جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے اور برسا برس کی جنگ کے
بعد بھی مذاکرات کے لئے مل بیٹھنا ایک اہم اقدام ہے ۔ ہمیں اس بات پر شکوک
و شہبات کااظہار نہیں کرنا چاہیے کہ کیسے رہا کیا جا رہا ہے اور کیسے رہا
نہیں کیا جارہا ، لیکن اس بات پر یقین ضرور ہے کہ جب تک سنجیدگی نہیں ہوگی
ا اس کے بغیر پاکستان میں امن قائمنہیں ہوسکے گا ۔گو کہ اطلاعات کے مطابق
عسکری وسیاسی میدان مین ڈیڈ لاک کی صورتحال موجود ہے لیکن اس کے باوجود سر
جھکا کر تسلیم کرلیا گیا ہے چاہیے کتنی بھی طاقت استعمال کرلی جائے ،مذاکرات
کے بغیر پاکستان وافغانستان میں امن کا قیام ناممکن عمل ہوگا ۔امریکہ کی
جانب سے سرحدوں کو سیل کرنے کی تمام اطلاعات صرف اخباری بیانات تک محدود
رہی کیونکہ پاک افغان سرحدوں کو سیل کرنے کے لئے اربوں ڈالرز کا سرمایہ
لگانے کے علاوہ تیس ہزار فوجی کی تعیناتی بھی ضروریتھی اور یہ عمل پاک،
افغان اور امریکہ کی جانب سے اس صورتحال میں نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایک
جانب امریکہ2014ء میں افغانستان چھوڑنے کی باتیں بھی کر رہا ہے وہ فوج میں
مزید کمی کا رسک نہیں لے سکتا ۔
افغان سرحدوں سے پاکستانی علاقوں میں بمباریوں سے ہلاکتیں جہاں ماحول کو
کشیدہ بنا رہی ہیں۔ ایک بار پھر باجوڑ کے سرحدی علاقے میں پاکستانی سیکورٹی
اہلکاروں پر فائرنگ سے ایک سیکورٹی اہلکار جاں بحق اور ایک زخمی ہوگیا تو
دوسری جانب امریکہ کی جانب سے ایک بارپھر پاکستان پر در اندازی کے الزامات
اور مدارس کو ملوث کرنے سے امن کے قیام میں مشکلات درپیش آرہی ہیں۔ پاکستان
کی جانب سے بھی شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے یہی تحفظات ہیں کہ
آپریشن کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ طویل ترین سرحدوں کی نگرانی کے لئے افغان
فوج کا کردار مناسب نہیں ہے اور در اندازوں کو پاکستان کی سرحد کے ذریعے
داخل ہونے میں ناکامی سے پاکستانی فوج کو ایک بڑے معرکے میں فوج کے بڑے حصے
کو ملوث کردینا ، مملکت کی دوسری جانب سرحدوں کو کمزور بنا دینے کے مترادف
ہوگا جبکہ پاکستان کے طول و عرض میں دہشت گردی کی کاروائیوں کی بنا ء پر
ملکی سلامتی پہلے ہی خطرات میں ہے ۔
معاشی طور پر پاکستان کو اربوں ڈالرز کے نقصان کا سامنا ہے ، سازش کے تحت
اقتصادی شہر کراچی میں سرمایہ کاری بند ہوچکی ہے ، بلوچستان علیحدگی کے
دہانے پر کھڑا ہے ۔ پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے بڑے نیٹ ورک کی وجہ سے
بھارت اور فرقہ وارانہ مسالک کی حمایتی عرب وعجم کے ساتھ تعلقات کشیدہ تر
ہونے کے خدشات ہمہ وقت موجود ہیں تو اس صورتحال میں جب پاکستان اکیلا
دوسروں کی جنگ کو لڑ رہا ہے اور اب یہ جنگ اس کی اپنی جنگ بھی بن چکی ہے تو
افغانستان میں جلداز جلد از امن کا قیام ناگزیر ہوچکا ہے۔
پاکستان کی جانب سے افغانستان میں قیام امن اور مصالحتی کوششوں میں کچھ
طالبان نمائندوں کو رہا کرنے کا عمل بین الاقوامی طاقتوں کی جانب سے دباؤ
کا ہی نتیجہ تھی کیونکہ امریکہ افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکام
ہوچکا تھا ۔ اسلام آباد میں موجود افغان وفد کے اہم رکن نصر اﷲ سنکزئی نے
بات چیت کیتصدیق تو کی کہ لیکن فہرست میں شامل طالبان کے نام ظاہر نہیں کئے
۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے طالبان کو رہا کرنے کی تصدیق کردی ہے جبکہ غیر
جانبدارا حلقوں کی جانب سے حالیہ عمل کو امن کے قیام کیلئے ناگزیر قرار دیا
ہے ۔خود افغان حکام کے مطابق ملا برادر طالبان کے دوسرے گروپس کو امریکہ کے
ساتھ مذاکرت کے لئے ایک پُل بن سکتے ہیں کیونکہ امریکہ افغان کی دس سالہ
جنگ میں افغانستان ویسا ہی ہے لیکن امریکہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ۔
جبکہ پاکستان کو امریکہ اتحادی بننے کی بڑی سزا مل چکی ہے ۔ اگر اس صورتحال
میں افغان رہنما واپس افغانستان جاکر قیام امن کے لئے کوئی کوشش کر سکتے تو
یہ کوئی مہنگا سودا نہیں تھا۔خاص طور پر ملا ترابی جو طالبان سوچ اور
نظریات کے کٹر حامی بتائے جاتے ہیں ۔ملا ترابی ، ملا عمر کے انتہائی قریبی
ساتھیوں میں بھی شمار کئے جاتے ہیں ۔ ملا ترابی طالبان میں شمولیت سے قبل
حرکت انقلاب اسلامی اور مولوی عبدالرسول سیاف کی اتحاد اسلامی سے تعلق
رکھتے تھے 80کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ روسی افواج کے خلاف جہاد میں
لڑتے ہوئے وہ اپنی ایک آنکھ اور ایک ٹانگ سے محروم ہوگئے تھے ، ملا ترابی
کو کراچی سے 2007ء میں گرفتار کیا گیا تھا ۔حالاں کہ اس سے قبل سابق وزیر
خارجہ وکیل احمد متوکل اور پاکستان میں طالبان سفیر ملا ضعیف کو طالبان نے
رہائی کے بعد قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ناظم الامور
رچرڈ ہوگلینڈ نے تسلیم کیا ہے کہ افغانستان کے مفاہمتی عمل میں پاکستان کا
کردار اہم ہے۔انھوں نے افغان اعلی امن کونسل اور پاکستان عہدے داروں کے
کامیابمذاکرات کو مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔امریکہ کی جانب سے طالبان
قیدیوں کی رہائی کے عمل کی حمایت سے قبل یقینی طور پر امریکہ نے پس پردہ اس
کی حمایت کی ہوگی کیونکہ پاکستان اور افغانستان میں اتنی طاقت فی الحال
نہیں ہے کہ امریکہ کی مرضی کے بغیر کچھ کرسکیں ۔ ہمیشہ سفارتی بیک ڈور چینل
میں خفیہ سفارت کاری میں کامیابی کے بعد ہی دنیا کے سامنے اداکاری کی جاتی
ہے کہ فلاں میٹنگ کے بعد یہ فیصلہ ہوا ہے ۔ تاہم عام عوام کو اس سے غرض
نہیں ہے کہ مذاکرات کی موجودہ صورتحال میں کس کا کیا کردار اہم ہے۔
پاک افغان عوام ہر صورت اپنے ممالک میں امن کے خواہاں ہیں اور امریکہ سمیت
نیٹو افواج کی اپنے ممالک میں لاحاصل جنگ کے بعد واپسی چاہتے ہیں۔افغانستان
میں اب بھی کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کا مفاد جنگ سے وابستہ ہے ، لیکن
اپنی مملکت کے لئے آزادی کی جنگ لڑنے والے یقینی طور پر چاہتے ہیں کہ ان کے
ملک میں کسی بھی دوسرے ملک کی دخل اندازی نہ ہو ، افغانستان میں دس سال تو
کیا سو سال جنگ کے بعد سب کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا ۔
پاکستان کا وجود جب تک ہے امریکہ سمیت پوری دنیا کو اس کے کردار کو تسلیم
کرنا ہوگا اور ماضی میں پاکستان کا جو بھی کردار رہا ہو اس سے قطع نظر آج
کا پاکستان ماضی کے مقابلے میں خون میں لت پت اور دہشت گردی کے ریگستان میں
دھنسا ہوا ہے۔ 80کی دہائی میں پاکستان کا کردار جیسا بھی تھا لیکن اب سابقہ
پالیسوں کو جاری رکھنے کا مطلب پاکستان کے موجودہ حصے کو بھی کھو دینا ہے ۔
اگر پاکستان کو پنجاب تک محدود نہیں رکھنا اورقائد اعظم کے اس بچے کچے
پاکستان کو سلامت رکھنا مقصود ہے تو پھر پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسوں میں
تبدیلی کرنا ہوگی ۔ 80کی دہائی کے تجربات نے پاکستان کا نقشہ بگاڑ کر رکھ
دیا ہے ۔ کراچی ، بلوچستان، خیبر پختونخوا سنگین مسائل کے ساتھ پاکستان کی
بقا کے لئے سنجیدگی کے متقاضی ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بین لاقوامی قوتیں پاکستان کی سلامتی کے خلاف
ایسے شر پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم
کرنا چاہتی ہیں۔پنجاب کا نام اگر پاکستان رکھنا ہے تو پھر جو ماضی میں
پاکستانی خارجہ پالیسی رہی تو پھر جاری رکھو ۔ لیکن پاکستان کو مضبوط بنانا
ہے تو پہلے گھر میں لگی بجھانے کے لئے اسباب پیدا کئے جائیں ۔ طاقت کے
استعمال میں جب دنیا کے بڑی قوتیں دس سالوں میں ناکام ہوچکی ہیں تو پاکستان
اکیلا کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے ۔افغان طالبان ، افغانستان کے نمائندے ہیں
ان سے مذاکرات اہم پیش رفت ہے ۔ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی ۔یہ
خطے میں امن سے زیادہ خود ہماری سر زمین کے لئے ضروری ہے۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ افغان صدارتی انتخابات میں پاکستانی حامی گروپ
کو کامیابی نہیں مل رہی اور بھارت ایشیا میں افغانستان کو سب سے زیادہ
امداد دینے والا ملک ہی نہیں بن چکا بلکہ افغانستان میں لاتعداد حساس
پراجیکٹ پر افرادی و عسکری معاونت بھی فراہم کر رہا ہے ، بلکہ افغانستان کو
روس کی جانب سے اسلحہ مہیا کرنے پر اپنے خزانے سے رقم دینے کا معائدہ بھی
منظر عام پر آچکا ہے لہذا جہاں ایک طرف بھارت، پاکستان کو تنہا کرنے کی
پالیسی پر کاربند ہے تو ہمیں بھی اس معاملے پر سنجیدگی اختیار کرنی چاہیے
اور جلد از جلد اندرونی معاملات کو نپٹا کر بیرونی خدشات پر توجہ مرکوز کر
لینی چاہیے۔
|