طالبان سے مذاکرات اور عمرآن خان

ابھی مذاکرات باضابطہ شروع نہیں ہوئے تھے تو مجھ جیسے کم علم و کم فہم شخص نے لکھا تھا کہ یہ کامیاب نہیں ہوں گے لیکن کرائے کے دانشور اور نیم ملاں و عقل و دانش سے عاری پروفیسر مذاکرت کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔ کچھ یونیورسل سچ ہوتے ہیں جنھیں کوئی جھٹلا نہیں سکتا مثال کے طور پر سورج مشرق سے نکلتا ہے، اسی طرح طالبان سے مذاکرات کا ناکام ہونا بھی ایک یونیورسل ٹرتھ تھا جسے عقل سے عاری لوگ سمجھ نہ سکے اور آج بھی سمجھنا نہیں چاہتے۔ اور ناکامی کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ حکومت نے یہ ٹاسک نیم دانشوروں اور نیم ملاؤں کے حوالے کیا تھا جو کہ کسی نہ کسی طرح اس مسئلہ کی وجہ ہیں یا رہ چکے ہیں۔ کہاوت ہے کہ نیم حکیم خطرہ جان نیم ملاں خطرہ ایمان۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ طالبان ہی مذاکرات کی میز کے دونوں طرف بیٹھے تھے، تو ایسے حالات میں کامیابی خاک ہونی تھی۔ میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب ، اسی عطار کے لونڈے سے دوا طلب کرتے ہیں۔ دہشت گردی پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن اس کے حل کے لئیے ہمیں لیڈر بہت چھوٹے ملے ہیں بلکہ انھیں لیڈر کہتے ہوئے مجھے تو شرم محسوس ہوتی ہے۔ لیڈر مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہیں اور انکے حل کرنے میں مسائل کا رونا نہیں روتے۔ مہاتیر محمد ایک لیڈر تھا اس نے ملائشیا کو کہاں سے کہاں پہنچایا اور اس نے کتنی باریاں لیں تھیں ؟ نیلسن منڈیلا نے کتنی باریاں لیں تھیں ؟ طیب اردغان سے پہلے ترکی میں بھی حالات ہمارے جیسے ہی تھے اور وہ ایک لیڈر تھا اس نے مارشلاؤں کا رونا نہیں رویا اور نہ جمہوریت کی نابالغی کا رونا رویا بلکہ ناصرف گھمبیر مسائل کا حل نکالا اور ساتھ ہی جمہوریت کے ثمرآت کو عوام تک پہنچایا اور کارکردگی کی بنیاد پر لوگوں کو گرویدہ بنایا۔ کارکردگی کو یقینی بنا کر پھر اس نے آمروں کو انکا ساتھ دینے والوں کو تختئہ دار پر چڑھایا۔ لیکن ہمارے بار بار باری لینے والے بونے لیڈر طیب اردغان کی تقلید میں آمر کو سزا دینا چاہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ انکا دامن ناصرف کارکردگی سے خالی ہے بلکہ اس پر منی لانڈرنگ، اصغر خان کیس، حدیبیہ پیپرمل، اتفاق فونڈری کی نادہندگی کے سیاہ دھبے ہیں۔ اردغان وہ ہے جسکی پشت پر اسکی عوام ہے اور اردغان نے کسی جنرل ضیاء کی انگلی تھام کے چلنا نہیں سیکھا تھا اور نہ اسکی کمر و ضمیر پر کسی ١٠ سالہ معاہدہ کا بوجھ ہے۔ خیر میں عرض کر رہا تھا کہ لیڈر مسائل کی سنگینی کو مدنظر رکھ کر اسکے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ ہمارے پاس لیڈر ہی نہیں تو مسائل کیسے حل ہوں گے۔ چند سیاس جماعتیں ہیں باری اور جگاڑ لگا کر حکومت میں آجاتی ہیں۔ رہی بات جماعت اسلامی اور ڈیزل پارٹی کی تو یہ تو طالبان کی بولی ہی بولتی ہیں۔ باقی بچے عمرآن خان صاحب تو وہ کسی ایشو پر کلئیر نہیں ہیں، انکی سمجھدانی میں کوئی مسئلہ ہے انھیں سمجھ دیر سے آتی ہے۔ اب دیکھیں ناں دھاندلی کی سمجھ آنے میں ایک سال لگ گیا ہے۔ جب انکو سمجھ آتی ہے تب تک چڑیاں کھیت چگ چکی ہوتی ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ انکی زبان سے جو نکلتا ہے اس پر ڈٹ جاتے ہیں چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ الیکشن سے پہلے انکی زبان سے نکلا کہ دہشتگری کا حل مذاکرات ہے اب اسی پر موصوف ڈٹ گئے، زمینی حقائق اور طالبان کے سابقہ ریکارڈ کو نہیں دیکھا بس اپنی زبان سے نکلے الفاظ کو اہمیت دی۔ حالانکہ میرا وجدان کہتا ہے کہ خان صاحب بھی جانتے تھے کہ دہشتگردی کا حل مذاکرات نہیں۔ سری لنکا سے امریکا تک کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ دیکھیں جی جس ملک نے بھی دہشتگردی پر قابو پایا ہے مذاکرات سے ہی پایا ہے۔ بالکل غلط استدلال کیا جاتا ہے ارے بابا آپ کیوں نہیں سمجھتے کہ ان ممالک کے دہشتگردوں اور آپکے طالبان میں زمین و آسمان کا فرق ہے، انکی کی پشت پر کسی ملاں و نام نہاد مذہبی جماعت کا ہاتھ نہیں تھا، انھیں کسی نے اپنا بیٹا اور بھائی نہیں کہا تھا۔ انکے پیچھے نام نہاد نظریہ نہیں تھا، آپ کے تو گلی کوچہ میں انکے نظریات کے حامی لوگ ہیں، جب آپ انکو اتنی طاقتور نظریاتی حمایت کے ساتھ اسٹیک ہولڈر بنا دیں گئے تو انکا دماغ خراب ہے کہ آپ سے کامیاب مذاکرات کریں۔ مرض کے علاج سے پیشتر اسکی تشخیص ضروری ہے۔ ہمارے حکمرآن و دانشور آج تک اسکی تشخیص ہی نہیں کر سکے علاج کیا کریں گے۔ کسی دانا کا قول ہے کہ امن کو یقینی بنانے کے لئیے لڑنا بہت ضروری ہے۔ جب آپریشن کی بات کی جاتی ہے تو نادان اسکے ردعمل سے ڈراتے ہیں، اگر اسکا کوئی سنگین ردعمل آنا ہے تو میری ہی زندگی میں آنے دو میں یہ مشکلات جھیل لوں گا تاکہ میرے بچوں آپکی آئندہ نسلوں کو ایک پرامن پاکستان ملے۔ عقلمند لوگ مشکلات آئندہ نسلوں کو ورثہ میں نہیں دیتے۔۔۔ ضروری نہیں کہ ہر سردرد کا علاج پیراسٹامول و پیناڈول سے کیا جاسکے کچھ درد ان گولیوں سے ٹھیک نہیں ہوتا مثال کے طور پر آدھے سر کا درد، ہے یہ بھی سردرد۔ اب اگر عمرآن خان صاحب جیسا ڈاکٹر ہو گا تو وہ کہے گا کہ چونکہ بشیر کو بھی سردرد تھا اسکا علاج پینا ڈول سے کیا تھااور اسے افاقہ ہوا تھا لہذا اب نظیر کو آدھے سر کا درد ہے اسے بھی پیناڈول ہی دی جائے کیونکہ ہے تو یہ بھی سردرد۔ لیکن قابل ڈاکٹر کہے گا کہ بلاشبہ دونوں درد ہیں مگر ان میں فرق ہے اور وہ اسی فرق کی بنا پر ہیوی ڈوز سماٹریپٹن سے علاج کرے گا۔ سری لنکا و دیگر ممالک میں تھی تو دہشتگردی پر ہم سے مختلف لہذا انھوں نےاسکا علاج بھی اسکی تشخیص کے مطابق لائیٹ ڈوز یعنی مذاکرات سے کیا۔ ہمیں ہیوی ڈوز دینے کی ضرورت ہے آج دے دیں یا دس سال بعد۔۔۔۔۔۔۔۔

Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186423 views System analyst, writer. .. View More