بھارت میں انتخابات کا عمل آخری مرحلے میں ہے۔ 16مئی کو
نتائج کا اعلان کیا جائے گا، لیکن الیکشن 2014کا آخری مرحلہ مکمل ہوتے ہوتے
بھارت میں مسلمان ایک بار پھر انتہا پسندہندو دہشت گردوں کے نشانے پر آچکے
ہیں۔ بھارتی ریاست آسام میں جمعرات سے جمعہ کی شام تک 24 گھنٹوں میں بوڈو
علاقوں کے تین گاؤں میں بوڈو قبائل کے مسلح افراد نے 34 سے زاید مسلم دیہی
باشندوں کو قتل کیا۔ ان میں بیشتر خواتین اور بچے تھے۔ حملے کے بعد پورے
خطے میں خوف وہراس کے عالم میں بعض گاؤں سے مسلمان محفوظ مقامات پر منتقل
ہوگئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں پر حملہ یہ کہہ کر کیا گیا کہ انہوں
نے پارلیمانی انتخابات میں بوڈو امیدوار کو ووٹ نہ دے کر ان کے حریف
امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔ آسام کے وزیر برائے ترقی و سرحدی امور صدیق احمد کا
کہنا تھا کہ مسلمانوں کے قتل عام میں انتہا پسند باغی گروپ بوڈو لینڈ پیپلز
فرنٹ ملوث ہے، جو ریاست میں برسراقتدار حکومت کا اتحادی ہے، 30 اپریل کو اس
جماعت کی رہنما پرامیلا رانی براہنما نے بھی کہا تھا کہ بھارت میں جاری
پارلیمانی انتخابات کے دوران علاقے کے مسلمانوں نے ان کے حامی امیدوار کو
ووٹ نہیں دیا اور اسی بنیاد پر مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ کوکرا جھار،
چرانگ، پرانک، بکسا اور بوڈو دہشت گردوں کے سرحدی علاقوں میں محض اس لیے بے
دریغ مسلم بستیوں میں آگ لگانا انتہائی افسوسناک ہے کہ انھوں نے پارلیمانی
انتخابات میں بوڈو امید وار کو ووٹ نہ دےے۔ حالانکہ جمہوری ملک کے ہر
باشندے کا یہ آئینی حق ہے کہ وہ اپنے من پسندامید وارکو ووٹ دے، اس پر کسی
کی کوئی زبردستی نہیں ہے، اس کے باوجود بھارتی حکومت و انتظامیہ بے بس و
ناکارہ بن کر انھیں دیکھ رہی ہے۔ بلکہ درپردہ مسلمانوں کے قتل عام میں دہشت
گرد قاتلوں کی مددکررہی ہے۔ اس سے بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا
اس جانب سے بالکل لاپرواہ ہے۔ بھارتی میڈیا جمعے کی رات مسلمانوں کے اس قتل
عام پر خاموش رہا اور قومی ٹیلی ویژن کی ساری بحث نریندر مودی کے ایک
انٹرویو کے ایک حصے پر مرکوز رہی۔ بیشتر قومی اخبارات میں بھی مسلمانوں کے
قتل کے اس بہیمانہ واقعے کی خبر بہت سرسری طور پر معمولی جرم کے ایک چھوٹے
سے واقعہ کے طور پر شائع کی گئی۔
واضح رہے کہ مسلمانوں پر حملے کرنے والے بوڈو قبائلی ایک عرصے سے اس خطے
میں ایک علیحدہ ریاست کے قیام کی جد وجہد کرتے رہے ہیں اور انہوں نے مسلح
شورش میں بھی حصہ لیا۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ان کی آ بادی
33 فی صد ہے۔ باقی 67 فی صد آبادی غیر بوڈو لوگوں پر مشتمل ہے، جن میں 30
فی صد مسلم ہیں۔ بنگالی اور آسامی بولنے والے یہ مسلمان اس خطے میں مختلف
مرحلوں میں اور اکثر آسام ریاست کے وجود میں آنے سے قبل یہاں آکر آباد
ہوئے۔ بیشتر مسلمان زراعت سے وابستہ ہیں اور زرعی زمینوں کے مالک ہیں۔
بنگلا دیش کی سرحد پر واقع ہونے کے سبب روزی کی تلاش میں بہت سے بنگلا دیشی
مسلمان بھی یہاں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ انتہا پسند ہندوﺅں کو یہ بات گوارا
نہیں ہے، اسی لیے انتخابی مہم کے دوران بھارت کی ہندو قوم پسند جماعت
بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار گجرات کے قصائی نریندر مودی
نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ وزیراعظم بننے کے بعد غیرقانونی بنگلا
دیشی تارکین وطن کو ملک بدر کر دیں گے اور بنگلا دیش کے ساتھ سرحد پر واقع
بھارتی ریاست مغربی بنگال کی حکومت غیرقانونی بنگلا دیشی تارکین وطن کے
ساتھ نرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے، کیونکہ وہ نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے ووٹ
حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایسے تارکین وطن بھارتی نوجوانوں کے روزگار پر ڈاکے
ڈال رہے ہیں۔ آسام مختلف قبائل اور نسلی گروپوں کی ریاست ہے اور ہر بڑا
گروپ ایک علیحدہ ریاست یا ایک علاقائی کونسل کی تخلیق چاہتا ہے۔ اس وقت
ریاست میں بوڈو سمیت تین علاقائی کونسلیں اور 24 مقامی کونسلیں ہیں، جو
نسلی اور قبائلی بنیاد پر تشکیل دی گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان علاقوں میں
بہت سے نسلی گروپ سیاسی اعتبار سے طاقتور ہوئے ہیں اور اکثر وہ اپنی برادری
کو اپنے پیچھے یکجا کرنے کے لیے دوسری برادریوں کے بارے میں یہ بھرم پیدا
کرتے ہیں، وہ ان کی زمینوں کو غصب کر رہے ہیں۔
آسام کے بوڈو قبائل والے چار اضلاع پر مشتمل ان علاقوں میں مسلمانوں اور
غیر بوڈو آبادی پر یہ اس نوعیت کا پہلا حملہ نہیں ہے۔ بلکہ جولائی 2012 میں
بھی مسلمانوں پر اسی قسم کے شدید حملے ہوئے تھے، جن میں سو سے زیادہ مسلمان
جاں بحق اور کئی سو زخمی ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے سیکڑوں مکانوں اور کھیتوں
کو جلا دیا گیا تھا۔ کم از کم چار لاکھ مسلمانوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر
امدادی کیمپوں میں پناہ لی تھی۔ دو برس گزر جانے کے بعد بھی ان میں سے کم
از کم 30 ہزار مسلمان اپنے گھروں کو واپس نہیں آ سکے ہیں۔ ان کے گھر اور
زمینیں واپس ملنے کے امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ 1996 اور 98 میں بھی بوڈو
قبائل کے مسلح افراد نے خطے کے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ کئی
لاکھ قبائلی اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں سے چلے گئے تھے۔ ان میں سے بہت سے
لوگ واپس نہیں لوٹے۔ ان کی زمینیں، مکان اور کھیتوں پر اب بوڈو قبائل کا
قبضہ ہے۔ بھارت میں مسلمانوں پر ظلم کی تاریخ پرانی ہے۔ بستور، بدوباہاب
اور بوربور کے ہزاروں لوگ 18 فروری، 1983 کی تاریخ کبھی نہیں بھول سکتے۔ اس
دن بستور، بدوبا، ہاب اور آس پاس کے گاؤں کے قریب ساڑھے چھ ہزار مسلمان صرف
تین چار گھنٹوں کے اندر ہی قتل کردیے گئے تھے۔ کچھ فاصلے پر واقع بوربور
گاؤں میں مرنے والوں کی تعداد بھی تقریباً 550 تھی۔ یہ سب اس وقت ہوا جب
آسام میں بوڈو تحریک اپنے عروج پر تھی۔ 1983 کے قتل عام میں بچ جانے والے
مسلمانوں کے مطابق صبح کے وقت ہی سیکڑوں کی تعداد میں قبائلیوں اور مقامی
بدمعاشوں نے ہمارے گھروں میں آگ لگانا شروع کر دی اور چاروں طرف سے فائرنگ
شروع کردی تھی۔ جبکہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اس دن پولیس اور نیم فوجی
دستے کچھ گھنٹے کے لیے غائب ہو گئے تھے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ایک طرف آسام میں
مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے جس پر بھارتی میڈیا چپ سادھے
بیٹھا ہے، جبکہ دوسری طرف کشمیری طالب علموں کو پاکستان کی مخالفت میں نعرے
نہ لگانے کی وجہ سے ایک بار پھر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بھارتی
سورماؤں کی پاکستان دشمنی کا تازہ واقعہ ریاست اترپردیش کے علاقے گریٹر
نوئیڈا کی ایک نجی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں پیش آیا، جہاں رات گئے نشے میں
دھت انتہا پسند ہندوﺅں نے کشمیری مسلمان طلباءکو پاکستان کے خلاف نعرے
لگانے کا حکم دیا، تاہم کشمیری نوجوانوں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا،
جس پر ہندو طلبا نے کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلبا کو بری طرح تشدد کا
نشانہ بنایا۔ بھارت کے انتہا پسندﺅں کی مسلمان دشمنی اور پاکستان دشمنی کسی
سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اسی انتہا پسندی کے باعث بھارتی میڈیا انتخابات میں
بھی ہر اس شخص کی حمایت کرتا ہے جو مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف جارحانہ
رویہ رکھے۔ اسی لیے بھارتی میڈیا ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نریندرمودی جسے
گجرات کا قصائی بھی کہا جاتا ہے، کو بھارت کا وزیر اعظم بنانے پر تلا ہوا
ہے۔ حالانکہ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے علی الاعلان کہا ہے کہ مودی کا
بر سر اقتدار آنا ملک کے لیے تباہ کن ہوگا، جس نے احمد آباد کی سڑکوں اور
کوچوں میں معصوموں کے قتل عام کی سر پرستی کی تھی۔ ممتاز کنڑا ادیب اور
گیان پتھ ایوارڈیافتہ انندمورتی نے مودی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ
اگر مودی بر سر اقتدار آتے ہیں تو ملک نسل کش فسادات اور تشدد کی لپیٹ میں
آجائے گا۔ امریکا اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں کے 75سے زاید پروفیسر صاحبان
نے جن میں بیشتر غیر مسلم ہیں، ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ بی جے پی نے
جس شخص کو بطور وزیر اعظم پیش کیا ہے، وہ آر ایس ایس اور اس کی ہندو قوم
پرست تحریک کی پیداوار ہے، جس کی تاریخ مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کے
واقعات سے بھری پڑی ہے۔ بھارتی ریاست گجرات میں 2002ءکے واقعات میں مودی کی
سرپرستی میں ہزار مسلمان قتل کیے گئے تھے۔ غیر ملکی میگزین ”اکنامسٹ“ کی
رائے ہے کہ مودی بھارتی سماج میں ایک زبردست انتشار پسند قوت ثابت ہوں گے،
مودی میں جدت پسندی، ایمانداری یا انصاف پسندی جیسا کوئی عنصر شامل نہیں
ہے۔ ہندوستان کو اس سے بہتر لیڈر ملنا چاہیے۔ مودی کی حقیقت سامنے آجانے
اور اس کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام سے
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر وہ بھارت کا وزیراعظم بن جاتا ہے تو بھارتی
مسلمانوں کے لیے کس قدر نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ |