سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں
امریکی ٹی وی این بی سی کے پروگرام "میٹ دی پریس"میں کہا تھا کہ انھیں ایسی
اطلاعات ملی ہیں کہ بعض ایسے اہلکار اور آفیسر یا کچھ اور لوگ جو 1979ء سے
1989ء تک آئی ایس آئی میں اہم عہدوں پر فائز تھے اور اب معزول یا ریٹائر
ہوچکے ہیں وہ ہوسکتا ہے ،یہاں اور وہاں (پاکستان اور افغانستان میں مغربی
ممالک کے ناپسندیدہ) افراد کی مدد کررہے ہوں ، ۔انھوں نے یہ جواب اِس سوال
پر دیا کہ کیا آئی ایس آئی افغانستان میں معزول کی گئی طالبان حکومت کی
حامیوں اور اہم کرداروں کی مدد کر رہی ہے ؟۔سابق صدر نے اس عزم کا بھی
اعادہ کیا تھا کہ اگرایسے لوگ ، ایسی سرگرمیوں میں مبتلا پائے گئے تو ان پر
جلد قابو پالیا جائے گا۔یقینی طور پر ایسے الزامات کاسامنا ، پاکستانی حساس
ادارے کو امریکہ اور برطانیہ کیجانب سے رہتا ہے ، کیونکہ حساس ایجنسیوں کے
فارغ شدہ اہلکاروں کی، اگر ایسی کوئی مصروفیات ہوتی ہیں تو ، بادی النظر
یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ افراد حکومت کی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔
کچھ اسی قسم کی رپورٹ کچھ عرصہ قبل برطانوی وزرات داخلہ کی جانب سے جاری
کرتے ہوئے ، آئی ایس آئی کو ختم کرنے کامطالبہ کیا گیا تھا کہ آئی ایس آئی
کے بعض معزول یا ریٹائرکئے گئے عہدیداروں کیخلاف القاعدہ کی پشت پناہی کے
شواہد ملے ہیں۔تاہم پاکستان کیجانب سے اِن تمام الزامات کی سختی سے تردید
کرتے ہوئے ، ایسی تمام رپورٹس کو لغو اور بے بنیاد قرار دیا گیا تھا ، یہی
وطیرہ ہمیشہ بھارت کیجانب سے بھی روا رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں ہونے
والی ہر دہشت گردی کے واقعات میں بنا تحقیق ، پاکستانی ایجنسیوں کو ملوث
قرار دیتا آرہا ہے ،۔دہشت گردی کے عفریت سے پاکستان اس خطے میں سب سے زیادہ
متاثر ہے اور اس کی بنیادی وجہ افغانستان میں بے امنی اور امریکی جارحیت ہے
، لیکن اس کے باوجود کہ پاکستان، دہشت گردی کی پرائی جنگ اپنی جنگ میں
تبدیل ہونے سے سب سے زیادہ متاثر ہے ، تو افغانستان کیجانب سے بھی اس حقیقت
کا ادارک کئے بغیر ، دہشت گردی کی کاروائیوں میں پاکستان کو ملوث کرنے کے
الزامات آتے رہتے ہیں۔
پاکستانی ایجنسیوں کو صرف بیرون ملک ، عالمی طاقتوں اور ممالک کیجانب سے ہی
الزامات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ، بلکہ بلوچستان کی بد امنی کا عمومی ذمے
دار بھی ایجنسیوں کو قرار دیا جاتا ہے۔یہ درست ہے کہ کسی بھی عسکری طاقت
کیلئے محض اسلحے کی بہتات یا ٹیکنالوجی کا حاصل کرلینا کافی نہیں ہوتا ،بلکہ
اس کی استعداد کارـ کا تمام تر درومدار ، ایجنسیوں کی رپورٹ پر مشتمل ہوتا
ہے ۔پاکستانی ایجنسیوں پر الزامات کا بنیادی وجہ ،ا نھیں متنازعہ بنا کر
عوام کے اعتماد میں کمی اوردہشت گردی کی مختلف کاروائیوں میں پاکستانی حساس
اداروں کو ملوث کرنے کا بنیادی مقصد ، اورحساس ادارے کی مخالفت کی آڑ میں
پاکستانی ریاستی نظام کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔حساس ادارے ملک وقوم کے
رازوں کے امین ہوتے ہیں ،حساس اداروں کے ذمے داران ، ملک دشمن عناصر کی
لمحہ بہ لمحہ سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے اپنے جاسوسوں کے ذریعے ،ملک
دشمنوں کے رہن سہن ،تمدنی اور سیاسی انتظامی معاملات پر گہری نظر رکھتے
ہیں۔اگر یہ محکمہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کمزور ہوجائے تو ملک دشمن
عناصر کو اپنی مذموم کاروائیاں کرنے کا بھرپور موقع مل جاتا ہے۔تاریخ گواہ
ہے کہ کسی بھی قوم کے سُپر بننے میں تمام شعبوں میں مہارت اور عبور
پاناضروری ہے ، جب تک تمام ضروری شعبوں ،مثلا جنگی فنون ، تعلیم ، انتظامی
اور نظام جاسوسی وغیرہ میں دوسری اقوام کے مقابلے میں خودکفالت پیدانہیں کی
جائے ، اُس وقت تک ایک ترقی یافتہ مملکت بننے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر
نہیں ہوسکتا۔
امریکی ادارے سی آئی اے ،جو کئی دہائیوں پر مشتمل ایک تاریخ رکھتی ہے ، اس
کی پالیسوں کی بنا ء پر امریکہ کے دفاع کا دارومدار ہے۔ایسی طرح اسرائیل کو
دیکھ لیں تو ، صاف عیاں ہوجاتا ہے کہ ، وہ بھی اپنے حساس اداروں کی بنا ء
پر مشرق وسطی میں اپنی مرضی چلا رہا ہے اور عرب ممالک ، دولت سے مالا مال
ہونے کے باوجود ، اسرائیل کی ہٹ دھرمیوں کو روکنے میں صرف ایسی لئے ناکام
نظر آتے ہیں کیونکہ ان کا بنیادی شعبہ جاسوسی کمزوری کا شکار ہے ، ان ممالک
کے حساس اداروں کی تمام تر توجہ صرف اپنے عوام کی جانب مبذول رہتی ہے کہ
کہیں ، عوام بادشاہت کے خلاف بغاوت کی جانب تو گامزن نہیں ہیں۔اگر ان کے
ادارے بھی اسرائیل اور امریکہ کے طرح فعال ہوتے تو ، کم افرادی قوت والوں
کو اپنی حدود میں رکھنے اور خطے میں امن کے قائم رکھنے میں کامیاب ہوجاتے۔
پاکستانی کی آئی ایس آئی ایجنسی دنیا کی بہترین انٹیلی جنس شمار کی جاتی ہے
، بھارت تو اس ادارے سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ ایسے بھارت میں ہونے والی ہر
کاروائی میں صرف آئی ایس آئی کا ہاتھ نظرآتا ہے۔جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ
بھارت میں علیحدگی پسند تحریکوں اور اقلیتوں کیساتھ کی جانے والی نا
انصافیوں کی بنا ء پر بھارت کو اپنا نظم و نسق چلانے میں ناکامی کا سامنا
ہے ، جبکہ افغانستان کو یہ سوچنا چاہیے کہ ،پاکستان اس کا ہمسایہ مسلم ملک
ہے ، افغانستان کے امن سے ،پاکستان کا امن وابستہ ہے،اور افغانستان کی
سرزمین پر امریکہ سمیت نیٹو ممالک، جارحیت کرکے قابض ہوئے ہیں ، تو
اٖفغانستان کی اپنی تاریخ کے مطابق ، پختون عوام اپنی سرزمین پر بیرونی
جارحیت برداشت نہیں کرتے ، اسلئے نیٹو ممالک اور امریکہ نوا افغان حکومت کے
خلاف ، وہاں کے عوام کا فطری ردعمل ہے،جسکی روک تھام میں ناکامی پاکستان کے
سر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔انہی کے پروپیگنڈوں اور ملکی غداروں کے ساتھ
ملکر ، ملک سا لمیت کے خلاف ، ملکی دہشتگردی کی کاروائیوں کو بھی پاکستانی
اداروں کے سر پر ڈال کر ملک میں افراتفری اور اداروں سے عوام کا اعتماد ختم
کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، جیسے بد قسمتی سے ، ملک کے چند مقتدور شخصیات کی
حمایت بھی ہوتی ہے۔
ہمیں تمام ملبہ صرف حساس اداروں پر ڈال کر یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ
مملکت کو بیرونی خطرات سے بچا لیا گیا ۔یقینی طور ہر انسان سے انفرادی
غلطیاں بھی ہوتی ہیں ، اور اس امکان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا
کیونکہ عوام کی جانب سے اداروں کے ساتھ تعاون مثالی نہیں ہے ، حساس اداروں
کو معلومات پہنچانے کا بہم ذریعہ بھی عوام ہی ہیں ، اگر عوام اپنے اردگرد
ہونے والے واقعات ، اور مشکوک عناصر کی نشان دہی کرنے سے کوتاہی برتیں گے
تو ، ملک میں ہونے والی بے امنی اور دہشت گردی کے واقعات کو صرف چند افراد
پر مشتمل ادارے روکنے میں قطعی کامیاب نہیں ہوسکتے ، دہشت گردی ، کا خاتمہ
کرنا ہے تو عوام کو اپنے ذمے داری کا حساس کرنا ہوگا اور اس جنگ کو محض ،
کسی فریق کی جنگ کے بجائے اپنی جنگ سمجھنا ہوگی۔جب تک عوام متفق ہوکر باہمی
اتحاد کا مظاہرہ نہیں کریگی ، اُس وقت تک دہشت گردی کا قلع قمع کرنا محض
ایک خواب ِ بے تعبیر ہی رہیگا۔
حساس ادارے مملکت کی دفاع کیلئے فرنٹ لائن ہے ایسے سطحی بنیادوں پر تنقید
کا نشانہ بنانے سے ارضِ پاک کے دشمنوں کو تو فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن اس
عمل سے ملک وقوم کی کوئی خدمت سر انجام نہیں دی جا سکتی ہمیں بیرونی
ایجنڈوں کا دانستہ یا غیردانستہ آلہ کار بننے سے گریز کی راہ اختیار کرنی
چاہیے اور اپنے عسکری اداروں کی نیتوں پر شکوک کرکے ملکی بنیادوں کو کمزور
کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ |