمیں مداریوں نے تو بہت مال کمایا اور انکے اثاثے آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں لیکن ہجوم بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہو گیا اور خود سوزیوں پہ اتر آیا۔ ایسے گھمبیر حالات میں ڈاکٹر قادری نے ہجوم کو قوم میں بدلنے کی سعی کی اور عوام نے بھی بھرپور ساتھ دیا اور پھر نیلے فلک نے سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں حد نگاہ تک سروں کا سمندر لانگ مارچ کی صورت میں دیکھا۔ پھر نام نہاد جمہوریت سے مستفید ہونے والے صحافیوں اور بونے بونے لیڈران جنکا ویژن انکی فیملی سے باہر کچھ دیکھ نہیں سکتا کا گٹھ جوڑ ہوا اور پھر ڈاکٹر طاہرالقادری نے ان سے معاہدہ کر لیا جنکے نذدیک وعدہ و معاہدہ کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتا۔ پھر جگادڑیوں نے اپنی سابقہ روش پر چلتے ہوئے معاہدہ توڑ دیا اور ڈاکٹر صاحب کورٹ سے انصاف لینے چلے گئےلیکن منصفی کی کرسی پر کانہ دجال بیٹھا تھا جس نے کمال مہارت سے پرنسپل کیس کو چھیڑے بغیر ہی ڈاکٹر قادری کی دوہری شہریت کو بنیاد بنا کر انکی حب الوطنی کو مشکوک بنا دیا۔ اسطرح کرپٹ نظام کامیاب ہو گیا اور قادری صاحب کو وقتی شکست کا منہ دیکھنا پڑا لیکن آپ نے بہت سے خود ساختہ مسیحاؤں کے چہرے بے نقاب کر دیے۔ ایک بار پھر ڈاکٹر صاحب نے احتجاج کی کال دی ہے اور حسب سابق تمام بونے لیڈر اور انکے مالشئیے صحافی ڈاکٹر صاحب کے خلاف متحد ہو گئے ہیں اور وہی پرانا راگ الاپ رہے ہیں کہ طاہرالقادری کے پیچھے ایجنسیوں کا ہاتھ ہے اور جمہوریت کو خطرہ ہے۔ پچھلے لانگ مارچ کے وقت بھی انکا یہی مؤقف تھا مگر سال گذرنے کے باوجود یہ کچھ ثابت نہیں کر سکے تو میرا خیال ہے انکو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئیے لیکن یہ بھی غیرت ہو تو تب ہو سکتا ہے اور غیرت میں انکا ہاتھ تنگ ہے ناجائز دولت و غیرت ایک اکاونٹ میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ مزے کی بات دیکھیں ہر چور و لٹیرا طاہرالقادری کے خلاف ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈاکٹر صاحب درست سمت جا رہے ہیں۔

کوئی بھی ذی شعور انسان حقیقی جمہوریت کا مخالف نہیں ہو سکتا مگر پاکستان میں تو جمہوریت کے نام پر مکروہ دھندہ ہو رہا ہے۔ حقیقی جمہوریت پر میں یقین رکھتا ہوں اور پسند بھی کرتا ہوں مگر بصد افسوس و معذرت زرداریوں، مزاریوں، شریفوں، مخدوموں، مالشئیے صحافیوں کے کردار نے جمہوریت کو گالی بنا دیا ہے۔اس لئیےمجھے نفرت ہے نام نہاد جمہوریت سے۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے غریب کے لئیے۔ جمہوریت بہترین انعام ہے شریفوں، زرداریوں ، گیلانی و مخدوموں کے لئیے۔ اس نام نہاد جمہوریت کا ڈلیوری سسٹم ہی خراب ہے یہ مفاہمت کے انجیکشن لگوا لگوا کے بانجھ ہو چکی ہے لیکن اسکا بانجھ پن ابھی تک قابل علاج ہے پوری قوم کو اسکے علاج کے لئیے ڈاکٹر قادری کا ساتھ دینا چاہئیے ، آذمائے ہوئے کو آزمانا منافقت و حماقت ہے۔ آپ نے سب بونے بونے دیہاڑی باز نوسر بازوں کو آزما کے دیکھ لیا ہے اب ایک بار ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی آزماؤ شائد کچھ حقیقی جمہوریت کے ثمرآت میسر آجائیں۔ طاہرالقادری بھی ایک انسان ہے اس دیوتا نہ بناؤ ایک بار موقع دو اگر توقعات پہ پورا اترے تو سو بسم الله ورنہ اٹھا پھنکو باہر اور کسی اور کو چانس دو اسطرح وہ دن دور نہیں جب ہم حقیقی جمہوریت کو بمعہ اسکے ثمرآت کے پا لیں گئے۔ لیکن خدارا ان ٹھگوں سے جان چھڑاؤ جو باریاں لگا کے بار بار لوٹنے آجاتے ہیں اور جمہوریت کے نام پر بیوپار کرتے ہیں۔ انکی نام نہاد جمہوریت وہ موم کی گڑیا ہے ہے کہ جو زرا سی حدت بڑھنے پر پگلنے لگتی ہے۔ آرمی چیف یا آئی ایس پی آر کوئی بیان دے تو اسے خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، کوئی احتجاج کے لئیے سڑکوں پر نکل آئے تو یہ آئی سی یو میں چلی جاتی ہے۔ اب ڈاکٹر طاہرالقادری نے ١١ مئی ٢٠١٤ کو احتجاج کا اعلان کیا ہے تو پھر اس نام نہاد جمہوریت کی حالت غیر ہو رہی ہے اور اس جمہوریت کو چمٹی جونکوں کو بھی خون کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ ایسی ناپائیدار موم کی گڑیا بانجھ نام نہاد جمہوریت کا مر جانا ہی بہتر ہے، شائد اس نام نہاد جمہوریت کی تدفین کے بعد حقیقی جمہوریت جنم لے اور پاکستان پر ترقی و خشحالی کا سورج طلوع ہو جائے اور کرپٹ تھوبڑے ماضی کا حصہ بن جائیں ، مگر کچھ حاصل کرنے کے لئیے محنت شرط ہے جعلی و فیملی لمیٹڈ جمہوریت کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی مدد کریں اور ثواب دارین حاصل کریں۔۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186506 views System analyst, writer. .. View More