گزشتہ رات جوابدہ کے اینکر جناب افتخار احمد کے ایک ٹویٹ
کے جواب میں ان سے میں نے پوچھا کہ جناب آپ جمہوریت کی تعریف بتا دیں تو
مہربانی ہو گی۔ موصوف نے مجھے تحریک انصاف کا ورکر سمجھ کر ٹویٹ کیا کہ
تحریک انصاف کے ورکرز کے نزدیک جمہوریت کی کیا تعریف ہے؟ انکی خدمت عالیہ
میں جمہوریت کی تعریف آکسفورڈ ڈکشنری کو کنسلٹ کرکے پیش کی تھی۔ جناب کی
خدمت میں گزارش ہے کہ صرف انتخابات کا نام ہی جمہوریت نہیں ہے۔ اگر صرف
انتخابات کا نام جمہوریت ہے تو جمہوریت کی نرسری تو بلدیاتی انتخابات کو
کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ موصوف میرے علم میں اضافہ فرمائیں اور بتائیں کہ
آخری بار بلدیاتی انتخابات کب ہوئے تھے ؟ آپ کے پاس فون کی سہولت ہے، آپ
جناب ابصار عالم اور ان جیسے دیگر صحافیوں کو فون کرکے پوچھ سکتے ہیں۔ مجھے
کامل یقین ہے کہ آپ اور آپکے ساتھیوں کا جواب ہوگا کہ بلدیاتی انتخابات
آخری بار پرویز مشرف کے دور میں ہوے تھے۔ اگر صرف انتخابات کا نام جمہوریت
ہے تو جناب مشرف دور ان جگادڑیوں سے زیادہ جمہوری دور تھا۔ اگر آپ کو
لائسنس چینلز کے مشرف نہ دیتا تو آج بھی نام نہاد صحافی چھوٹے بزنس مینز کو
بلیک میلز کر رہے ہوتے یہ مشرف کا ہی احسان ہے کہ آج کالے کیمرے کی طاقت سے
آپ حکومتوں کو گرا بھی سکتے ہیں، اور پنکچر لگا کے بنا بھی سکتے ہو۔ لیکن
احسان فراموش کہہ دیتے ہیں کہ آذادی صحافت ہماری جدوجہد کا نتیجہ ہے، کیا
آپ نے یہ جدوجہد نام نہاد جمہوری ادوار میں نہیں کی تھی؟ شرق سے غرب ، شمال
سے جنوب تک اس آلم رنگ و بو میں نظر دوڑائیں تو آپکو اس دنیا کے نقشہ پر
واحد ملک پاکستان ہی نظر آئے گا کہ جہاں جمہوریت کے لئیے جدوجہد کرنے والوں
کی بھرمار ملے گی، اور ان جدوجہد کرنے والوں میں سیاستدان، اور صحافی بھی
شامل ہیں۔ جسکی بھی دم پر پاؤں رکھیں وہی گلا پھاڑ کہ کہتا کہ میں نے
جمہوریت کے لئیے بڑی جدوجہد کی ہے اور قربانیاں بھی دی ہیں۔ لیکن زمینی
حقائق انکا منہ چڑاتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جوں جوں یہ جدوجہد کرتے ہیں
توں توں جمہوریت پاکستان سے دور بھاگتی ہے اور آج بھی جمہوریت اور پاکستان
کے درمیان اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں میل کا فاصلہ ضرور ہے۔ میری ناقص عقل
و رائے کے مطابق اس سب کی دو وجوہات ہیں، اول یہ کہ یہ جدوجہد کرنے والے
جھوٹ بولتے ہیں انھوں نے کبھی بھی حقیقی جمہوریت کے لئیے جدوجہد نہیں کی
صرف پیٹ اور مفاد کے لئیے ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔ سیکنڈلی اگر انھوں نے
واقعی جدوجہد کی ہے تو پھر انکی سمت درست نہ تھی، یا یہ جانتے ہی نہیں کہ
جمہوریت ہے کس بلا کا نام ؟ یہ الیکشن المعروف سلیکشن کو جمہوریت سمجھتے
ہیں۔ حالانکہ جمہوریت اپنی خصوصیات و خوبیوں سے جانی و پہچانی جاتی ہے، جن
میں قانونی برابری، آذادی اظہار، قانون کی حکمرانی ، لاء اینڈ آرڈر، جان و
مال کا تحفظ ، بنیادی ضروریات کی فراہمی، جمہوریت کی بنیادی خصوصیات ہیں۔
اگر کوئی بھی جمہوری مجاہد پاکستانی نام نہاد جمہوریت میں ان خصوصیات کا
عشر عشیر بھی دکھا دیں تو مری سزا موت ہے اگر نہ دکھا سکیں تو انکو مرنے کا
نہیں کہوں گا صرف اتنا کہوں گا کہ شرم کرو اور چند خاندانوں کی بادشاہت کو
جمہوریت کہہ کر جمہوریت کو گالی مت دیں۔ اور چند ڈنڈے کھا لینا اور چند دن
جیل میں چلے جانا انکی قربانیاں ہیں۔ اسطرح کی جدوجہد ایک ہزار سال بھی کر
لو حاصل کچھ نہیں ہوگا۔ یہ جدوجہد کوہلو کے بیل والی ہے جو ایک دائرے میں
گھومتا رہتا ہے۔ میری ان جمہوری مجاہدوں سے گذارش ہے کہ اپنی اس لاحاصل
جدوجہد کا رعب ہم پر نہ ڈالا کریں آپکی جدوجہد سے آپکی آئینی ترامیم سے
ہمیں نہ کچھ ملا ہے نہ ملنے کی امید ہے۔ ہم پر رعب وہ ڈالے جس نے پاکستان
اور قوم کی کوئی خدمت کی ہے، ہم پر رعب اگر ڈالنا ہے تو جناب عبدالستار
ایدھی ڈالے جس نے دکھی انسانیت کی خدمت کی، ڈاکٹر ثمر مبارک مند، ، ڈاکٹر
قدیر ڈالے جس نے ایٹم دیا، عمرآن خان رعب ڈالے جس نے ورلڈکپ اور کینسر
ھسپتال قوم کو دیا، اگر کسی نے ہم پر رعب ڈالنا ہے تو شہداء کی مائیں ہم پر
ڈالیں جنھوں نے اپنے لخت جگر وطن کی حرمت پر قربان کر دیے، عرفا کریم کے
ورثا رعب ڈالیں جنکی دختر نے آئی ٹی کے میدان میں ملک و قوم کا نام روشن
کیا، تمھارے جمہوری سوداگروں نے ملک کے سبز ہلالی پرچم پر منی لانڈرنگ، سرے
محل اور کرپشن کے دھبے ہی لگائے ہیں۔ آخر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ
میڈیا نام نہاد جمہوریت کے گن کیوں گاتا ہے؟ کیونکہ یہ نام نہاد جمہوریت
عوام کے لئیے ہے ہی نہیں یہ صرف اشرافیہ کے لئیے ہے اور میڈیا پرسنز بھی
اشرافیہ میں شامل ہے تو اس کے ثمرآت ان تک بھی پہنچتے ہیں اور جو جسکا
کھاتا ہے اسکا گاتا بھی ہے۔ میر شکیل الرحمان کے ادارے پر عمرآن خان نے
الزامات لگائے تو شاہ سے زیادہ اس کے وفادار افتخار احمد نے خان کو چیلنج
کر دیا۔ کیوں ؟ کیا عمرآن خان نے اسکے والد محترم کی پگڑی کو ہاتھ ڈالا تھا
؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر تو معاملہ نوکری ، روٹی اور باس کے دفاع کا
ہے۔ کل یہ شخص کسی اور چینل میں چلا جائے گا تو پھر نئے باس کا دفاع کرے گا۔
صحافت و نظریہ کہاں گیا ؟ پاکستان کی بد نصیبی کہ یہ مفادیوں کے نرغہ میں
ہے۔۔۔۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ |