پاکستان میں جس روز دنیا بھر کے صحافی یوم آزادء صحافت
منا رہے تھے اسلام آباد کی ایک عدالت دہشتگردی ایکٹ کے تحت پاکستان کے سب
سے بڑے میڈیا گروپ’’ جنگ گروپ ‘‘کے مالک میر شکیل الرحمن اور صحافی عامر
میر کیخلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے کا حکم دے رہی تھی۔ماہرین ، قومی
اورعالمی مبصرین کے مطابق یہ حکم بلاشبہ صحافتی آزادی پر سنگین حملہ ہے ۔
تاہم پاکستان کی حکومت اور سیاسی جماعتیں اس معاملہ پر خاموش ہیں۔
اس دوران ’’جنگ گروپ‘‘ حکومت اور فوج کی اعلیٰ قیادت کو ایک خط لکھا گیا ہے
جس میں ادارے کے دفاتر اور کارکنوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست کی
گئی ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ 19 اپریل کو کراچی میں حامد میر پر
قاتلانہ حملہ کے بعد ’’جیو گروپ‘‘ کے ملازمین کو ڈرانے دھمکانے کے واقعات
میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال میں ’’جنگ گروپ‘‘ کے ملازمین
کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہے۔ خط میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ صورتحال سرکاری
اہلکاروں کے بیانات کی روشنی میں مزید سنگین اور پرخطر ہو جاتی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ’’جنگ گروپ‘‘ نے ملک کی سویلین اور فوجی قیادت سے یہ بھی
کہا ہے کہ ان اداروں کو ریاست مخالف ، فوج مخالف اور غدار قرار دیا جا رہا
ہے۔ ان اداروں کے ملازمین ، لکھنے والوں ، تقسیم کاروں اور صحافتی عملے کو
نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کا پیچھا کیا جاتا ہے اور ڈرانے دھمکانے کے لئے
ایک منظم جارحانہ مہم شروع کی گئی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق ’’جنگ گروپ‘‘
کے مالک اور ایک صحافی کے خلاف فوجداری مقدمہ قائم کرنے کے حکم اور اس خط
کی روشنی میں صورتحال کو دیکھا جائے تو ملک میں آزادء اظہار کے حوالے سے
ایک تکلیف دہ تصویر سامنے آتی ہے۔ ’’جنگ گروپ‘‘ پاکستان کا سب سے بڑا
اشاعتی اور براڈ کاسٹنگ ادارہ ہے۔ اس ادارہ کی درجنوں پبلی کیشنز کے علاوہ
متعدد ٹیلی ویژن چینل ہیں۔ اگر ایک خبر نشر ہونے پر اس ادارے کے لئے حالات
کو اس حد تک مشکل بنایا جا سکتا ہے تو اس ملک میں طاقتور اداروں کو اپنی
حکمت عملی پر ازسر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ حامد میر پر حملہ ہونے کے بعد ان کے بھائی عامر
میر کی طرف سے آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کو
اس حملہ کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ ’’جنگ گروپ‘‘ نے اس خبر کو غیر ضروری
طور پر نمایاں کر کے اور یکطرفہ طور سے نشر کیا۔ اس حوالے سے آئی ایس آئی
کا مؤقف جاننے کی بھی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ احساس کیا گیا کہ اس
طرح ایک ادارہ کے ساتھ اس کے سربراہ پر ذاتی الزام تراشی ہر اخلاقی اور
قانونی حدود سے بالا ہے۔ ان سب کے باوجود ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں
ہے کہ بہر صورت یہ ایک خبر ، الزام اور بیان ہی تھا۔ یہ خواہ کتنا بھی غلط
اور بے بنیاد ہو، کسی شخص یا ادارے کو ایسا مؤقف اختیار کرنے یا اس قسم کا
بیان دینے سے روکنے کے لئے فوجداری مقدمہ کا سزاوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔
نہ ہی کسی بھی اشاعتی و نشریاتی ادارے سے یہ حق چھینا جا سکتا ہے کہ وہ
اپنی ادارتی حکمت عملی کیوں کر اور کس طرح طے کرتا ہے۔
جیو کی نشریات میں آئی ایس آئی پر غیر ضروری الزام تراشی کی ہر طرف سے مذمت
کی گئی ہے۔ تمام سنجیدہ صحافتی حلقوں نے اس طریقہ کار کو نازیبا اور بنیادی
صحافتی اصولوں سے متصادم قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’جنگ گروپ‘‘ کے خلاف
اور آئی ایس آئی اور فوج کی حمایت میں سیاسی اور صحافتی سطح پر ایک جامع
اور بڑی مہم سازی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ یہ
سارے مظاہرے قومی اداروں کی محبت میں منظم کئے جا رہے ہیں تاہم یہ حقیقت
حال ہر کسی پر عیاں ہے کہ ان کے درپردہ کہاں سے کیا اشارے ہو رہے ہیں اور
ان کے ذریعے کیا پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مذہبی اور نیم سیاسی گروہوں کے علاوہ اس ملک میں خود استحصال اور تعصب کا
شکار اقلیتی فرقوں کی طرف سے بھی فوج کے حق میں مظاہرے کرتے ہوئے ’’جنگ
گروپ‘‘ پر الزام تراشی کی گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی متعدد ٹیلی ویڑن
چینلز اور اخبارات میں مستعد اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار نام نہاد
صحافیوں نے جیو کی زیادتی کی آڑ میں آزادء صحافت و اظہار پر غیر ضروری
حملوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس قسم کے کئی پروگرام اور
تحریریں آئی ایس آئی کو خوش کرنے کے ساتھ مختلف نشریاتی اداروں کے تجارتی
مفادات کے تحفظ کا سبب بھی بن رہی ہیں۔ ان پروگراموں میں کہی جانے والی
باتوں اور تحریروں میں چھپے مقصد سے صاف جانا جا سکتا ہے کہ یہ حب علی سے
زیادہ بغض معاویہ کا شاخسانہ ہیں۔
میڈیا کے ایک گروپ کے خلاف اس پرجوش مہم جوئی میں عمران خان جیسے سیاسی
لیڈر اور علامہ طاہر القادری جیسے مذہبی رہنما بھی شامل ہو چکے ہیں۔ یہ
دونوں رہنما ’’جنگ گروپ‘‘ کا بائیکاٹ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ عمران خان
نے جیو کو انتخابات میں دھاندلی کا مرتکب بھی قرار دیا ہے حالانکہ تحریک
انصاف کے رہنما کو یہ الزام لگانے سے قبل اس سادہ سوال کا جواب دینا چاہئے
تھا کہ انہیں انتخابی دھاندلی میں جیو کے ملوث ہونے کا خیال انتخابات کے
انعقاد سے سال بھر بعد کیوں آیا ہے۔ اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جبکہ اس
ملک کی سب سے طاقتور ایجنسی ایک اشاعتی اور براڈ کاسٹنگ ادارے کے خلاف مہم
جوئی میں مصروف ہے۔
بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ کہنا بے حد ضروری ہے کہ عمران خان جمہوریت کی
پیداوار ہیں۔ اگر انہوں نے عوامی ووٹ کی بنیاد پر سیاست کرنا ہے تو انہیں
آزادء اظہار کے تحفظ کے لئے صف اول میں شامل ہونا چاہئے۔ بھلے بعض اخبار یا
ٹیلی ویڑن اسٹیشن نے ان کے خلاف یا ان کی پارٹی کے خلاف مہم جوئی کی ہو یا
فضا ہموار کرنے میں کردار ادا کیا ہو، انہیں خود تلوار اٹھا کر ان اداروں
کو گرانے کا گناہ عظیم اپنے سر لینے سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ دنیا بھر میں
کوئی جمہوریت آزاد پریس کے بغیر نہیں پنپ سکتی۔ آج اگر سیاستدان جیو کی ایک
غلطی کے جرم میں اس ادارے کو بند کروانے یا اسے مطعون کرنے کی کوشش کریں
گیتو درحقیقت وہ اس ملک میں جمہوریت کا راستہ کھوٹا کرنے کا سبب بنیں گے۔
مذہبی جماعتوں ، سیاسی لیڈروں اور صحافیوں کی اس مہم جوئی سے ملک میں آزاد
صحافت کا ہرگز بول بالا نہیں ہو سکتا۔ خاص طور سے جبکہ یہ دکھائی بھی دے
رہا ہو کہ یہ سارے اقدام ایک خاص مقصد اور ایجنڈے کے تحت کئے جا رہے ہیں۔
بات محض مہم جوئی اور الزام تراشی تک ہی رہتی تو بھی قابل مذمت اور
افسوسناک تھی لیکن جیو کی انتظامیہ نے سول و فوجی حکام کو جو خط لکھا ہے ،
اس میں دھمکیوں اور ورکروں کو ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس خط
میں وزیر داخلہ سے اپنے اداروں اور ملازمین کے لئے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا
ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں صحافت اور صحافی مشکل صورتحال سے دوچار
ہیں۔ اس وقت انہیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے اور اپنی غلطیوں کا ادراک کر
کے ان کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ تبھی آئندہ نسلوں کے لئے اچھی روایت
قائم کر سکیں گے۔ موجودہ سنسنی خیز ماحول میں اگر ذاتی اور ادارہ جاتی
مفادات کی وجہ سے صحافی متحد ہو کر آزادء اظہار کے حق کی حفاظت نہ کر سکے
تو جیو اور جنگ کو گرا لینے کے بعد تباہ کاری کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔
پھر تباہی کا یہ طوفان کوئی دوسرا گھر تلاش کرے گا۔
|