کیری لوگر بل پرانے شکاریوں کا
نیا ہتھیار
پاکستانی حکمرانوں کو مبارک ہو کہ امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان نے
پاکستان کو آئندہ پانچ برس میں ساڑھے سات ارب ڈالر کی غیر فوجی امداد کی
فراہمی کے لیے کیری لوگر بل متفقہ طور پر منظور کرلیا ہے۔ کیری لوگر بل پر
صدر اوباما کی جانب سے حتمی دستخط ہونے کے بعد پاکستان کو ہر برس سماجی اور
اقتصادی ترقی کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امریکی امداد ملے گی۔ اس بل کی
منظوری پر امریکیوں کی باچھیں مسرت سے کھلی ہوئی ہیں اور ہمارے حکمران اس
کامیابی پر جشن منا رہے ہیں۔ لالچ انسانی فطرت کا حصہ ہے اور ہمارے حکمران
اس میں بہت آگے ہیں۔ اس بل کے تحت امریکی کانگریس نے انتظامیہ کو پابند کیا
ہے کہ وہ پاکستانی حکومت پر کڑی نظر رکھے اور امریکی وزیر خارجہ ہر چھ ماہ
بعد اس بات کی تصدیق کریں کہ پاکستان القاعدہ اور شدت پسندوں کے خلاف
بھرپور کارروائی کر رہا ہے، شدت پسندوں کو اپنی سرزمین پڑوسی ممالک کے خلاف
حملوں کے لیے استعمال ہونے نہیں دے رہا، حکومتی عناصر، فوج اور خفیہ
ایجنسیوں کو شدت پسندی کی پشت پناہی سے روک رہا ہے اور عدلیہ کے آزاد کردار
میں کوئی مداخلت نہیں کر رہا۔ بل کے تحت وزیر خارجہ کو اس بات کی تصدیق بھی
کرنا ہوگی کہ پاکستان شدت پسند گروپوں لشکر طیبہ اور جیش محمد وغیرہ کے
مبینہ تربیتی کیمپوں کو ختم کرنے کے لیے مستقل اقدامات جاری رکھ رہا ہے۔
کیری لوگر بل میں کہا گیا ہے کہ غیر فوجی امداد کی یہ رقم ترقی، تعلیم اور
توانائی کے شعبوں میں ہی خرچ ہونی چاہیے اور اس کا اہم مقصد پاکستان میں
جمہوری اقدار اور اداروں کا فروغ ہوگا۔ بل کے تحت اس بات کو بھی یقینی
بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرے یا حکومت
پر قبضہ کرے تو یہ امداد معطل کی جاسکے۔ اس کی ایک شق یہ بھی ہے کہ پاکستان
ایٹمی عدم پھیلاؤ کو یقینی بنائے گا اور ایٹمی سائنسدان اے کیو خان کے
مبینہ نیٹ ورک کو سرگرمیوں سے باز رکھے گا۔ اس سلسلے میں پہلے بل میں تجویز
کیا گیا تھا کہ پاکستان امریکہ کو مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی اجازت دیگا
لیکن پاکستان کی جانب سے متعدد شرائط پر اعتراضات کے بعد اب یہ کہا گیا ہے
کہ ایسے افراد کی تفتیش میں پاکستان معاونت کرے گا اور خفیہ معلومات میں
امریکہ کو شریک کرے گا۔ ترقی، تعلیم اور توانائی کے شعبوں میں ملنے والی اس
امداد کی تقسیم کے حوالے سے بھی پاکستان اور امریکہ کی حکومتوں کے درمیان
اختلاف ہے امریکہ چاہتا ہے کہ تمام امداد پاکستانی حکومت کے حوالے کرنے کے
بجائے کچھ رقم غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے جبکہ کچھ رقم ترقیاتی منصوبوں
کے لیے براہ راست مختص کی جائے جبکہ پاکستان کا اصرار ہے کہ امداد پاکستانی
حکومت کے ذریعے ہی استعمال ہو۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔
شمالی علاقہ جات کے بعد اس بل کی منظوری سے کوئٹہ بلوچستان پر کاروائی کے
لئے دباﺅ ڈالا جارہا ہے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں
کسی غیر ملکی ایجنسی کی سرگرمیاں نہیں ہیں اس حوالے سے تمام خبریں بے بنیاد
ہیں، کوئٹہ کسی کی ہٹ لسٹ پر نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کو منہ
چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی اور زخمی دہشت گرد خشکی پر مچھلی کی طرح تڑپ رہے
ہیں۔ لیکن دوسری جانب پاکستان میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے کہا ہے
کہ دہشت گردوں کے اڈوں سے متعلق امریکا کی فہرست میں کوئٹہ سب سے اوپر ہے۔
امریکی سفیر نے یہ بات واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹرویو میں کہی۔ اخبار کی
رپورٹ میں دعوی ٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے طالبان تحریک کو کوئٹہ
میں دوبارہ منظم ہونے کی اجازت دی کیونکہ وہ طالبان کو داخلی خطرہ سمجھنے
کے بجائے اسٹریٹجک اثاثہ سمجھتے ہیں۔ امریکی سفیر کا کہنا ہے کہ ماضی میں
طالبان کی کوئٹہ شوری ٰ پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی کیونکہ اس علاقے میں
امریکی فوج نہیں ہے اور فاٹا کی نسبت کوئٹہ کے بارے میں امریکا کو زیادہ
معلومات بھی نہیں ہیں۔ لیکن اب سرحد کے دوسری طرف امریکی فوجی موجود ہیں
اور کوئٹہ شوری ٰ امریکی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان
کی سپیکر نینسی پلوسی نے امریکی ایوان نمائندگان میں کیری لوگر بل کی
منظوری کے بعد کہا کہ پاکستان نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے اور
دنیا کے مختلف حصوں میں دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے بنانے سے روکنے کی جنگ
میں فرنٹ لائن ملک کا کردار ادا کیا ہے۔ نینسی پلوسی نے کہا کہ کیری لوگر
بل کی منظوری سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی استعداد کار کو مزید
مؤثر بنانے میں مدد ملے گی۔ امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین
سینیٹر جان کیری لوگر بل کی منظوری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ
اس بل سے اس بات کا بھی ثبوت ملا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ طویل
المیعاد سٹریٹجک تعلقات چاہتا ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے اس بل پر دستخط
ہونے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے عوام اور حکومتوں کے درمیان پارٹنرشپ کے
فروغ کیلئے یہ ایک بہت بڑا تحفہ ہو گا۔ امریکی اس بل کو پاکستان میں سرمایہ
کاری سے تعبیر کرتے ہیں، ایک امریکی سینٹر نے تو عوامی طور پر اس بل کو ایک
طویل المدت سرمایہ کاری قرار دیا جس واحد مسلم ایٹمی طاقت میں دہشت گردی کا
خاتمہ ہوگا۔ کیری لوگر بل پرانے شکاریوں کا نیا ہتھیار ہے۔ جس کے ذریعہ
پاکستان کو گاجر اور چھڑی کے فارمولے کے ذریعہ قابو کیا گیا ہے۔ اس کی چھپی
ہوئی شرائط جب ہم پر آشکارا ہو گی تو ہمیں اندازہ ہوگا کی یہ جدید دور کا
ایسٹ انڈیا کپنی کا معاہدہ ہے۔ ہم نے اپنی آزادی اور قومی سلامتی کا بہت
سستا سودا کیا ہے جس کا اندازہ ہمیں بہت جلد ہوجائے گا۔ |