شکر ہے 11مئی خیروعافیت سے گزرگیا، وگرنہ یار لوگوں نے تو
ڈرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ایک طرف عمران خان تھے، جو ایسا تاثر
دے رہے تھے گویا ’’سونامی‘‘ حکمرانوں کو بہاکر لے جائے گا اور دوسری طرف
وزراء نے بھی ضرورت سے زیادہ ردعمل ظاہر کرکے ایک روایتی جلسے کو پتا نہیں
کیا سے کیا بنادیا تھا۔ تحریک انصاف کا جلسہ کامیاب رہا یا ناکام، 11ہزار
لوگ شریک ہوئے یا 11لاکھ، ان باتوں پر بحث کا سلسلہ اگلے کئی روز تک چلتا
رہے گا، البتہ اس جلسے سے ایک فائدہ ضرور ہوا ہے، سیاسی جماعتیں 11مئی سے
پہلے جس طرح تقسیم نظر آتی تھیں، جلسے کے بعد ان میں ایک طرح کا اتفاق پیدا
ہوگیا ہے۔
تحریک انصاف کے جلسے کا بنیادی مقصد 2013ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کے
خلاف احتجاج ریکارڈ کرانا تھا۔ یہ جماعت گزشتہ ایک برس سے اس معاملے پر
آواز بلند کررہی ہے۔ عمران خان نے جلسے سے اپنے خطاب کے دوران اعداد وشمار
کی مدد سے انتخابی دھاندلیوں کے بارے میں اپنا موقف پیش کیا، وہ یہ باتیں
پہلے بھی کرتے رہے ہیں، نئی بات یہ تھی کہ انہوں نے اگلے انتخابات کو شفاف
بنانے کے لیے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ بھی حکومت کے سامنے رکھا ہے۔ انہوں نے
نئے آزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل، ووٹنگ کے لیے بائیو میٹرک سسٹم اور
انتخابات 2013ء میں دھاندلی کرنے والوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
صرف تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ ہر جماعت کو عام انتخابات کے بارے میں شکایات
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں شامل کوئی جماعت ایسی نہیں ہے جو
الیکشن ٹریبونلوں کے چکر نہ لگارہی ہو۔ پی ٹی آئی پنجاب اور کراچی میں
دھاندلیوں کی شکایت کررہی ہے، ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کو
خیبرپختونخوا میں اسی نوعیت کے اعتراضات ہیں۔ فنکشنل لیگ نے تو انتخابات کے
دوسرے ہی روز سندھ بھر میں دھرنے دیے تھے۔ ق لیگ کے مرکزی رہنما پرویزالٰہی
بھی کہتے ہیں ان کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے۔ اے این پی بھی اپنی شکست کو کسی اور
کے کھاتے میں ڈال رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کو بھی اس پر یقین نہیں آرہا کہ اسے
پنجاب کے عوام نے بری طرح مسترد کردیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں نے
بھی دھاندلی کے الزامات لگائے تھے۔ گویا کوئی ایک بھی ایسی سیاسی جماعت
نہیں ہے جو عام انتخابات کو شفاف ماننے پر تیار ہو۔ خود الیکشن کمیشن نے
بھی بے ضابطگیوں کا اعتراف کیا تھا۔ انتخابات پر نظر رکھنے والی غیرسرکاری
تنظیموں نے بھی دھاندلی کی رپورٹ دی تھی، سب سے بڑھ کر یہ کہ خود عوام نے
اپنی آنکھوں سے دھاندلی ہوتی دیکھی تھی۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ جو جماعتیں
حکومت میں آگئی ہیں وہ دھاندلی ہونے کو تسلیم تو کرتی ہیں مگر وہ اس معاملے
کو زیادہ اچھالنا پسند نہیں کرتیں، کیونکہ اس سے ان کی ساکھ کو خطرہ لاحق
ہوسکتا ہے، جبکہ تحریک انصاف ہر صورت احتساب چاہتی ہے، یہ جو آپ کو پی ٹی
آئی اور دیگر جماعتوں میں بیانات کی جنگ نظر آرہی ہے، وہ اسی ’’ساکھ‘‘ کی
وجہ سے ہے۔
ن لیگ کا خیال ہے کہ اگر لاہور اور دیگر اہم حلقوں میں دھاندلی کے الزامات
درست نکل آئے تو تحریک انصاف اسے مثال بناکر حکومت کے خلاف بڑی مہم شروع
کردے گی، جس میں پورے انتخابی عمل اور اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی
حکومت کو مشکوک ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی، اسی لیے حکومت پی ٹی آئی کا
مطالبہ ماننے سے ہچکچا رہی ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے جوابی طور پر پی ٹی آئی
کے 4 حلقوں کی تصدیق کا معاملہ بھی اسی لیے اٹھایا ہے، ان کا خیال ہے کہ
اگر ن لیگ کے حلقوں میں بے قاعدگیاں ثابت ہوئیں تو پی ٹی آئی کے حلقوں میں
بھی اسی نوعیت کی بے قاعدگیاں نکلیں گی، اس سے حساب برابر ہوجائے گا۔
دیکھنے میں یہ بات بڑی خوب صورت ہے مگر حکومت اچھی طرح جانتی ہے اس طرح8
حلقوں کی تصدیق سے بھی معاملہ حل نہیں ہوگا بلکہ حکومت مخالفین کو انتخابات
کو مشکوک ثابت کرنے کے مزید ’’دلائل‘‘ مل جائیں گے۔
بہرحال انگوٹھوں کی تصدیق کا معاملہ تو خاصا پیچیدہ ہے، البتہ پی ٹی آئی کے
جلسے کے بعد کئی اہم قومی امور پر جو اتفاق رائے نظر آیا ہے، اس سے بھرپور
فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جلسے کے اختتام پر پنجاب کے وزیرقانون اور ن لیگ
کے اصل ترجمان رانا ثناء اﷲ، جے یو آئی کے جان اچکزئی، ق لیگ کے چودھری
شجاعت، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے نمایاں رہنماؤں نے مختلف ٹی وی
پروگراموں میں عمران خان کے انتخابی اصلاحات کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔
کوئی ایک جماعت بھی ایسی سامنے نہیں آئی جو یہ کہتی ہوکہ آزاد الیکشن کمیشن
نہیں ہونا چاہیے۔ سیاست دانوں کا یہ اتفاق رائے قوم کے لیے کسی رحمت سے کم
نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات پر قومی اتفاق رائے سے فائدہ کیسے
اٹھایاجاسکتا ہے؟ اس سلسلے میں سب سے اہم ذمے داری حکومت کی ہے۔ میاں صاحب
نے بہاولپور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کو مل بیٹھ کر مسائل حل
کرنے کے لیے وزیراعظم ہاؤس آنے کی دعوت دے کر بہت اچھا کیا، عمران خان بھی
آنے پر آمادہ لگتے ہیں، بس انہیں شکوہ ہے کہ دعوت دینے کا طریقہ کار ٹھیک
نہیں، وزیراعظم کو جلسے کی بجائے فون پر دعوت دینی چاہیے تھی۔ اگر یہی بات
ہے تو میاں صاحب کو ’’ہیلو ہائے‘‘ کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ دوسری طرف
عمران خان کے مشیروں کو اپنے کپتان کو یہ مشورہ دینا چاہیے کہ وہ بھی
سونامی کو ذرا بریک لگادیں۔ اگر وہ جلسوں کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالنا
چاہتے تھے تو یہ مقصد اسلام آباد جلسے سے پورا ہوچکا، اب سڑکوں کی بجائے مل
بیٹھ کر معاملات کو حل کرنا ہی بہتر طریقہ ہوگا، انتخابی اصلاحات کے لیے
پارلیمنٹ ہی اصل فورم ہے، جلسے جلوسوں کے بعد بھی معاملہ یہیں آئے گا، تو
کیوں ناابھی سے یہاں بیٹھ کر معاملات طے کرلیے جائیں۔ کتنا بہتر ہو اگر
حکومت اس اہم قومی معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس بلواکر تمام جماعتوں کی
تائید سے کوئی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دے جو مقررہ وقت میں سفارشات مرتب
کرکے ایوان میں پیش کرنے کی پابند ہو۔ |