عمران خان کو سکھوں اور پٹھانوں سے متعلق مشہور لطیفوں کے
کرداروں کی طرح بات کی سمجھ دیر سے آتی ہے اتنی دیر سے کہ جب حالات و
واقعات بدل چکے ہوتے اور پُلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ چکا ہو تا ہے،
انکی معاملہ فہمی ،سیاسی شعور اور فیصلوں کا یہ عالم کہ کبھی مشرف کے
ریفرنڈم میں انکی حمایت پر انہیں معافی مانگنا پڑتی ہے ،کبھی اپنی ہی پارٹی
کے ٹکٹوں کے فیصلے کرنے میں یہ کہہ کر خود کو بے بس پاتے ہیں کہ ’’مجھے
نہیں پتا تھا کہ ٹکٹوں کے فیصلے کرنا اتنا مشکل کام ہوتا ہے‘‘ تو کبھی
افتخار چوہدری پر اعتماد کو اپنی غلطی قرار دیتے ہیں،انہوں نے ناکامیوں پر
اشک بہانے کی عادت اتنی پختہ کر لی ہوئی ہے اس لئے ان کے بارے میں مشہور
ہوگئی ہے کہ وہ جہاں سے الیکشن جیت جائیں وہاں’’ستے ای خیراں‘‘اور جہاں سے
وہ کامیاب نہ ہو سکیں وہاں کیڑے نکالنے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں ،موصوف جن
دنوں کرکٹ کھیلتے تھے اور ’’پلے بوائے‘‘ کے امیج پہ پھولے نہیں سماتے تھے
تب سیاست میں نہ آنے کا دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا کرتے تھے مگر اب وہ وزیر
اعظم بننے کے لئے اتنی جلدی میں ہیں کہ ’کہیں‘‘ سے کوئی ہلکا بھی اشارہ ملے
یہ فوراً شیروانی کا آرڈر دینے پہنچ جاتے ہیں،عام انتخابات میں انہوں نے کس
کے سہارے سونامی لانے کے بڑے بڑے دعوے کئے اب یہ بات پوشیدہ نہیں لیکن اصل
نکتہ یہ کہ انتخابات میں سونامی کی بدنامی سے بھی انہوں نے سبق نہیں سیکھا
،انہیں ایک صوبے کی حکومت ملی جسے سنوار کر اوراسے امن کا گہوارہ بنا کروہ
ایک ماڈل کے طور پرپیش کر سکتے تھے ،پاکستانیوں کی وہ اکثریت جو ان کے ساتھ
نہیں ہے اسے اپنی جانب مائل کرنے کا ان کے پاس سنہری موقع تھا مگر انکی
توجہ کی خیبر پختونخواہ کی حکومت کی کارکردگی سے زیادہ نادیدہ قوتوں کے
اشاروں کی منتظر رہتی ہے ،ان کے دل و دماغ میں کہیں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ
ہمارے ملک میں اب بھی طاقت کا مرکز وہی ہے جہاں سے ماضی میں بڑے بڑے
سیاستدانوں نے’’ فیض ‘‘پایا،’ ’فیوض و برکات‘‘کو جھپٹ لینے کی اس خواہش نے
انہیں پہلے بھی مایوس کیا اور اب بھی ہمہ وقت گھیرے میں لیا ہوا ہے سو نواز
شریف کے’’ پھیرے ‘‘ انہیں متاثر نہیں کر سکے، نواز شریف نے الیکشن کے
بعددوستی کا ہاتھ بڑھایا اور خیبر پختونخواہ میں ’’آڈھا ‘‘ لگائے بغیر
تحریک انصاف کو حکومت بنانے دی باوجود اسکے کہ مولانا فضل الرحمان کچھ اور
چاہتے تھے مگر یہ حقیقت نواز شریف کے سامنے کھڑی ہے،عمران خان کو وزارت
عظمیٰ سے کم کچھ اورنہیں چاہئے اورنواز شریف خود وزیر اعظم ہیں اس لئے وہ
انکے ساتھ نہیں چل سکتے
میں تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا توسمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
سوعمران خان کے دل کا دریچہ نواز شریف کے لئے وا نہیں ہو سکتا،گو کہ وہ بھی
کہتے ہیں کہ توانائی بحران،غربت،دہشت گردی وغیرہ وغیرہ کا خاتمہ کروں گامگر
اس سب کے لئے نواز شریف کی کپتانی انہیں قبول نہیں ،سو گدگدا دینے والا
فرمان جاری کیا ہے کہ ’’ میں نے نتائیج تسلیم کئے تھے دھاندلی نہیں‘‘ آفتوں
کے دور میں اس سے لطیف بیان کسی اور کا ہو نہیں سکتا۔
عمران خان بات کہنے اور کہہ کر بدل جانے میں کمال رکھتے ہیں کچھ بعید نہیں
کہ کل جب انہیں بات کی سمجھ آئے یا انکی آنکھ کھلے تو وہ ’’دھاندلی ‘‘کو
بھی مان لیں فی الوقت انکے حسن انتخاب کی داد نہ دینا نا انصافی ہوگی،انہوں
نے دانش اور حکمت میں اپنا ثانی نہ رکھنے والے شیخ رشید سے اکھیاں لڑائیں
اور اب ان کا رومانس کنٹینر والے بابا جی سے چل رہا ہے ،ماضی میں عمران خان
کے معاشقے دیر پا نہیں ہوا کرتے تھے،کتنی ہی حسینائیں تھیں جن سے انہیں
باری باری ’’سچی محبت ‘‘ہوئی تھی بعد ازاں روز روز کے عشق سے تھک ہار کر
اور لاکھوں پاکستانی خواتین کی شادی کے لئے آفرز کوٹھکرا کر جمائمہ پر
فریفتہ ہوئے تو’’ عشق معشوقی‘‘کا یہ سلسلہ کہیں تھما تھا ، عمران خان کی
شادی چلی یا نہیں اسکے بارے میں ٹھیک سے اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ بیوی
نے ’’علیحدگی ‘‘کے وقت 4ارب کا بنی گالہ پیلس بھی انہیں گفٹ کیا اور خان
صاحب بچوں کی نانی کے پاس بھی بدستور رہنے جاتے ہیں ،خیر چھوڑیں پی ٹی آئی
والے بھائی اس کو ذاتی زندگی کے معاملا ت میں مداخلت کہیں گے اور مجھ پر
مغلظات کی برسات بھی یقینی ہے آنے والے ان حالات کو بھانپتے ہوئے جواب میں
مجھے اپنے ان بھائیوں سے انتہائی عاجزی سے صرف یہی کہنا ہے کہ’’ same to
you‘‘
ہاں تو نیا سیاسی معاشقہ کنٹینر والے باباجی کے ساتھ چلا ہے،باباجی یوں تو
روحانی شخصیت ہیں مگر اپنے مریدوں کے معاملے میں کافی سخت گیر واقعہ ہوئے
ہیں،شدید سردی میں ریاست بچانے کے لئے اکٹھ کیا تو مریدوں کو کھلے آسمان
تلے اﷲ پر توکل کرنے کی نصیحت کی اور خود نرم و گرم لباس میں ملبوس ہو کر
کنٹینر میں بیٹھ کرتقریریں فرماتے رہے اب 11مئی کو جھلسا دینے والی گرمی
میں پھر انکے مریدوں کی شامت آیا چاہتی ہے ، یار لوگوں کی یاد داشت بھی بہت
کمزور ہے اور عمران خان کی تو سب سے زیادہ،کئی دنوں کی اس ’’سیاست نہیں
ریاست بچاؤ،،مشق میں اپنے مریدوں کا بھرکس نکال دینے کے بعد باباجی نے
مبارکبادوں اور حکومتی کمیٹی کے ساتھ جپھیوں پراپنے’’ اوپن تھیٹر‘‘ کا
اختتام کیا تھا،یہ بھی فرمایا تھا کہ حکومت کے ساتھ انتخابی اصلاحات
پراتفاق ہوگیا،اب عمران خان کو افتخار چوہدری،الیکشن کمیشن یہاں تک کہ ایک
ٹی وی چینل بھی دھاندلی کا ذمہ دار دکھائی دے رہا ہے،فرصت ہو تو بابا جی سے
بھی پوچھ لیں کہ دھرناختم کرنے سے پہلے ان کا حکومتی کمیٹی سے کیا مک مکا
ہوا تھا؟ انکی نظام بدلنے کی بڑھکیں اورانتخابی اصلاحات کیا ہوئیں اور
پھرباباجی’’ ریاست‘‘ کو خطرات اور مصائب کے بھنور میں چھوڑ کر اصلاحاتی
ایجنڈے پر عملدارآمد کرا ئے اور انقلاب لائے بغیر کینیڈا کیوں پدھار گئے
تھے،کیا انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے ذمہ دار خودکنٹینر والے بابا جی
نہیں ہیں لیکن عمران خان کو یہ بات دیر سے ہی سمجھ میں آئے گی۔ |