وارانسی: اب اصولوں کیلئے ماتم پرانے ہو گئے

حالیہ انتخابات موروثیت اور فسطائیت کے نام پر لڑے جارہے ہیں ۔ نریندرمودی گاندھی خاندان کی موروثی حکومت کو ختم کرنے کا دعویٰ کر رہاہے تو راہل گاندھی سنگھ پریوار کے فسطائی شکنجہ سےقوم کو بچانے دہائی دےرہا ہے لیکن ان خوشنما اور بلند بانگ نعروں کے پس پردہ موقع پرستی اور ابن الوقتی کا جو گھناؤنا کھیل ہورہا ہے اس کی سب سے عمدہ مثال وارانسی میں نظر آتی ہے۔ یہاں پر مودی نے موروثیت کی آڑ میں اپنی ہی جماعت کے معمر رہنما اور سابق صدر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور ان کے سیاسی مستقبل کو لے جاکر کانپور میں دفن کردیا ۔یہ عمل اس سفاکی کے ساتھ کیا گیا مرلی جی کو کہنا پڑا نہ جانے میں نے کون سا گناہ کیا تھا جو تعلیم کا شعبہ چھوڑ کر سیاست میں (خوارہونے کیلئے) چلا آیا۔مودی کے وار اور جوشی کی حالت زار پر راجیش ریڈی کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
اپنے ہنسنے رونے کے اب دن پرانے پڑ گئے
کچھ ہوئی دنیا نئی کچھ ہم پرانے پڑ گئے

نریندر مودی کو اروند کیجریوال نے چیلنج دے رکھا تھا کہ گجرات کے باہر مودی جہاں کہیں سے بھی انتخاب لڑے گا وہ اس کی مخالفت کرے گا۔اروند کیجریوال نے اس اعلان سے بلاواسطہ اس بات کو تسلیم کرلیا تھا کہ گجرات کے اندر وہ مودی کو شکست فاش سے دوچار نہیں کرسکتا ۔ اگر مودی کے اندر دم خم ہوتا اور اس کی صحیح معنیٰ میں لہر ہوتی تو وہ کیجریوال سے کہتا ٹھیک ہے میں تمہاری دہلی میں آکر تمہیں ہراؤں گا ۔ ایسا بھی نہیں کہ دہلی میں بی جے پی کمزور ہو ۔ گزشتہ اسمبلی انتخاب میں اس نے عام آدمی سے زیادہ ووٹ اور نشستیں حاصل کی تھیں لیکن مودی خود جانتا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں جو کچھ دکھلایا جارہا ہے اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس لئے مودی نے ایک تو یہ کیا کہ گجرات کے بڑودہ سے اپنے کاغذاتِ نامزدی داخل کئے اور دوسرے اعلان کردیا کہ مجھے گنگا میاّنے وارانسی میں بلا ہے ۔ اب یہ تو وقت ہی بتائیگا کہ گنگا میاّ نے اس کے پاپوں کو دھوکر اسے پوتر کرنے کیلئے بلایا ہے یا اسے ڈوباکر ملک کی سیاست کو پوتر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

وارانسی میں گزشتہ مرتبہ تین اہم امیدوار تھے جن کو ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے ۔ جن میں سب سے آگے مرلی منوہر جوشی تھے جنہیں ۲۰۳ ہزار ووٹ ملے اس کے بعدمختار انصاری جنہیں ۱۸۶ ہزار ووٹ ملے اور تیسرے نمبر پر اجئے رائے تھے جنہوں ۱۲۴ ہزار ووٹ حاصل کئے۔کانگریس کےراجیش مشرا اور اپنا دل کے وجئے پرکاش جیسوال ۶۶ہزار کے آس پاس اکتفا کرنا پڑا۔اس بار چونکہ مرلی جی کا ٹکٹ خود ان کے سابق چیلے اور حالیہ استاد نریندر مودی نے کاٹ دیاہے اور مختار انصاری کو اجئے رائے کے بھائی اودھیش کے قتل کا الزام آگرہ جیل میں لے گیا ہے اس لئے سابقہ تین آگے رہنے والوں میں سے صرف ایک اجئے رائے میدان میں ہے۔ اجئے رائے کا سیاسی سفر نہایت دلچسپ ہے۔ وہ ماضی میں وارانسی کے ایک اسمبلی حلقہ پنڈراسےبی جےپی کے رکن اسمبلی اور وزیر بھی تھا۔ بی جے پی نے؁۲۰۰۹ کے پارلیمانی انتخاب میں اسےکمل نہیں دیا تووہ سماجوادی پارٹی کی سائیکل پر چڑھ گیا لیکن اس کے مقابلے مختار انصاری بی ایس پی کےہاتھی پر چڑھ کر آیا اور سائیکل کو کچل دیامگر کمل کو کھلنے سے نہیں روک سکا۔ اس طرح بنارسی کمل ایوانِ پارلیمان میں کھل اٹھا۔

وارانسی کے مسلمانوں کیلئے پچھلے انتخاب میں فیصلہ کرنا نہایت آسان تھا۔ ان کے سامنے ایک دشمن بی جے پی اور اسے ہرانے کیلئے دو متبادل سماجوادی اور بہوجن سماج پارٹی تھے۔ سماجوادی نے چونکہ سابق بھاجپائی کو ٹکٹ دے دیا تھا اس لئے مسلمانوں نے اس سے منہ موڑ لیا اور بی ایس پی نے چونکہ مسلمان کو ووٹ دے دیا تھا اس لئےاس کے پیچھے ہو لئے۔ یہی وجہ ہے کہ دلتوں اور مسلمانوں کی مشترکہ حمایت کے نتیجے میں انصاری نے جوشی کی نیند حرام کردی اور کسی طرح مرتے پڑتے وہ کامیاب ہوئے۔ اب کی بار انصاری مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم نہیں چاہتے اس لئے مودی کو ہرانے کیلئے رائے کو ووٹ دیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ مرتبہ بھی یہی رائے ایک سیکولر جماعت سماجوادی کا امیدوار تھا اور سیکولر ووٹ اگر سائیکل و ہاتھی میں تقسیم نہیں ہوتا تو کمل نہیں کھلتا۔ مختار انصاری کی ؁۲۰۰۹ میں یہ منطق کہ مجھے جتانے کیلئے رائے کو ووٹ مت دو اور اب مودی کو ہرانے کیلئےرائے کو ووٹ دو سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ اصول پسندی نہیں بلکہ موقع پرستی ہےکہ جب وہ مجھے جیل بھیجنا چاہتا تھا تو اس کو ہراؤ اور جب وہ مجھے رہا کرانے پر راضی ہو گیا ہےتو اس کو جتاؤ لیکن ابن الوقتی کے اس دور میں اصولوں کی بات کون کرتا ہے بقول راجیش ریڈی؎
موت پر قدروں کی اب تو جشن ہی کا ہے چلن
اب اصولوں کیلئے ماتم پرانے پڑ گئے

مختار انصاری اور اجئے رائے کی دشمنی تقریباً ایک چوتھائی صدی پرانی ہے ۔ یہ دشمنی بامِ عروج پراس وقت پہنچی جب دن دہاڑے مختار انصاری کے آدمیوں نے اجئے رائے کے بھائی اودھیش رائے کو؁۱۹۹۱ میں قتل کردیا ۔ وہ مختار انصاری کاخوف ہی تھا جو اجئے رائے کو اپنی ہی برادری کے بی جے پی رہنما اور رکن اسمبلی کرشنا نند رائے کے شرن میں لے گیا لیکن مختار انصاری نے کرشنا نند کو اس کے سات ساتھیوں سمیت ؁۲۰۰۵ میں مروا دیا اس طرح مشرقی اترپردیش سے بھومی ہاروں کا زور توڑ کر وہ باہو بلی (زور آور) بن گیا لیکن کرشنا نند کے راستے سے نکلنا اجے رائے کیلئے ایک نعمت ثابت ہوا اور بی جے پی نے اجئے رائے کو کرشنانند کا وارث تسلیم کرکے نہ صرف اسمبلی کا رکن بلکہ وزیر بھی بنا دیا ۔ اس طرح گویا مختار انصاری کی حالیہ حمایت اجئے رائے پر پہلا نہیں بلکہ دوسرا احسان ہے ۔ اس لحاظ سے مختار اور اجئے کی رقابت نہ صرف سیاسی ہے بلکہ خاندانی نوعیت کی ہے ۔

نتن گڑکری کے جس بیان پر بہار میں خوب لے دے ہوئی وہ تھا بہار کی عوام کے خمیر (جینس) میں ذات پات کا پایا جانا ہے۔ اس بات کا اظہار چاہے جتنا بھی ناپسندیدہ ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ رام دیو کے نہایت قابل مذمت بیان میں اگر دلتوں کے بجائے غریبوں کالفظ استعمال کیا گیا ہوتا تو اس قدر ہنگامہ نہ ہوتا لیکن اب لاکھ صفائی کے باوجود ہنی مون والا بھونڈا بیان رام دیو سمیت بی جےپی کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ ساڑی پہن کراور پلو اوڑھ کر اپنے آپ کو گرفتاری سے بچانے کی کوشش کرنے والے یوگا گرو کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اب کون سا آسن اسے گرفتاری سے بچا سکتا ہے۔ اس لئے کہ آج بھی ہندوستان کے اندر ذات برادری کو اچھی خاصی اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پارٹی جب کسی حلقۂ انتخاب سے اپنا امیدوار کھڑا کرتی ہے وہاں بسنے والوں کی ذات پات کا تناسب ضرور دیکھ لیتی ہے۔
وارانسی کے اندر سب بڑی تعداد مسلم اور پٹیل برادری کے لوگوں کی یعنی تقریباً ۵ء۲ لاکھ ہے۔ یہ سب گجرات کے پٹیل نہیں ہیں بلکہ ان پٹیلوں میں ۶۰ ہزار کے آبا و اجداد گجرات سے جاکر کاشی کے اندر بس گئے تھے۔ اس کے بعد براہمن سماج ہے جن کی آبادی۱۵ء۲ لاکھ اور پھر ویشیا برادری کا نمبر آتا ہے جس کی آبادی۲لاکھ ہے۔ان چار بڑی اکائیوں کے بعد بھومی ہار اور دلتوں کی باری آتی جو ایک ایک لاکھ کی تعدادمیں یہاں ہیں۔ یادوصرف۸۰ ہزار اور ٹھاکر ۶۰ ہزارہیں۔ راج ناتھ کی نظر اس حلقۂ انتخاب پر کیوں نہیں پڑی اور ملائم نے یہاں آنے جرأت کیوں نہیں کی اس کاراز ان اعدادو شمار میں پوشیدہ ہے۔ اس حساب کتاب سے کوئی بات تو نہیں بنتی اگرچہ کہ اپنا غم غلط کرنے کیلئے اس جمع تفریق میں کچھ وقت صرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بقول شاعر؎
روز ہی اپنے غموں کا کرتے رہتے ہیں حساب
کتنے غم تازہ ہیں کتنے پرانے پڑ گئے

اس بار کا انتخاب اس معنیٰ میں دلچسپ ہے کہ مودی لا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی طاقتور مسلمان امیدوار میدان میں نہیں آیا ورنہ اس کا کام آسان ہو جاتا۔ مختار انصاری کی اپیل کا کوئی خاص اثر اس لئے نہیں ہوگا کہ مسلمانوں نے اسے مثبت ووٹ نہیں دیا تھا بلکہ انہیں ایسا محسوس کیا تھا چونکہ بہوجن سماج کے نام کے سبب دلت ووٹ تو اسے ملنے ہی ملنے ہیں ایسے میں اگر مسلمان ووٹ بھی اس کے ساتھ شامل ہوجائیں تو وہ جوشی کو ہرا سکتا ہے لیکن اب چونکہ ایسا کوئی حساب کتاب نہیں بنتا اس لئے مسلمان اس کی درخواست پر توجہ نہیں دیں گے۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ مسلمان بھومی ہاروں کی حمایت کےپیش نظراجئے رائے کوطاقتور امیدوار سمجھ کر مودی ہرانے کیلئے اس کی جانب متوجہ ہوں لیکن اب ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔ بھومی ہار خوددار قوم ہےاورعزت و وقار کو اہمیت دیتی ہے لیکن برا ہو انتخابی منافقت کا کہ اس نے اجئے رائے کو اپنے بھائی کے قاتلوں سے ہاتھ ملانے پر مجبور کردیا۔ کرشنانند کی بیوہ الکا رائےنے اجئے رائے کی ابن الوقتی بھومی ہار سماج سے غداری قرار دیا ہے ۔ الکارائے فی الحال نریندر مودی کی حمایت میں بھومی ہار ووٹ بٹورنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے ۔ ایسے میں مسلمان رائے کے بجائے کیجریوال کو رائے پر ترجیح دے سکتے ہیں ۔

اتر پردیش کا طاقتور پسماندہ کرمی سماج پٹیل کہلاتا ہے۔ بہار کی مانند اترپردیش میں بھی یہ لوگ یادوسماج کو اپنا حریف سمجھتے ہیں اور ملائم کے بغض میں بی جے پی کے قریب رہے ہیں لیکن ؁۱۹۹۰ کی دہائی میں ان لوگوں نے اپنی سیاسی جماعت اپنا دل بنا لی ۔ اس جماعت کے امیدواروجئے پرکاش جیسوال کو گزشتہ مرتبہ وارانسی میں کوئی خاص کامیابی نہیں حاصل ہوئی تھی اور کانگریس کے بعد چوتھے نمبر پر آئے ۔ اس بار بی جے پی اپنا دل کو اپنا حلیف بناکر یہ سوچ رہی تھی کہ ڈھائی لاکھ پٹیل رائے دہندگان پر اس کا مکمل قبضہ ہو جائیگالیکن اس کے اس منصوبے پر مایاوتی نے وجئے پر کاش جیسوال کو اپنا ٹکٹ دے کر پانی پھیر دیا اس طرح اس بار پٹیل رائے دہندگان کے ووٹ بنک میں ایک لاکھ دلتوں کا اضافہ ہو گیا جو ایک خطرناک اشتراک ہے جسے نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اگر مسلمان جنہوں نے پچھلی مرتبہ ہاتھی پر نشان لگایا تھا اس مرتبہ پھر وہی کرتےہیں تو جیسوال کو جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ویسے بھی تین مرتبہ شنکر پرشاد جیسوال پارلیمان میں وارانسی کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

اس مرتبہ جہاں بی جے پی براہمنوں کو نظر انداز کرکے پسماندہ طبقات پر توجہ دے رہی ہے وہیں مایا وتی دلتوں کے بجائے براہمنوں کو لبھانے میں لگی ہوئی ہیں ۔ مایا وتی نے صرف ۱۷ دلت امیدواروں کو ٹکٹ دیا اس کے برعکس ۱۹ مسلم ۱ور ۲۱ براہمنوں کو میدان میں اتارا ہے۔ مایاوتی کی فہرست میں ۱۵ او بی سی اور ۸ ٹھاکر بھی شامل ہیں اس طرح وہ بڑے موثر انداز میں بہوجن سماج کے بجائے سرو سماج کے نعرے کو عملی جامہ پہنا رہی ہیں ۔ مایا وتی کا ہاتھی ٹی وی کے پردے پر نہیں بلکہ حقیقت کی دنیا چلتا ہے اور ہر انتخاب میں اپنا اثر دکھلاتا ہے ۔ اس بار بھی اس کے چمتکار یقینا ً دیکھنے کو ملیں گے لیکن اگر اس نے وارانسی میں کمل کو روند دیا تو وہ بہت بڑی فتح ہوگی۔

مرلی کی رسوائی سے ناراض براہمنوں کیلئے سابق کانگریسی وزیراعلیٰ اور صدر کملا پتی ترپاٹھی کی بیٹی اندرا ترپاٹھی میدان میں ہے لیکن اندرا کی شخصیت مجموعہ ضدین ہے۔وہ ایک کٹر کانگریسی کی بیٹی ہونے کے باوجود سیکولرنظریہ کی حامل نہیں بلکہ ہندو مہا سبھا سے فکری ہم آہنگی رکھتی ہیں ۔ اس پر طرۂ امتیاز یہ ہے کہ مودی کی بہت بڑی مخالف ترنمول کا نگریس نے اپنے ٹکٹ نوازہ ہے ۔ ایسے میں جو براہمن مرلی منوہر جوشی کو وارانسی سے تڑی پار کرنے سے ناخوش ہیں ان میں سے کتنے اندرا ترپاٹھی کو ووٹ دے کر مودی کو زک پہنچائیں گے یہ کہنا مشکل ہے اس لئے مسلمانوں کی طرح براہمن بھی بہت سوچ سمجھ کر ووٹ دیتا ہے اور اپنا ووٹ ضائع نہیں کرتا۔ ویسے گزشتہ انتخاب میں کانگریسی امیدوار کا تعلق براہمن سماج سے تھا اور جوشی کی موجودگی کے باوجود کانگریس کے ۶۰ ہزار ووٹ اس بات کے غماز ہیں براہمنوں کا ایک طبقہ کا بی جے پی کے خلاف ہے اور اس میں اس بار یقینا ًاضافہ ہوگالیکن اندرا کی کمزورامیدواری کے سبب ممکن ہے زیادہ تر براہمن مودی کی حمایت کریں ۔

اروند کیجریوال کا تعلق بنیا سماج سے رہا ہے جس کے دولاکھ ووٹر وارانسی میں ہیں ۔ یہ سماج روایتی طور پر بی جے پی کے ساتھ رہا ہے لیکن بی جےپی نے اسےاقتدار سے دورہی رکھا ہے۔ اس بار ان کے سامنے ان کی اپنی برادری کا ایک نہایت طاقتور امیدوار اروند کیجریوال موجود ہے ۔ اروند کیجریوال کو ایسے نوجونواں کی حمایت بھی حاصل ہے جو ذات دھرم سے اوپر اٹھ کر سوچتے ہیں اگر ویشیا سماج نے بڑے پیمانے پر اروند کیجریوال کی حمایت کا فیصلہ کرلیا تو مسلمانوں کے ووٹ کا اس میں اضافہ کیجریوال کو کامیاب بنا سکتا ہے۔ اب مسلمانوں کو یہ دیکھنا ہے کہ کس قدر پٹیل جیسوال کے ساتھ یا کتنی تعداد میں بنیے کیجریوال کے ساتھ ہیں ۔ اس لئے کہ سماجوادی پارٹی نے بھی اس بار کیلاش چورسیا نامی وزیر ابتدائی تعلیم کو اپنا ٹکٹ دیا ہے جس کا تعلق پان بیچنے والے بنیا سماج سے ہے۔ چورسیا عرصۂ دراز تک پان بیچتے رہے ہیں اور مودی کے چائے کا منہ توڑ جواب ہیں ۔ ۶۰ ہزار یادو ووٹ ان کی جیب میں ہیں ایسے میں کتنے بنیا ان کے ساتھ ہوتے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ چورسیا بیک وقت مودی اور کیجریوال کو نقصان پہنچائیں گے ۔چورسیا اور اندرا ترپاٹھی کی کامیابی کے امکانات مفقود ہیں ۔ ٹھاکر ووٹر بی جےپی کی جھولی میں ضرور آئیگا لیکن اس کا کریڈٹ مودی نہیں بلکہ راج ناتھ کو جائیگا۔

اب سوچنے والی بات یہ کہ مسلمانوں کی تمام تر حکمت عملی کے باوجود اگر سیکولر ووٹ عام آدمی پارٹی، سماجوادی پارٹی اور کانگریس میں تقسیم ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں مودی کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا ہوگا؟ اس پراگرمودی بڑودہ کی اپنی سیٹ کو رکھ کر وارانسی سے استعفیٰ دے دےتو کیا صورت بنے گی ؟ اس کے بعد وارانسی میں ہونے والے ضمنی انتخاب سے قبل اگراجئے رائے گنگا نہا کر اپنےسنگھ پریوار میں لوٹ آئے اور بی جے پی اس کو ٹکٹ دے دے تو مختار انصاری ، کانگریس پارٹی اور سماجوادی کیا کہیں گے ؟ یہی نا کہ فسطائیت سے ملک کو بچانے کیلئے اجئے رائے کو ووٹ نہ دو جبکہ اس انتخاب میں مختار وراہل اور پچھلے انتخاب میں ملائم اجئے رائے کیلئے ووٹ مانگ چکے ہیں ۔ نیز جو بی جےپی دو انتخاب میں اجئے رائے کی مخالف رہی ہے وہ اس کی حامی بن کر کھڑی ہوجائیگی۔ ایسے میں جن مسلمانوں نے اب کی بار اسے ووٹ دیا ہوگا وہ اپنے ووٹ کا استعمال اس کے خلاف کریں گے ۔کیا اسی موقع پرستی اور ابن الوقتی کا نام سیکولرسیاست ہے؟کیا یہی فسطائیت اور موروثیت کے خلاف مقدس جنگ ہے ؟اس غلیظ انتخابی تماشے میں امت مسلمہ کا یہ حال ہو گیا ہے کہ ؎
چارہ گر پر چارہ گر بدلے کئی ہم نے مگر
زخم تازہ ہی رہے مرہم پرانے ہو گئے
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449477 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.