ملک کو درپیش دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان نے
حال ہی میں قومی اسمبلی میں تحفظ پاکستان کے نام سے ایک بل پاس کیا جس کو
قومی اسمبلی کے بعد سینٹ میں پاس ہونے کے لیے پیش کردیا گیا اس بل کی رو سے
ملک کی خفیہ ایجنسیاں کسی بھی شخص کو شک کی بنیاد پر نی صرف گرفتار کرسکیں
گی بلکہ گرفتاری کے بعد 90دن تک کسی یا نامعلوم مقام پر اپنی تحویل میں
رکھنے کی مجاز ہوں گی۔ اس کے علاوہ اس قانون کے تحت ملکی خفیہ ادارے بوقت
ضرورت کسی مشکوک شخص کو موقع پر گولی ماردینے کی بھی مجاز ہوں گی۔
حکومت نے قومی اسمبلی میں تو اپنی اکثریت کی بناء پر اس بل کو منظور کرلیا
مگر سینٹ میں اس کی بھرپور مخالفت کی جارہی حکومت ہر سطح پر اس بل کی حمایت
کررہی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں اس بل کی نہ صرف بھرپور مخالفت کررہی ہیں
جبکہ اس بل کو ہر سطح پر چیلنج کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ اپوزیشن کے ساتھ
اتھ ملک کی تمام تر مذہبی جماعتیں بھی اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے سراپا
احتجاج ہیں۔حکومت کی جانب سے اس بل کا دفاع کرتے ہوئے وزیر اطالعات پرویز
رشید کا کہنا ہے کہ یہ بل دور حاضر کی ضرورت بن چکا ہے اور دہشتگردی کی روک
تھام کے لیے ناگزیر ہے اور امریکہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اور
امریکہ میں بھی ایسے قوانین موجود ہیں کو پرتشد واقعات کو روکنے میں مدد
گار ثابت ہوئے ہیں بھارت میں یہ قانون ٹاڈا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مگر
شاید پرویز رشید صاحب اس بات کو بھو ل گئے ہیں جو وہاں کے مسلمانوں کے گلے
کا کانٹا بنا ہوا ہے اسی قانون کی آڑ میں بھارتی درندے جب چاہتے ہیں بھارتی
مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں اور اس قتل عام کے بعد اس قانون کا سہارا
لیکر بری ہوجاتے ہیں یہ قانون نہ صرف بھارتی مسلمانوں بلکہ کشمیری نوجوانوں
کے خلاف بھی استعما ل کیا جارہا ہے اور بھارت کے بعد کشمیرمیں بھی اس قانون
کی آڑ میں بے قصور کشمیری مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار ا جا رہا ہے۔
وزیر اطلاعات نے دوسری مثال امریکہ کی دی امریکہ میں یہ قانون Patriotکے
نام سے جانا جاتا ہے اور اس بدنام زمانہ قانون کے تحت امریکہ میں مسلمانوں
کا سات جو کچھ کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اسی قانون کی آڑ میں عافیہ
صدیقی کو گرفتار کیا گیا اور ان پر امریکی فوجیوں پر حملے کا چارج لگایا
گیا اور جب عافیہ صدیقی کے وکیل کی جانب سے عافیہ صدیقی پر اس الزام کو
ثابت کرنے کو کہا گیا تو وہاں کی عدالت نے کہا کہ ملزم خوداپنی براء ت ثابت
کرے اس حوالہ سے ہیلری کلنٹن اپنے ایک انٹرویو میں اعتراف کرچکی ہیں کہ
امریکہ میں محمد نام شخص پر خاص کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور ان تمام تر
کاروائیوں کی اجازت اس امریکی بدنام زمانہ قانون Patrioatکی مدد سے ہی عمل
میں لائی جاتی ہیں۔
اب امریکہ و بھارت کی پیروی کرتے ہوئے حکومت پاکستان بھی ملک میں ایسے
قوانین کے نفاذ میں سرگرم عمل ہے جس سے سارا ملک ہی پینٹاگون بن جائے حکومت
شاید یہ بھی بھول رہی ہے کہ پاکستان کے اندرونی حالات امریکہ و بھارت سے
کہیں مختلف ہیں۔پاکستان میں دہشتگردی کی ابتداء ان لوگوں کی وجہ سے ہوئی
تھی جن کی آج حکومت پیروی کررہی ہے پاکستان کو شاید ایسے کسی کالے قانون کی
ضرورت پیش نہیں آئے گی اگر حکومت پاکستانی علاقوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی
را اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی سرگرمیاں روک لے جن سے براہ راست
عوام متاثر ہوتے ہیں جبکہ دوسری جانب اس قانون آئین پاکستان کے مترادف قرار
دیا جارہا ہے ماہر آئین قوانین کا کہنا ہء کہ پاکستان کا آئین اسلامی
قوانین کے مطابق ہے اور اسلامی تعلیمات کسبی بھی صورت صرف شک کی بناء پر
کسی بھی انسان کے قتل کی اجازت نہیں دیتی بلکہ جب تک ملزم کا جرم ثابت نہ
ہوتا اس سزا نہیں دی جاسکتی۔لیکن حکومت پتہ نہیں کیوں پاکستان کے اندرونی
حالات کو نظر انداز کررہی ہے جبکہ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ قانون پاکستان میں
دہشتگرد انہ کاروائیوں کی روک تھام کے لیے کم جبکہ ذاتی انتقام کے لیے
زیادہ استعمال ہوگا اور اس کے نتیجے میں ملک کے حالات زیادہ بہتر ہونے کی
بجائے دن بدن بدتر ہوتے چلے جائیں۔
لہذا حکومت پاکستان مہربانی فرماکر اس بے چاری قوم جس کو پہلے ہی یہاں کے
حکمرانوں نے ناپاک تحفوں سے نوازا ہے اس پر ترس کھائیں اور ہوش کے ناخن لے
اور ایسی قانون سازیاں کرے جن سے عوام کو ریلیف ملے نہ کہ ایسے قوانین جو
نہ صرف رعایا بلکہ انسانی حقوق کے بھی منافی ہوں اور اگر احکومت وقت کو یہ
بات سمجھ نہیں آتی تو اسے اچھی یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں ہمیشہ وہ اقوام
ذلیل و رسوا ہوتی ہیں جو اپنی تہذیب روایات اور تعلیمات کو چھوڑ کر دوسری
اقوام کی روایات کو اپناتے ہیں لہذا وزیراعظم اور انکی کابینہ ہوش کے ناخن
لیں اور عوام کے ریلیف کے لیے اقدامات کریں اور ایسی قانون سازیاں کریں جو
عوام کے حق میں ہوں کیونکہ ایسے قوانین مزید بردبادی کا باعث بنے گے اور
اگر ایسا کوئی بھی واقعہ پیش آتا ہے پھر اس واقعہ کی اور نقصان کی ذمہ داری
صرف وصرف حکومت پاکستان کی ہوگی۔ |