ایک ایسے وقت میں جب ملک عدم استحکام کا شکار ہے،ایک طرف
طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ مزید طوالت اختیار کرتا جارہا ہے، اس
معاملے کا انجام کیا ہوگا کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ دوسری جانب ملک کے سب سے
بڑے میڈیا گروپ اور خفیہ ادارے کے درمیان چپقلش بھی کئی روز سے اخبارات اور
چینلز میں نمایاں ہے، اسی ضمن میں حکومت اور فوج میں بھی اتفاق نہ ہونے کی
باتیں کی جارہی ہیں، اس کے ساتھ ملک میں کئی بڑے مسائل بھی بدستور اپنی جگہ
قائم ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر مصر، شام، بنگلا دیش اور دیگر کئی ممالک میں
مسلمانوں کی حالت زار کوبھی کسی طور تسلی بخش نہیں کہا جاسکتا۔ ان حالات
میں پہلی بار جمہوریت سے جمہوریت کی جانب منتقل ہونے والی موجودہ حکومت کی
پہلی سالگرہ گیارہ مئی پر اس کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا۔ایک طرف
ڈاکٹر طاہرالقادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک نے ملک کے مختلف شہروں میں
احتجاج کیا،احتجاج میں ویڈیو لنک کے ذریعے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے عوامی
تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ آئین پاکستان کی رو سے
موجودہ حکومت اور نظام کا خاتمہ واجب ہو چکا، ملک کا انتظامی ڈھانچہ مکمل
طور پر تبدیل کرنا ہوگا۔ خیال رہے کہ قادری صاحب الیکشن سے قبل بھی اسلام
آباد میں اپنے کارکنوں کو حسینی اور حکومت کو یزیدی قرار دیتے ہوئے پانچ
روز تک دھرنا دینے کے بعد ”حسینی“ لشکر کے سربراہ قادری صاحب نے” یزیدی“
گروہ حکومت سے مذاکرات کرلیے تھے اور ہاتھ کچھ نہ آیا تھا۔ دوسری جانب
گیارہ مئی کو تحریک انصاف نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی جماعت پاکستان عوامی
تحریک اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کے ساتھ مل کر عوامی طاقت کامظاہرہ
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاو ¿س کے سامنے واقع ڈی چوک میں
کیا۔ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب تک نئے الیکشن
کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ پورا نہیں کیا جاتا، تب تک ہر جمعہ کو الیکشن
کمیشن کے سامنے مظاہرہ کرتے رہیں گے، گزشتہ سال گیارہ مئی کو دھاندلی کر کے
نئے پاکستان کا راستہ روکا گیا۔ پی ٹی آئی اور اس کی ہمنوا جماعتوں نے ریلی
کے شرکا کی تعداد ہزاروں میں بتائی ہے، لیکن سرکاری حکام اور میڈیا کے
نمائندوں کے مطابق ریلی کے شرکا کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ مسلم
لیگ ن کے وفاقی و صوبائی وزرا نے تحریک انصاف اورڈاکٹر طاہر القادری کے
جلسوں کو فلاپ شو قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوام نے احتجاج کی سیاست کو مسترد
کر دیا، سونامی اور کنٹینر بابا کے شو بری طرح ناکام ہو گئے ہیں، صرف چند
ہزار افراد کی شرکت نے دونوں کو اصلیت یاد کرا دی۔احتجاج کرنے والے عناصر
قوم پر رحم کریں، عوام کے لیے طاہر القادری کینیڈا کی سر د فضاؤں اور عمران
خان محل کو چھو ڑیں۔
گیارہ مئی کے احتجاجی جلسوں کے پیش نظر سیاستدان اور مبصرین کا کہنا تھا کہ
کہیں غیر جمہوری طاقتوں کو آپس میں ملانے میں وہ خفیہ عناصر ملوث تو نہیں
جو پاکستان میں جمہوریت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق ان
حالات میں کسی طور بھی حکومت کو گرانے کی کوشش کرنا درست نہیں ہے۔ طاہر
القادری تو شہریت ہی غیر ملکی رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی سیاسی جماعت
ملک میں رجسٹرڈ ہے، پھر وہ کس طرح موجودہ حکومت اور موجودہ سیاسی نظام کے
خاتمے کی بات کرسکتے ہیں؟ اس قسم کی کوششوں سے جمہوریت کو نقصان پہنچتا ہے
اور بالآخر انجام حکومت کے خاتمے پر ہوتا ہے۔ برطانیہ کے اخبار دی میل نے
تو اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ عمران خان کے احتجاج کا مقصد حکومت کو کمزور
کرنا ہے۔ فوج اور سویلین حکومت میں مشترکہ طور پر امن کے حصول کے لیے بندوق
کی بجائے بات چیت کا راستہ اپنانے پر اتفاق ہے۔ انتخابی کمیشن سے ریٹرننگ
افسران تک، میڈیا سے عدلیہ تک، گزشتہ حکومت سے لے کر موجودہ حکومت تک عمران
خان کو ہر ایک کے ساتھ مسئلہ ہے۔ عمران خان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر
دعوے کے لیے ثبوت چاہیے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان کو خود جمہوریت کا
حصہ ہوتے ہوئے وفاقی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور اس
کے ساتھ ان کو الیکشن کمیشن اور چار سیٹوں پر دھاندلی کو بنیاد بنا کر
واویلا بھی نہیں کرنا چاہیے، اتنے بڑے پیمانے پر انتخابی اصلاحات کے لیے
احتجاج اس وقت کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، بلکہ اپنے کارکنوں کی توانائیوں کو
ضائع کرنے کے مترادف ہے، اگر یہ سب کچھ اگلے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل کیا
جاتا تو اس کا اثر بھی پڑتا، لیکن پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کا کہنا
ہے کہ تحریک انصاف نے صرف چار حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا
تھا، لیکن سال گزرنے کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جس کے جواب میں وفاقی
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کہتے ہیں کہ عمران خان کے مطالبات حکومت سے
نہیں ہیں، مگر پھر بھی حکومت کے دائرہ اختیار میں جو کچھ ہے وہ کرنے کو
تیار ہیں۔ انھیں اعتراضات ہیں، تو الیکشن ٹربیونلز سے، الیکشن کمیشن سے ہیں،
کوئی ایسا اِختیار حکومت کے پاس نہیں ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے پاس ہے، اعلیٰ
عدالتیں آزاد ہیں۔ حکومت تو کچھ نہیں کر سکتی۔ فافین کے سربراہ مدثر رضوی
نے بھی واضح کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے درخواستیں ٹربیونلز کو
تاخیر سے بھجوائی گئیں۔ تاخیر کی تین وجوہات ہیں۔ ٹربیونلز کے فیصلے پر
اعلیٰ عدلیہ نے حکمِ امتناعی دیا ہوا ہے۔ پنسٹھ سے ستر فیصد درخواستیں ایسی
ہیں جو تصدیق کے لیے حکومتی اداروں جیسے نادرا یا ہائیئر ایجوکیشن کمیشن
میں گئی ہوئی ہیں اور بعض معاملات میں درخواست گزار ہی سستی کر رہے ہیں۔ اس
کے علاوہ اگر الیکشن کمیشن میں کوئی خامی ہے بھی تو اس کو پارلیمانی طریقے
سے ختم کرنا چاہیے، نہ کہ احتجاج کے ذریعے۔
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے
خیال میں بھی انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج پارلیمان میں رہ کر کیا
جانا چاہیے نہ کہ سڑکوں پر۔ گیارہ مئی کو ملک میں احتجاجی جلسوں کے بارے
میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ غیر جمہوری عناصر
کا متحد ہونا کسی خطرے سے کم نہیں۔ تحفظات کے باوجود ہم نے انتخابی نتائج
تسلیم کیے، کیونکہ جب بھی انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا اور سڑکوں پر
احتجاج ہوا، اس سے فائدہ غیر جمہوری طاقتیں نے ا ±ٹھایا اور جمہوریت کو
نقصان پہنچا ہے۔ وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ کا بھی کہنا تھا کہ
دھاندلی کا شور مچانے والے عدالتوں سے رجوع کریں، ملک کو تہس نہس نہ کریں،
جمہوریت کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے ، احتجاج کرنے والے عوام کے
مسائل میں اضافہ نہ کریں، 4 سال بعد عوام اپنے ووٹ کے ذریعے اپنا فیصلہ دے
دیں گے۔ پاکستان میں جمہوریت پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلیڈیٹ کے
چیئرمین کے خیال میں الیکشن کمیشن اور انتخابی نظام کو شفاف بنانے کے لیے
پارلیمان میں رہتے ہوئے کوشش کرنی چاہیے۔ مسئلہ ہے تو ا ±سے حل کرنے کے لیے
قانون بنانا پڑے گا۔ کوئی ترمیم لانا پڑے گی۔ پارلیمنٹ میں تو تحریک انصاف
خود بھی ہے، وہ ترمیم لا سکتے ہیں، قانون لاسکتے ہیں، لیکن یہ راستہ انھوں
نے بالکل چھوڑ دیا ہے۔ ماضی میں سڑکوں سے شروع ہونے والی تحریکوں کو
جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ وزیرِ قانون رانا ثناءاللہ
کے مطابق بھی اس طرح کی تبدیلیوں کے لیے صرف پارلیمنٹ ہی واحد فورم ہے،
تحریک انصاف کو ایوان میں اپنی موجودگی کو استعمال میں لانا چاہیے۔ اس کام
کے لیے ملک بھر سے لوگوں کو جمع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
مبصرین کے مطابق تحریک انصاف نے جلسے میں لوگ تو جمع کرلیے، لیکن کئی چیزیں
غیر واضح محسوس ہوئیں کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں۔ کیا وہ چار انتخابی حلقوں
میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی چاہتے تھے؟ یا پھر وہ ان حلقوں میں دوبارہ
انتخابات کا انعقاد چاہتے تھے؟ یا پھر بعض ناقدین کے بقول عمران خان اس
نظام کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کررہے ہیں؟ چار انتخابی حلقوں میں ووٹوں کی
دوبارہ گنتی کے مطالبے کو دیکھا جائے تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آخر اپنے اس
مطالبے کو لے کر پی ٹی آئی کو ملک بھر میں جلسوں کے ایک سلسلے کا منصوبہ
بنانے کی ضرورت کیوں پڑی ہے۔ حالانکہ پی ٹی آئی کی پارلیمنٹ میں ایک موثر
موجودگی ہے، الیکشن کمیشن اور انتخابی عمل کی اصلاح اور اس کو مضبوط بنانے
کے لیے آخر وہ قانون میں تبدیلیوں کو کیوں نہیں متعارف کرواتی؟ اس کی بجائے
وہ کیوں اسٹریٹ پاور کا سہارا لے رہی ہے؟ مزید یہ کہ اس کے مطالبات میں کچھ
کا مفہوم بھی واضح نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اب اس
بات کو یقینی بنا دیا گیا ہے کہ مرکز اور صوبوں میں نگران حکومتوں کا
انتخاب کے لیے حکومت اور حزب اختلاف مشترکہ طور پر فیصلہ کریں گے۔ کیا
عمران خان کے الفاظ کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ وہ اتفاقِ رائے ناکافی تھا؟ آخر
وہ پارلیمنٹ کا استعمال کرتے ہوئے ان معاملات کو اجاگر کیوں نہیں کرتے؟ اسی
طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا مطالبہ وہ پارلیمنٹ
میں لے جاسکتے تھے۔ اس طرح کے مطالبات کے لیے ملک گیر احتجاج کی ضرورت ہی
نہیں ہے۔ نجانے پھر بھی عمران خان کیوں احتجاج کا سہارا لے رہے ہیں۔ معلوم
ہوتا ہے کہ اس طرح کے جلسوں سے سیاست ایک بار پھر نوے کی دہائی میں لوٹ
جانے کا خطرہ ہے، حالانکہ اب آگے بڑھنے کا وقت ہے، ان حالات میں تو یہ ہونا
چاہیے کہ وہ خود خیبر پختوانخوا میں اور مسلم لیگ (ن) کو وفاق میں کام کرنے
دیں، چار سال بعد فیصلہ عوام خود ہی کردیں گے۔
|