کراچی سے گرفتار کیے گئے ایف بی
آئی کے ایجنٹ جوئیل کاکس کو دس لاکھ روپے کی ضمانت پر جمعرات کے روز رہا
کردیا گیا۔ جوئیل کاکس کو پیر کے روز کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر
نائن ایم ایم پستول کی پندرہ سے زاید گولیوں، میگزین، چاقو، ایک آہنی مکے،
جاسوسی کے آلات پین، کیمرا اور آفیشل کارڈ سمیت گرفتار کیا گیا تھا۔ امریکی
ذرائع ابلاغ کے مطابق کراچی کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اسلحہ سمیت گرفتار
ہونے والا امریکی شہری ایف بی آئی کا ایجنٹ ہے اور ترجمان محکمہ خارجہ جین
پاسکی کے مطابق بھی جوئیل کاکس ایف بی آئی کا ایجنٹ ہے، وہ امریکی
سفارتخانے کے لیگل اتاشی کے ساتھ عارضی ڈیوٹی پر تھا۔ اس کی تعیناتی امریکی
ریاست میامی کے فیلڈ آفس سے کی گئی تھی۔ اطلاعات ہیں کہ جوئیل کاکس سے ایف
آئی اے کی تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ امریکی ایجنٹ نے لیپ ٹاپ سے
کراچی کے حوالے سے اہم معلومات ٹرانسفر کی ہیں۔ تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ
امریکی ایجنٹ سے ملنے والی معلومات اہم ہیں۔ جب کہ ملزم سے کچھ ایسے خفیہ
آلات بھی ملے، جنہیں پاکستان میں ڈی کوڈ کرنا مشکل ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ
تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ کراچی سے حراست میں لیا گیا امریکی شخص سفارت
کار نہیں، بلکہ ایف بی آئی کا اہلکار ہے، جس کے باعث اسے کسی قسم کا
استثنٰی حاصل نہیں۔ صرف امریکی کونسلر کو ایف بی آئی کے اہلکار سے ملنے کی
اجازت دی گئی، جب کہ کسی سفارت کار کو بھی اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
جبکہ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ کراچی میں
گرفتار ہونے والے امریکی اہلکار کو قانون کے مطابق تحقیقات کا سامنا کرنا
ہو گا، کسی بھی غیر ملکی شہری کو پاکستان میں غیر قانونی سرگرمیوں کی اجازت
نہیں دیںگے، ماضی کی طرح غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث کسی بھی غیر ملکی
شہری کو تحقیقات کے بغیر بیرون ملک نہیں بھیجا جائے گا۔ پیر کے روز ایئر
پورٹ سے گرفتاری کے بعد امریکی ایجنٹ کے خلاف سندھ آرمز ایکٹ کے تحت مقدمہ
درج کیا گیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر نے اس ایجنٹ کو دس مئی تک چار روزہ
ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا، لیکن ایف بی آئی ایجنٹ کو پولیس حراست
میں بھی خصوصی پروٹوکول فراہم کیا جاتا رہا۔ صبح ہوتے ہی ”موصوف“ کو
غیرملکی ریسٹورنٹ کا ناشتہ پیش کیا گیا۔ ملزم کو لاک اپ کی بجائے کمرے میں
رکھا گیا، جبکہ پولیس کوتفتیش میں مشکلات کا سامنا بھی رہا، کیوں کہ امریکی
ایجنٹ صرف انگریزی بولتے ہوئے ہرسوال کے جواب میں یہی کہتا رہا کہ ان کی
ایمبیسی سے رابطہ کریں۔ امریکی شہری کے باعث آرٹلری تھانے کی سیکورٹی کے
بھی غیرمعمولی انتظامات کیے گئے اور میڈیا سمیت شہریوں کا داخلہ بند کردیا
گیا تھا۔
دوسری جانب امریکی اہلکار کو جمعرات کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر کی عدالت
میں پیش کیا گیا تو ان کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کا موکل کسی
مجرمانہ کارروائی میں ملوث نہیں رہا، ان سے صرف میگزین اور گولیاں برآمد
ہوئی ہیں، خودکار ہتھیار نہیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں شامل
دفعات قابل ضمانت ہیں، لہذا ان کے موکل کی ضمانت منظور کی جائے۔ کراچی کی
مقامی عدالت نے گرفتار ایف بی آئی اے ایجنٹ جوئیل کاکس کی دس لاکھ روپے کے
مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی، جس کے بعد اسے رہا کر دیا گیا۔ اس سے
پہلے حکومت نے ملزم تک امریکی قونصلر کی رسائی کی اجازت دے دی تھی۔ نجی ٹی
وی کے مطابق جوئیل کاکس کو عدالتی حکم نامہ موصول ہونے سے قبل ہی رہا کیا
گیا۔ ذرائع کے مطابق حکومت کو امریکا کی جانب سے شدید دباﺅ تھا، جبکہ پولیس
پر وزارت داخلہ کی جانب سے شدید دباﺅ تھا۔ اعلیٰ حکام نے جوئیل کاکس کی
رہائی کے لیے پولیس کو فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد
امریکی ایجنٹ کو ضمانت پر رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ امریکی قونصلیٹ کا
ایف بی آئی ایجنٹ کی گرفتاری اور پھر رہائی پر ردعمل میں کہنا تھا کہ ایف
بی آئی ایجنٹ کے مقدمے سے متعلق پاکستانی حکام سے رابطے میں ہیں۔ قانونی
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایف بی آئی ایجنٹ جوئیل کاکس کو ضمانت پر چھوڑنے سے
قبل اس کا نام سب سے پہلے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا جانا چاہیے تھا،
تاکہ وہ فرار نہ ہوسکے، لیکن حکومت کی جانب سے ایسا کوئی مظاہرہ نہیں کیا
گیا۔ آئینی ماہر جسٹس (ر) وجیہ الدین کا کہنا تھا کہ ایف بی آئی کے ایجنٹ
جوئیل کا کس کی زر ضمانت قبول کر کے ریمنڈ ڈیوس کی کہانی دہرائی گئی ہے۔
امریکی ایجنٹ کو جوڈیشنل مجسٹریٹ ملیر نے دس مئی تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس
کی تحویل میں دیا تھا، لیکن تفتیشی ادارے کے اہلکاروں نے متعلقہ عدالت کے
فیصلے کو بائی پاس کرتے ہوئے پولیس رپورٹ جمع کروائی، حالانکہ قانون کے
مطابق جس عدالت میں ملزم کا ریمانڈ ہوتا ہے، اسی عدالت میں ملزم کی درخواست
ضمانت بھی لگائی جاتی ہے، لیکن اس کیس میں ایسا نہیں کیا گیا۔ ملزم کی جانب
سے درخواست ضمانت ضلعی جج کی عدالت میں دائر کی گئی، امریکی ایجنٹ کا
معاملہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کا تھا، لیکن اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ
نہیں کیا گیا، ملزم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نہیں ڈالا گیا۔ یاد رہے کہ
اس سے پہلے بھی امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو پاکستانی حکومت نے رہا کردیا
تھا، حالانکہ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے 27 جنوری 2011ءکو لاہور میں دو
پاکستانی نوجوانوں فہیم اور فیضان کو گولی مار کر قتل کردیا تھا، جبکہ قتل
کرکے بھاگتے ہوئے ایک نوجوان عبادالحق کو اپنی گاڑی کے نیچے کچل کر مارڈالا
تھا، جس کے بعد پولیس نے ریمنڈ کو گرفتار کر لیا تھا۔ لاہور کی عدالت نے
ریمنڈ کو ملک سے باہر بھیجنے پر پابندی لگاتے ہوئے جیل میں رکھنے کا حکم
دیا تھا۔ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والے ایک نوجوان کی بیوہ نے انصاف نہ
فراہم ہونے کے خدشہ پر 6 فروری کو احتجاجاً خود کشی کر لی تھی اور مقتول کے
دیگر لواحقین نے بھی انصاف نہ ملنے کی صورت میں خود کشی کی دھمکی دی تھی۔
اس کے باجود 16 مارچ 2011ءکو ریمنڈ ڈیوس کو بری کر دیا گیا اور رہائی کے
فوراً بعد امریکی ریمنڈ ڈیوس کو بذریعہ ہوائی جہاز افغانستان لے گئے تھے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ تازہ واقعہ میں امریکی ایجنٹ جوئیل کاکس کو یوں چھوڑ
دینا کسی طور بھی درست اقدام نہیں ہے، کیونکہ امریکی ایجنٹ کا معاملہ حساس
نوعیت کا تھا، یہ ایجنٹ کسی بڑی تباہی کا سبب بھی بن سکتا تھا اور اس سے
اہم معلومات بھی ملی ہیں جو اس نے پاکستان سے چراکر بھیجی ہیں۔ یہ بات تو
کئی بار سامنے آچکی ہے کہ ملک میں ہونے والی تباہی میں غیر ملکی ہاتھ ملوث
ہیں، متعدد بار شواہد سامنے آنے کے علاوہ وزیرداخلہ سمیت کئی اہم شخصیات کے
بیانات بھی اس حوالے سے منظر عام پر آچکے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ
امریکا ہر دور میں جاسوسی کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے رہا
ہے۔ گزشتہ سال برطانوی اخبار ”دی گارڈین“ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ
امریکا نے پاکستان سے صرف مارچ 2013ءکے دوران ساڑھے 13 ارب خفیہ معلومات
چرائیں۔ یہ معلومات ٹیلی فون اور کمپیوٹر نیٹ ورک سے لی گئیں تھیں۔ مبصرین
کا یہ بھی کہنا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے، اگر امریکا میں
کوئی پاکستانی شہری اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث پایا جاتا تو اس کے ساتھ
کسی طور بھی یوں نرمی کا معاملہ نہ کیا جاتا جس طرح پاکستان میں امریکی
ایجنٹوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ پاکستان تو رہا ایک طرف امریکا نے اپنے
اتحادی اسرائیل کے جاسوس کو بھی متعدد بار مطالبات کے باوجود رہا نہیں کیا،
اسرائیلی جاسوس جوناتھن پولارڈ کو 1980ءکے عشرے کے اوائل میں عرب اور
پاکستانی ہتھیاروں کے بارے میں امریکا کے خفیہ راز اسرائیل کو پہنچانے کے
جرم میں سزا سنائی گئی تھی، امریکی نژاد اس اسرائیلی جاسوس کو1987ءمیں
شمالی کیرولینا میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اسرائیل متعدد مرتبہ
امریکی صدر سے پولارڈ کی رہائی کا مطالبہ کر چکا ہے، لیکن امریکی صدر براک
اوباما کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جاسوس جوناتھن پولارڈ کی رہائی سے متعلق
ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ دوسری جانب پاکستان میں امریکیوں کو ہر قانون کو
پامال کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ |