بڑی دھوم مچی ہوئی ہے۔اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کو
دیکھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے گیارہ مئی کو تاج اچھلنے والے ہیں
اور تخت گرائے جانے والے ہیں……لیکن جب زمین حقائق کا جائزہ لیتا ہوں تو
منظر کچھ اور ہی ابھرتا ہے…… عوامی تھڑوں پر بیٹھنے کے بعد اور عوامی سیاست
کے اصلی ایکسپرٹ یعنی ماہرین سیاسیات کو ٹٹولنے کے بعد عقدہ کھلتا ہے کہ
گیارہ مئی کو کسی عوامی تحریک کا آغاز نہیں ہونے والا ہے……بڑا تیر مارا تو
چند بڑے شہروں کے بڑے چوکوں میں قابل تحریر تعداد کے ساتھ مظاہرے اور جلوس
نکل سکتے ہیں۔
عمران خاں اور علامہ طاہر القادری کے شو کو ’’ وتھ‘‘ یعنی اوقات میں رکھنے
کا زیادہ تر دارومدار وزیر داخلہ چودہری نثار علی خاں کی مرضی و منشاء پر
ہوگا، اگر تو انہوں نے تمام تر سکیورٹی انتظامات کے ساتھ ریلیوں ،مظاہروں
اور جلوسوں کو نکلنے دیا تو پھر ’’ستے ای خیراں نئیں‘‘ شرکاء اپنی دل کی
بھڑاس نکال کر اور گلے پھاڑ پھاڑ نعرے لگائیں ۔ لنگر پانی کرنے کے بعد جیسے
آئیں گے، ویسے ہی اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں گے……ہاں اگر ان برگر جیالوں
اور متوالوں کو چھڑی دکھائی گئی تو چھوٹا موٹا گڑبر کا واقعہ بھی رونما ہو
سکتا ہے۔
وزیر اعظم نے گذشتہ روز عمران خاں کو وزیر اعظم ہاوس آنے کی دعوت دیکر چائے
کافی پلانے کی بات جس طریقے سے کی ہے وہ بے وقت بھی تھی اور اس بات کا
اظہار بھی کہ وزیر اعظم کو ابھی تک معلوم ہی نہیں کہ عمران طاہرالقادری اور
ان کے دیگر ہمنوا کیا چاہتے ہیں ۔گیارہ مئی کو سڑکوں پر آنے کا انکا مقصد
کیا ہے۔ وزیر اعظم کی یہ لاعلمی انکے غیر سنجیدہ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ اگر
دیکھا جائے تو عمران خاں کی باتیں سو فیصد درست ہیں۔ اگر عمران خاں کی
ڈیمانڈ پر چار انتخابی حلقوں میں انگوٹھوں کی جانچ پڑتال کرانے میں حرج ہی
کیا ہے؟
وزیر اعطم کو چاہیے کہ وہ اپنے ایم این ایز کو ہدایت کریں کہ وہ الیکشن
ٹربیونلز کے کام میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے ہائی کورٹس میں دائر اپنی
اپیلیں واپس لینے کے احکامات دیں تاکہ معاملات جمہوری انداز مین آگے بڑھائے
جا سکیں۔الیکشن ٹربیونلز کے احکامات کے خلاف مسلم لیگی ارکان اسمبلی کا
ہائی کورٹس میں اپیلیں دائر کرنے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ مسلم لیگ نواز
کمزوروکٹ پر کھیل رہی ہے۔ اور عدلیہ میں موجود اپنے روائتی حلیفوں کی مدد
سے اپنے حق مین فیصلے کروانے کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ جو
جمہوریت پر عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے اور اسے متزلزل کرنے کا باعث بن
رہا ہے۔اس سے قبل کہ حکومت کو عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے حکومت کو
ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس سے عوام میں احساس پیدا ہو کہ ملکی معاملات
جمہوری انداز مین چلائے جا رہے ہیں۔
اگر حکومت اور اپوزیشن کی جماعتوں نے ہوش کی بجائے جوش سے کام لینے کو
ترجیح دی تو معاملات بگڑ بھی سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بااختیار لوگوں یعنی
حکومت پر زیادہ ذمہ دایاں عائد ہوتی ہیں ب۔ہ نسبت کمزور وں کے یعنی اپوزیشن
میں شامل سیاسی جماعتوں کے…… وزیر اعظم اور مسلم لیگ نواز کے دوسرے رہنما
اپنے پیش رو زرداری کو ہی دیکھ لیں کہ انہون نے کس ذمہ داری کے ساتھ اپنی
مدت اقتدار پوری کی ہے۔ ان سے ہی عقل لے لی جائے تو کوئی حرج نہیں…… مقصد
جمہوری اداروں کا استحکام ہونا چاہیے نہ کہ اپنی ذاتی آرزووں کی تکمیل مقصد
اولین قرار دیا جائے- |