مجھے اپنے وطن پہ اعتبار ہے اور اس کے بیس کروڑ محب وطن
عوام پہ بھی۔مجھے حکومت پہ بھی اعتبار ہے اور حزب اختلاف کی تمام جماعتوں
پہ بھی۔مجھے اپنی فوج اپنی فضائیہ اور اپنی نیوی پہ بھی اعتبار ہے۔مجھے
اپنی پولیس ایف سی اور لیویز پہ بھی پورا بھروسہ ہے۔مجھے یقین ہے کہ ہم ایک
ایٹمی قوت ہیں اور کسی بھی نا گہانی کی صورت میں ہم مقابلہ کریں گے۔ ہم جے
ایف سترہ طیارے خود بناتے ہیں اور ہمارے میزائیل دنیا میں کسی بھی ہدف کو
نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ہمارے پاس سیکنڈ سٹرائیک کی صلاحیت بھی ہے۔
ہم ایٹمی آبدوزوں کے مالک ہیں ۔ہم میں سے ہر ایک اپنے وطن کی خاطر کٹ مرنے
کا جذبہ رکھتا ہے۔ہم اپنے غداروں پہ بھی نظر رکھتے ہیں اور انہیں عبرت کا
نشان بھی بناتے رہتے ہیں۔پھر یہ کہ پاکستان ہمارا پیارا وطن ہمارے ایمان کا
حصہ ہے۔یہ وہ سر زمین ہے جہاں سے آقائے دو جہاں سرور کائنات ﷺ کو ٹھنڈی
ہوائیں آیا کرتی تھیں۔یہ ملک رمضان کی سب سے بابرکت ستائیسویں شب کو اﷲ
کریم نے اپنے ماننے والوں کو عطا کیا تھا۔ہمیں اس اﷲ کریم پہ بھی پورا
بھروسہ ہے کہوہ اسے ہمیشہ قائم و دائم رکھے گا۔
کہتے ہیں دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کے پیتا ہے۔اس سارے یقین اور
اعتماد کے باوجود نجانے کیوں دل ہے کہ کانپ کانپ جاتا ہے۔ہم دنیا کی سب سے
بڑی اسلامی ریاست تھے۔پھر غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی بد اعمالیوں کی سزا
کے طور پہ ہمارا ایک بازو ہم سے کٹ گیا۔مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔جو
بچ گیا اسے ہم آج پاکستان کہتے ہیں۔آج سے چند سال پہلے سی آئی اے اور
امریکی نیشنل انٹیلجنس کونسل نے مشترکہ طور پہ اقوام عالم کے مستقبل کا
تجزیہ کر کے ایک رپورٹ میں یہ کہا تھا کہ پاکستان یوگوسلاویہ کی طرح ٹکڑے
ٹکڑے ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ہی کچھ نقشے بھی شائع کئے تھے کہ نئے
پاکستان کی صورت کیا ہو گی۔اس سے قطع نظر کہ اس رپورٹ کی کیا حیثیت ہے اور
اس میں کس قدر حقیقت ہے لیکن جوں جوں دو ہزار پندرہ نزدیک آتا جا رہا ہے
میرے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتی جا رہی ہیں۔یہ تو مجھے یقین ہے کہ سرکاری
سطح پہ اس رپورٹ کو کسی نے گھاس نہیں ڈالی ہو گی۔کہیں اس کا تجزیہ نہیں کیا
گیا ہوگا کہ ہماری حکومتوں کے پاس کرنے کے اور بہت کام ہیں۔
پاکستان میں دو ہزار آٹھ میں اقتدار پیپلز پارٹی کو منتقل ہواتو مجھے
اطمینان تھا کہ پاکستان اب درست سمت میں گامزن ہو گیا ہے۔بے نظیر کی المناک
موت کے بعد آصف علی زرداری نے جس ماحول میں پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا،میں
اسے متحدہ پاکستان کے مستقبل پہ آصف علی زرداری کا احسان سمجھتا ہوں۔زرداری
سیاستدان بھلے جیسا بھی ہو،پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے بھلے ہی کرپشن کے
ریکارڈ توڑے ہوں لیکن ان کی متحدہ پاکستان کے لئے یہ ایک بڑی قربانی اور
خدمت تھی۔سیاسی قیادت کے بعد فوجی قیادت بھی تبدیل ہوئی اور فوج نے سیاسی
حکومت کی مرضی و منشاء کے مطابق اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ہر سیاسی حکومت کی
یہ کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ہر ایک چیز کا کنٹرول
سنبھال لے۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی اسی طرح کی کوشش کی لیکن اس معاملے
میں انہیں ناکامی کا منہ اس لئے دیکھنا پڑا کہ ابھی ان کی اپنی ساکھ اتنی
نہ تھی کہ قوم اس تبدیلی کو قبول کر لیتی۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے
پانچ سال اس حال میں مکمل کئے کہ ایک میڈیا ہاؤس ہر روز حکومت کے جانے کی
خبر دیا کرتا تھا۔
پیپلز پارٹی کے پانچ سال بعد انتخابات کا ڈول ڈلا تو لوگوں کا خیال تھا کہ
عمران خان کی تحریک انصاف اگر سب سے بڑی پارٹی کے طور پہ نہ بھی ابھری تو
بھی دوسری بڑی پارٹی ضرور ہو گی۔تحریک انصاف کی انتخابی سیاست سے لا علمی
اور عدلیہ پہ اندھے اعتماد نے تحریک انصاف کے سونامی کے آگے بند باندھا اور
نواز شریف اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ تحریک انصاف جیتی ہوئی کئی
نشتستیں ہار گئی۔عمران خان نے ہار تسلیم کر لی۔نتائج بھی تسلیم کئے اور ملک
بھر سے صرف چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا۔اس کے لئے وہ الیکشن
ٹربیونل میں بھی گئے انہوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ۔بجائے
اس کے انہیں انصاف ملتا الٹا توہین عدالت کے چکر میں وہ اپنا سیاسی مستقبل
تباہ کرتے کرتے بچے۔
اس سے پہلے طاہر القادری اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دے کے نظام کی
تبدیلی کا مطالبہ کر چکے تھے۔انتخابات کے بعد قادری صاحب کی ساری باتیں سچ
ثابت ہوئیں اور وہی پرانے چہرے جو اس ملک کو پچھلے چونسٹھ سالوں سے چچوڑ
رہے ہیں دوبارہ نام اور پارٹیاں بدل کے اسمبلی میں پہنچ گئے۔نون لیگ اور
پیپلز پارٹی تو خیر ہیں ہی سٹیٹس کو کی علمبردار لیکن تبدیلی کے سب سے بڑے
دعویدار عمران خان کی پارٹی میں بھی اکثریت انہی رسہ گیروں چوروں اور
لٹیروں کی ہے جو پاکستان بننے سے لے کے آج تک پیران تسمہ پا کی طرح ہماری
گردن پہ سوار ہیں۔ گیارہ مئی کو طاہر القادری دوبارہ میدان میں ہیں۔اس کے
ساتھ ہی عمران خان بھی گیارہ مئی کو اسلام آباد میں جلسہ کر کے اپنے
کارکنوں کو سڑکوں پہ لانے کا اعلان کریں گے۔آئی ایس آئی اور جیو کا تنازعہ
بھی معمولی اس لئے نہیں کہ یہ صرف جیو کا معاملہ نہیں اس کے پیچھے بہت سے
بین الاقوامی غنڈے ہیں جو ریاست کے خلاف اس فیصلے کو استعمال کریں گے۔
دوسری طرف طالبان سے مذاکرات کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹی پڑی ہے۔حالات
آپریشن کی طرف جا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم نے ہمیشہ پریشر گروپ کے طور پہ کام
کیا لیکن اب کی بار عمران فاروق قتل کیس کی وجہ سے وہ خود پریشر میں ہے اور
اس کی جان ان دو طوطوں میں اٹکی ہوئی ہے جو حکومت کی تحویل میں ہیں۔گجرات
کے چوہدری بھی عمران قادری احتجاج میں شریک ہونے کا عندیہ دے چکے۔حکومت کے
تعلقات اس کے اداروں کے ساتھ بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں۔اس طرح کے بے شمار
عوامل ہیں جنہیں دیکھ کے حکومت کے مستقبل کی پیش گوئی کچھ زیادہ مشکل نہیں۔
مجھے اس پنکچروں والی حکومت سے کوئی خاص دلچسبی نہیں ۔ڈر اس بات کا ہے کہ
کہیں ہمارے احتجاج سے دشمن فائدہ نہ اٹھائیں۔کہیں ملک کو نقصان نہ
پہنچے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ پنڈی اور لاہور کے درمیان کی پٹی ہمارے پاس بچ
رہے اور ہم اسے ہی پاکستان کا نام دے کے خوش ہو رہے ہوں۔آخر میں سردار شمیم
کا ایک انتہائی حسب حال قطعہ جو میرے دل کا ترجمان ہے
لگتا ہے مجھے یہ بات کہتے ہوئے ڈ ر کچھ
آشوبِ سیاست کا برا ہو نہ اثر کچھ
آزادیِ جمہور کا پودا ہے ابھی خام
کڑوا نکل آوئے ناں کہیں اس کا ثمر کچھ |