آج اِس گُٹھن کے ماحول میں سانس لیتاہوااِنسان اپنے ہی
اعمال اور کرتوتوں کی وجہ سے خُوفزدہ ہے، اِس نے اپنایہ حال خودبنایاہے،
اور آج یہی وجہ ہے کہ اِس پر ترس کھانے اور اِس گُٹھن زدہ ماحول سے نکالنے
والابھی کوئی نہیں ہے، آج کیوںکہ سب ہی ایک جیسے ہیں اور ایک ہی جیسے ماحول
اور رنگ میں رنگے ہوئے ہیںاور سب ہی اپنے مفادات کا خیال رکھے ہوئے ہیں ،آج
کے اِس بے کس وہ مجبوراِنسان کو ایک دوسرے کی جتنی مددکی ضرورت گزرتے لمحات
میں ہے ایسی پہلے کبھی نہ تھی،آج کاکوئی اِنسان خواہ وہ سونے کا چمچہ منہ
میں لے کر پیداہواہواور دولت کی ریل پیل اِس کا مقدربنی رہے یا کوئی
ایسااِنسان جس نے ا پنی پیدائشی سے لے کر قبرکی آغوش تک غربت ہی دیکھی ہووہ
بھی اِنسانوں سے اِنسانیت اور آدمیت کا متلاشی رہاہے ۔
اگرچہ دنیامیں پیداہونے والا ہر بچہ اِنسان پیداہوتاہے، مگراِس میں
اِنسانیت مزاج اور ماحول کے مطابق پروان چڑھتی ہے، اورجوں جوں اِس میں
اِنسانیت نمایاں ہوتی اور آگے بڑھتی جاتی ہے تواِس میں آدمیت کا عنصربھی
پیداہونالازمی امرٹھیرتاہے،اگرچہ آج کا اِنسان بظاہرتو شعورکی بلندیوں کو
پہنچاہوامحسوس ہوتاہے مگریہ درحقیقت ابھی شعورکے اُس اعلیٰ معیار سے خالی
اور عاری ہے، جواِنسانیت اور آدمیت کے لئے لازم وملزم ہے موجودہ دورکا
اِنسان لاکھ ایسے دعوے کرلے کہ اِس نے شعوراور بیداری کے لحاظ سے اپنے
پُرکھوں کو مات دے دی ہے تویقیناآج بھی اہلِ عقل و دانش دورِ جدید کے
اِنسان کی اِس سوچ کو چیلنج کریں گے اور آج کے اِنسان کی اِس سوچ پر کفِ
افسوس مل کر رہ جائیں گے اور یہ کہئے بغیرنہیں رہ سکیں گے کہ”آج کے دورِ
جدید میں رہنے والے افرادبظاہر تواِنسان ہیں مگر اِنسانیت سے پوری طرح خالی
اور عاری ہیں“یہ حال نہ صرف پاکستان ہی کا ہے بلکہ ساری کائنات میںجہاں
کہیں بھی اِنسان بستے ہیںاِن میں اکثریت ایسے اِنسانوں کی پائی جاتی ہے جو
اِنسانیت اور آدمیت سے خالی ہیں، آج یہی وہ لوگ ہیں جو اِنسانوں کو
اِنسانوں سے لڑاتے ہیں اور اِنسانیت کو اِنسانیت کا دشمن بناتے ہیں اور
مُلک اور معاشروں اور تہذیبوںمیں فسادات اور انارگی پھیلاکرآدمیت کا
گلاگھونٹتے ہیں اور آدمیت کا قتل کرتے اور کرواتے ہیں۔
میں اپنے معاشرے کے چندایسے اِنسانوں کو جانتاہوں جن میں اِنسانیت بھی
نظرآتی ہے اوراِن میں آدمیت کی وہ ساری خوبیاں بھی موجودہیں جن کا
معیاراِنسانیت اور آدمیت نے متعین کیاہے،آج کے اِس گٹھن زدہ ماحول میں بھی
اِن شخصیات کی یہ کوشش رہتی ہے کہ یہ پریشان اور خُوفزدہ اِنسانوں کی
مددکریں اور اپنے معاشرے کو اِس ماحول اور اندھیرے سے نکلیں جس کی وجہ سے
اِنسان مثالی اِنسانیت اور آدمیت سے عاری ہوچکے ہیںوہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ
جب اِنسان میں یہ احساس پیداہوجائے یا کردیاجائے کہ ہر اِنسان کو ہمیشہ اِس
امر کا احساس رہے کہ اِس کا کوئی بھی نیک و صالح عمل کبھی ضائع نہیں جائے
گاتو پھر یہ یقین کرلیاجائے کہ اِنسان میں اِنسانیت اور آدمیت کا
پیداہونالازمی امرہوگااور جب اِنسان میں یہ جذبہ پیداہوجائے تو پھر یہ بھی
مان لیاجائے کہ اَب اِنسان کو اِنسانیت اور آدمیت کی اُوج مل جائے گی ۔
آج اِنسان واِنسانیت اور آدمیت سے متعلق ایسی مثبت اور تعمیری سوچ رکھنے
والے میرے معاشرے کی یقینا یہ وہ عظیم شخصیات ہیں اِن کے اِن نیک جذبات کو
اِنسان اور اِنسانیت کی عظمت سلام پیش کرتی ہے اور تاقیامت اِن کے اُصول
اِنسان و اِنسانیت اور آدمیت کے لئے مشعل راہ رہیں گے۔
اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مُلکوں ، معاشرو ں اور تہذیبوں کی بربادی اور
تباہی میں اُن عناصر کا بہت زیادہ کردارہوتاہے جن میں عقل وشعوراور
اِنسانیت وآدمیت نام کی بھی نہیں ہوتی ہے، ایسے ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو
اجتماعیت میں زیادہ ہوتے ہیں اور اپنی مرضی سے مُلکوں ، معاشرو ں اور
تہذیبوںکو ہانکناچاہتے ہیں،اور جب کوئی باشعوراور عاقل اِنسان مدِمقابل
اُٹھ کھڑاہوتاہے تو پھرجنگ و جدل کا بازارگرم ہوجاتاہے مگر بالآخرجیت عقل
وشعور رکھنے والے اِنسان ہی کی ہوتی ہے کیوںکہ حق ، حق ہوتاہے اور جھوٹ
جھوٹ ہوتاہے، آج بھی جن مُلکوں ، معاشرو ں اور تہذیبوں بدعقلوں اور
بدمعاشوں کے سامنے ہماری طرح کوئی بھی حق و سچ کا علمبردارنہیں ہے وہ مُلک
، معاشرے اور تہذیبیں یوں ہی گمنامی اور پستی میں دھنسی ہوئی ہیں جیسے کہ
آج ہم جہالت اور بدنامی کے اندھیرے کنوئیں میں پڑے ہوئے ہیں۔
اَب اِس ماحول سے ہمیں کب چھٹکارہ ملے گایہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے،بس سب
ایک دوسرے کا منہ تکنے میں لگے ہوئے ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ پہلے آپ
...پہلے آپ ...اور اِسی پہلے آپ اور پہلے آپ کے چکرمیں ہم گزشتہ 67سالوں سے
اِس گُھٹن زدہ ماحول میں سانس لینے پر مجبورہیں،اگرآج بھی میری قوم کو اِس
گُھٹن زدہ ماحول سے نجات حاصل کرنی ہے تو پھر یہ بہت ضروری ہے کہ ہر فردکسی
اور کا منہ تکنے اور کسی کا دامن تھام کرباہرنکلنے کے بجائے خودباہر نکلے
اور بدل کر رکھ دے اِس گُٹھن زدہ ماحول کو جس میں ہم نصب صدی سے زیادہ عرصے
سے غرق ہوکر سانس لے رہے ہیں توپھر آج میری قوم کے ہر فردکو اِس گُٹھن زدہ
ماحول سے جھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے بارش کا وہ پہلاقطرہ بنناہوگاجس کے بعد
زمین پر سیلاب برپاہوتاہے اور زمین کی پیاس بجھ جاتی ہے اور زمین کا
سارارنگ ہی تبدیل ہوجاتاہے، اَب ایسی ہی کسی تبدیلی کے لئے ہر فردکو
اپنااپناکردار اداکرنالازمی ہوگیاہے اور مُلک میں ایساتعمیری اور مثبت
انقلاب برپاکردیناہوگاجس کے بعدکرپشن ، لوٹ مار، قتل وغارت گری، دھاندلی،
اقرباءپروری، کلنگ آف میرٹ اوربہت سی ایسی برائیوں سے نجات مل جائے جس نے
میرے مُلک اور معاشرے کو جاٹ جاٹ کر تباہ کردیا۔ (ختم شُد) |