بھارت میں نفرت کی سیاست عروج پر ہے۔ الیکشن کے موسم نے
جذبات کی تپش کو بڑھا دیا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں پر حملے نئی بات نہیں
لیکن انتہا پسند ہندوؤں کے اندر پلتے مسلم کش جذبات کس قدر بھیانک ہوچکے
ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ روز ریاست اترپردیش میں
ایک ٹی وی شو کے دوران انتہا پسند ہندو نے خود کو آگ لگا کر وہاں موجود
مسلمان سیاستدان کو بھی جلا ڈالا۔ ٹی وی شو جاری تھا کہ اچانک ایک انتہا
پسند ہندو اسٹیج پر آیا اور پہلے اس نے مٹی کا تیل چھڑک کر خود کو آگ لگائی
اور اس کے بعد بہوجن سماج وادی پارٹی سے تعلق رکھنے والے مسلمان سیاستدان
قمر الزماں کو بھی کھینچ کر اپنے ساتھ جکڑ لیا۔ قمر الزماں کو تشویشناک
حالت میں سلطان پور کے اسپتال لے جایا گیا ۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کی
رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر سلطان پور میں سرکاری ٹی وی
چینل نے ایک پبلک پارک میں سیاستدانوں کے درمیان مباحثے کا اہتمام کیا تھا
جسے براہ راست نشر کیا جارہا تھا۔ مباحثے میں جہاں کئی جماعتوں سے تعلق
رکھنے والے سیاستدان موجود تھے وہیں بہوجن سماج وادی پارٹی سے تعلق رکھنے
والے ایک مسلمان سیاستدان قمر الزماں بھی شریک تھے۔ ٹی وی شو جاری تھا کہ
اچانک ایک انتہا پسند ہندو اسٹیج پر آیا اور پہلے اس نے مٹی کا تیل چھڑک کر
خود کو آگ لگائی اس کے بعد قمرالزماں کو بھی کھینچ کر اپنے ساتھ جکڑ لیا۔
وہاں موجود لوگوں نے قمر الزماں کو خودسوزی کرنے والے شخص کے شکنجے سے
نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔قمر الزماں کوبچانے
کی کوشش میں شو میں شریک 2اور سیاستدان رام کمار سنگھ اور چوہدری ہری دیو
رام ورما بھی زخمی ہوئے۔ دونوں کو شدید تشویشناک حالت میں سلطان پور کے
اسپتال لے جایا گیا تاہم بعد میں دونوں کو لکھنؤ کے سرکاری اسپتاال میں
منتقل کردیا گیا، جہاں انہیں طبی امداد دی جارہی ہے۔پولیس نے اپنے آپ کو آگ
لگانے والے شخص کی شناخت درگیش کمار کے نام سے کی ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ
درگیش کا جسم 95 فیصد جبکہ قمر الزمان 75 فیصد جلے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے
ان دونوں کے بچنے کے امکانات انتہائی کم ہیِں، دونوں کی حالت ایسی نہیں کہ
ان کے بیان ریکارڈ کئے جاسکیں تاہم واقعے کے محرکات جاننے کے لئے تفتیشی
شروع کردی گئی ہے۔ بھارت میں ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کو نشانہ بنانا
نئی بات نہیں لیکن کسی مخالف سیاسی جماعت یا برادری کے نمائندے کے ساتھ
بھارت میں ہونے والا یہ اندوہناک واقعہ پوری دنیا کی انتخابی تاریخ میں
پہلا واقعہ ہے کہ کسی سیاسی رہنما کو اس طرح سرعام جلانے کی کوشش کی گئی
ہو۔یہ ایک المناک اور تاریخی سچائی ہے کہ ہندو ہمیشہ سے متعصب رہا ہے، اس
کے متعصبانہ رویہ ہی نے ہندو، مسلمان کے بیچ تفریق پیدا کی۔ 1947میں تقسیم
پاکستان کو بھی ہندو متعصب لیڈروں نے دل سے تسلیم نہیں کیا۔ تب ہی سے نفرت
و عداوت کے یہ سوداگر کبھی سیاست اور مذہب کے نام پر تو کبھی ذات پات اور
مسلک کے کے نام پرلوگوں کو لڑا کر اپنی اپنی دوکان چمکانے کی مذموم کوشش
میں لگے ہوئے ہیں۔اور اب 2014 کے عام انتخابات میں سیاست دانوں نے اپنی
نفرت انگیز بیان بازیوں کے ذریعہ ماحول کو اسقدر مکدر کردیا ہے کہ عوام
الناس دو مخالف خیموں سے نفرت کے آتش فشاں کو پھٹتے ہوئے دیکھ رہے
ہیں۔حقیقتاًیہ نہ تو صحت مند سیاست کی علامت ہے اور نا ہی سلیم العقل سیاست
کی عکاسی۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جمہوریت صرف الیکشن کا نام نہیں ہے بلکہ
یہ ایک طرزِ حکومت ہے جہاں ہتکِ عزت اور آپسی بغض و عناد کی بالکل بھی
گنجائش نہیں ہے تاکہ جمہوریت کے جھنڈے تلے بلا تفریقِ مذہب و ملت اور ذات
پات ہر شہری کوامن و سکون کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھنے کا مو قع میسر ہو
سکے۔بھارت میں انتخابات کو نفرت کی سیاست کاموسمِ بہار قراردیا جا سکتا
ہے۔ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے نفرت انگیز سیاست کی آگ میں
تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔شروعات وشو ہندو پریشد کے کار گذار صدر پروین
توگڑیا نے کی؛ انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ شر انگیز بیان دیا
کہ اگر میں ہندوستان کا وزیرِ اعظم بن گیا تو میں مسلمانوں سے رائے دہی کا
حق چھین لونگا اور مزیدیہ کہا کہ مسلمانوں کو کسی اہم عہدے پر نہیں رہنے
دونگا،تمام عہدے چھین لونگا۔(پتریکا ڈاٹ کام)۔گنگا جمنی تہذیب میں زہر
گھولنے کے بعد بھی پروین توگڑیا کے خلاف قانونی کا ر روائی کا نہ ہونا
ہندوستانی جمہوریت کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔یہ بھی ایک ستم
ظریفی ہے کہ اس ملک میں جہاں سیکڑوں معصوم ناکردہ گناہوں کی سزا سلاخوں کے
پیچھے کاٹ رہے ہیں ، وہیں ببانگِ دہل جمہوریت کو چلینج کرنے والے آزادی کے
ساتھ دستورِ ہند کا منہ چڑھا تے پھررہے ہیں۔خوش آئند بات یہ ہے کہ اب
مسلمان ٹھوکر کھا کھا کر کافی حد تک سنبھل گئے ہیں ، اسی وجہ سے اسطرح کے
بیا نات کے بعدکسی رد عمل سے گریز ہی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ لیکن یاد
رکھئے ایک لمبے عرصے تک خاموشی کے ساتھ الفاظوں کے تیر سہتے رہنا انسانی
فطرت میں نہیں ہے۔پروین توگڑیا تو کیا ،مسلمان مخالف کوئی حکومت بھی
مسلمانوں سے اسکا دستوری حق نہیں چھین سکتی۔دراصل یہ دریدہ دہن لوگ
مسلمانوں کے مخالف نہیں بلکہ پھولتی پھلتی جمہوریت کے لئے زہر ہلاہل ہیں۔ان
بے لگاموں کولگام دینا جنکا کام ہے اگر وہ اپنی ذمہ داری سے یوں ہی پہلو
تہی کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب انہیں اپنی نااہلی کا تاوان بڑے پیمانے
پربھرنا پڑے گا۔حالیہ سیاست میں نفرت کی سیاست کا نیا نام گری راج سنگھ ہے۔
بہار کے اس بی جے پی لیڈر نے ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بی
جے پی کے وزیر اعظم کے امیدوار نریندر مودی کی جو لوگ بھی مخالفت کر رہے
ہیں ان کے لئے لوک سبھا کے عام چناؤ کے نتیجہ کے بعد بھارت میں کوئی جگہ
نہیں رہے گی۔ گری راج سنگھ ے گڈا ضلع میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ
لوگ جو نریندر مودی کو وزیر اعظم بننے سے روکنا چاہتے ہیں وہ پاکستا ن کی
جانب نظریں گاڑے ہوئے ہیں اور آنے والے دنوں میں بھارت میں ان کے لئے کوئی
جگہ نہیں رہے گی ان کے لئے صرف پاکستان میں ہی جگہ ہوگی۔ یہ سراسر مسلمانوں
کو دھمکی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ بیان گیدڑ بھپکی کے علاوہ کچھ بھی نہیں
، لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ جمہوریت کے ان ٹھیکداروں کو جمہوریت کا مطلب
ہی نہیں معلوم ہے۔کیا جمہوریت میں ہر شخص کو اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ
دینے کا حق نہیں ہے؟ کیا جمہوریت میں ڈرا دھمکا کر ووٹ لیا جاسکتا ہے؟کیا
جمہوریت کے اندر انتخابات میں شکست خوردہ لوگوں کو ملک میں رہنے کا حق نہیں
ہے؟کیا جمہوریت میں بدلے کی سیاست کی گنجائش ہے؟یہ اور اسطرح کے بہت سارے
سوالات ہیں جوایک جمہوری ملک میں نفرت آمیز سیاست کی کوکھ سے جنم لیتے
ہیں۔دراصل نفرت کی سیاست کرنے والے ان لوگوں کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے
کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بے کردار لوگ ہی کیچڑ اچھالنے کا کام کرتے
ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ نفرتوں کے یہ پتھر نفرتوں کے شیش محل میں رہنے والے
لوگوں نے پھینکے ہیں، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب ردعمل کی شروعات ہوگی
تو یہ لوگ خود نفرتوں کے شیش محل میں مدفون ہوجائینگے۔ لیکن یہ سوال اب بھی
ہے کہ کیا دنیا کی عظیم ترین جمہوریت بھارت کے پاس نفرت کی سیاست کا
پائیدار حل نہیں ہے؟۔بھارت کے نوجوان سیاستدان گاندھی خاندان کے سپوت راہول
گاندھی میں شاید انکی والدہ کی طرف سے شامل اطالوی خون ہے جس کی وجہ سے وہ
بھارت کی نفرت بھری سیاسی فضا میں نفرتوں سے بیزاری کا اعلان کر رہے ہیں
اگر وہ روایتی سیاسی بیان بازی سے ہٹ کر واقعی بی جے پی کی نفرت پھیلانے
والی سیاست کا گند دور کرنے پر تیار ہیں تو یہ خوش آئند بات ہے۔ بی جے پی
نے ہندو اور مسلم کی تقسیم، مسلم کش اقدامات اور پاکستان سے نفرت کی سیاست
سے جو شہرت پائی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔مگر یہ حقیقت بھی تو بہت تلخ
ہے کہ خود راہول گاندھی کی اپنی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کا دامن بھی
مسلم کش اقدامات اور پاکستان سے دشمنی کے حوالے سے کچھ زیادہ صاف نہیں
ہے۔حیدر آباد دکن اور کشمیر میں مسلم دشمن اقدامات آج بھی پاکستان اور
بھارت میں تلخی پیدا کر رہے ہیں۔ اب اگر راہول گاندھی نفرت کی سیاست ختم
کرنا چاہتے ہیں تو آگے بڑھیں پاکستان اور بھارت کے درمیان نفرت کی دیوار
گرائیں، کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کریں تو اس سے نہ
صرف پاکستان سے تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ خود بھارت کے مسلمان بھی محفوظ ہو
جائیں گے اور کسی انتہا پسند جماعت کو ان کے خلاف نفرت پھیلانے کا موقع
نہیں ملے گا وہ سب دل و جان سے کانگرس اور راہول گاندھی کے شانہ بشانہ کھڑے
ہوں گے اور بھارتی سیاست سے انتہا پسندی ختم ہو جائے گی۔بھارتی مسلمانوں کے
لئے 2002 میں ہونے والے گجرات فسادات کا احوال بیان کرنا اب بھی اتنا ہی
اذیت ناک ہے جتنا گیارہ برس قبل۔ہندوکی نفرت اور تشددکا منہ بولتا ثبوت وہ
تصویر ہے، جس میں28سالہ قطب الدین انصاری، ایک تنگ برآمدے میں کھڑا
ہندودہشت گردوں کے آگے ہاتھ جوڑ کرزندگی کی بھیک مانگ رہاہے۔ اس کی چیک
والی شرٹ پر جابجا خون کے دھبے لگے ہوئے ہیں، شرٹ تشدد کی وجہ سے جگہ جگہ
سے پھٹی ہوئی ہے۔ قطب الدین انصاری کی آنکھوں میں خوف انتہا کا ہے۔ یہی
تصویر نہیں دیکھی جاتی تو بلقیس بانو کی کہانی کیسے سنی جائے گی جس کے گھر
میں مسلح ہندوؤں کا ایک گروہ گھس آیاتھا۔اس ہجوم میں اس کے ہندوپڑوسی بھی
شامل تھے اور چھ پولیس اہلکار بھی اور دو ڈاکٹرز بھی۔ بلقیس اس وقت پانچ
ماہ کی حاملہ تھیں، ہجوم نے سارے گھروالوں کے سامنے بلقیس کی اجتماعی عصمت
دری کی، اس کے بعد ان کے گھر کے آٹھ افراد کو مسلسل بدترین تشدد کرکے شہید
کرڈالا، باقی کے چھ افراد کوساتھ لے گئے، ان کے بارے میں آج تک کسی کو خبر
نہیں۔اس ہجوم نے بلقیس کی ساڑھے تین سالہ بیٹی صالحہ کو بھی قتل
کردیاتھا۔اور یہ سب کچھ نریندر مودی کا کیا دھرا تھا، جو اب بھارت کے وزیر
اعظم بنے کے لیئے پر تول رہے ہیں۔ گجرات فسادات کو مغربی ذرائع ابلاغ نے
بھی1947 کے بعد سب سے خوفناک فسادات قراردیاتھا۔اس میں قریباً دو ہزار
افراد کو شہید کیاگیاتھا۔ بیسیوں بلقیسوں کی عصمت دری ہوئی، سینکڑوں ننھی
منی صالحائیں شہید کردی گئیں، سفید بالوں اور کمزور جسموں والے بیماربوڑھوں
کی تعداد بھی سینکڑوں میں تھی، انھیں بھی مارمار کے ماردیاگیا اور یہی
معاملہ جوانوں کے ساتھ بھی پیش آیا۔ ریاست کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کے
بارے میں واضح شواہد سامنے آئے کہ یہ آگ وخون کا کھیل انہی کے اشارے پر اور
انہی کی منصوبہ بندی کے عین مطابق کھیلاگیا۔ دہشت گرد ہندو تنظیم راشٹریہ
سوایمسیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں اپنا لڑکپن، جوانی اور اب بڑھاپا گزارنے
والے نریندرمودی نے مسلم مخالف فسادات کے دوران پولیس کو مداخلت نہ کرنے کی
ہدایت دی تھی۔بعدازاں جب مودی انتظامیہ کے خلاف گواہان عدالتوں میں پہنچے
تو مودی انتظامیہ ایک بارپھر حرکت میں آئی اور چن چن کر ہرایسے فرد کو قتل
کردیاگیا جس کی وجہ سے مودی سرکار پھنس سکتی تھی۔زیادہ تر پولیس مقابلوں
میں شہید کردئیے گئے۔اب اسی نریندر مودی کوبھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی)
نے امیدوار برائے وزیراعظم نامزد کردیاہے۔ غالباً یہ بھارتی تاریخ میں پہلا
موقع تھا جب کوئی سیاسی جماعت انتخابات سے پہلے ہی کسی فرد کو وزارتِ عظمیٰ
کے لیے میدان میں لے آئی ہے۔ مغربی دنیا بھی نریندر مودی کو ایک انتہا پسند
شخصیت مانتی ہے۔یادرہے کہ گجرات فسادات کے بعد2005ء میں امریکہ نے مودی کو
سفارتی ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔امریکہ نے مودی کے سیاحتی اور
کاروباری ویزے کو بھی رد کر دیا تھا۔یہ پابندی اب بھی برقرار ہے۔ برطانیہ
نے بھی مودی کو ویزا دینے میں انکار کیا تھا تاہم اب برطانیہ نے مودی کو
ویزا دینے کے لیے ہامی بھر لی ہے۔تجزیہ نگاروں اورماہرین کی ایک بڑی تعداد
کا خیال ہے کہ 2014کے پارلیمانی انتخابات صدارتی شکل اختیارکرچکے ہیں۔ ان
میں قوم کو اس سوال کا جواب دیناہے کہ وہ مودی کو وزیراعظم بناناچاہتی ہے
یا نہیں؟یہ سوال بی جے پی کے لئے بہت بڑا رسک ہے۔پارلیمانی انتخابات میں
ایک طرف مودی ہیں اور دوسری طرف وہ تمام حقیقی اور خود ساختہ سیکولر طاقتیں
جو ان کے نظریے کو مذہبی آہنگی اور قومی سالمیت کے لیے خطرہ مانتی ہیں۔
حالیہ تاریخ میں مودی پہلے ایسے رہنما ہیں جن کے لوگ یا تو سخت خلاف ہیں
اور یا پھر زبردست حامی اور یہ صورتحال خود ان کی اپنی جماعت کے اندر بھی
موجود ہے۔ان کے حامی بھی شدیدجذبات رکھتے ہیں جبکہ مخالفین بھی انھیں ایک
لمحہ کے لئے بھی قبول کرنے کو تیارنہیں۔ بی جے پی کی کامیابی اسے اگلے پانچ
برس کے لئے ایسا سنہری موقع فراہم کرے گی جس کے نتیجے میں نئے سنہری مواقع
پیدا ہوسکتے ہیں لیکن اگر قوم نے مودی کی وجہ سے بی جے پی کو مسترد کردیاتو
بی جے پی سیاسی طورپر موت کے گھاٹ اترجائے گی۔ یہ سخت گیر ہندوتوا کے ساتھ
ہی ساتھ مودی کی ساکھ کی بھی شکست ہوگی، اس کے بعد بی جے پی کو پھر ایک نئی
نظریاتی سمت اور نیا رہنما تلاش کرنا پڑے گا۔بی جے پی کے رہنماؤں میں سب سے
کم پڑھے لکھے مودی نے’’گجرات میں ترقی‘‘کاپراپیگنڈا کرکے بھارت کے بڑے بڑے
تاجروں اور صنعت کاروں کو اپنے ساتھ ملالیا۔اس طرح ’’بھارتی وزارت ِعظمیٰ
کے ایک مضبوط امیدوار‘‘ کی ساکھ بنالی۔انھوں نے ریاست کے اندر اپنی تمام
مدمقابل شخصیات اور طبقات کو کچل دی جبکہ بیوروکریسی اور پولیس کو بھی
خوفزدہ رکھا۔ تاہم اس سب کچھ کے نتیجے میں ایک مشکل یہ پیدا ہوگئی کہ اب آر
ایس ایس میں بھی ایسے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو ان کے بے رحمانہ شخصی
اندازسیاست پر انگلیاں اٹھارہے ہیں۔ مودی میں برداشت نام کو بھی نہیں ہے۔
اوپر عرض کیاجاچکا ہے کہ وہ اپنے مخالفین بالخصوص مسلمانوں کو چن چن کر
پولیس مقابلوں میں ہلاک کراتے رہے۔کہاجاتا ہے کہ آر ایس ایس کی قیادت مودی
سے مکمل طور پر خوش نہیں۔ سنگھ پریوارکے بعض حلقوں میں یہ محسوس کیا جانے
لگا ہے کہ گجرات اور بی جے پی ایک شخص کے اردگرد سمٹ کر رہ گئی ہے اور سنگھ
کی اہمیت کو بھی نہیں پہچانا جارہا۔دوسری طرف بی جے پی کے بہت سے لوگ بھی
اسی سبب مودی کے خلاف ہیں کہ مودی نے اپنی ذات کو نمایاں جبکہ پارٹی کو پس
منظر میں بھیج دیا ہے۔مودی اپنے آپ کو ایک ایسے ہندوہیرو کے طور پر پیش
کررہے ہیں جو ملک کے اندر اور باہر دشمنوں سے نبردآزما ہیں۔ 15ستمبر 2013ء
کو (وزارت عظمیٰ کیلئے اپنی نامزدگی کے محض دو دن بعد) انھوں نے ریٹائرد
بھارتی فوجیوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ سٹیج پر سابق آرمی چیف
ریٹائرڈ جنرل وی کے سنگھ بھی موجود تھے۔ اس موقع پر نریندرمودی نے کہا ’’
دہلی حکومت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تمام مسائل کاحل مرکز کے پاس
ہی ہوتاہے۔ ہمیں ایک مضبوط اور محب وطن حکومت چاہیے تاکہ ملکی سالمیت اور
ہماری فوجیوں کی زندگیاں محفوظ بنائی جا سکیں‘‘۔ نریندرمودی واضح طورپر
پاکستان کو ذہن میں رکھ کر یہ باتیں کررہے تھے۔
مودی ایک تنگ نظر، متعصب ہندو قوم پرست رہنما کے طورپر ساری دنیا میں بدنام
ہیں۔ وزیراعظم بننے کے لئے وہ اپنی شخصیت کو متوازن ثابت کرنے کی کوششوں
میں لگے ہوئے ہیں۔ تاہم ان کی اصل ساکھ ، نظریات اور اب وزارت عظمیٰ کے لئے
دوڑ نے انھیں مشکل میں ڈال دیاہے۔ اب اگر وہ ہندوؤں کے مسائل پر کافی توجہ
نہیں دیتے تو انہیں اپنی سیاسی زمین سے محروم ہونے کانقصان اٹھانا پڑ سکتا
ہے۔دوسری طرف مشکل یہ بھی ہے کہ اگر وہ تنگ نظری کی روش پر قائم رہتے ہیں
تو انہیں قومی لیڈر نہیں سمجھا جائے گا۔مودی کی وجہ سے بی جے پی کوملک بھر
کے مسلمان ووٹوں سے کلی طورپر محروم ہوناپڑے گا۔ یادرہے کہ بھارت میں
مسلمانوں کی تعداد 180 ملین ہے جو کل آبادی کا15فیصد ہیں۔ چھ ریاستوں میں
مسلمان ووٹرز کل ووٹرز کا 11فیصد ہیں۔ان میں سیاسی طورپر اہم ترین ریاست
اترپردیش بھی ہے۔ یہ ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے اور ملک کی
پارلیمان یا ایوان زیریں میں سب سے زیادہ تعداد میں 80 رکن منتخب ہوکر یہاں
سے جاتے ہیں۔اترپردیش کے علاوہ کوئی دوسری ریاست بی جے پی کی مجموعی
کامیابی میں اہم کردار نہیں ادا کرسکتی۔ تاحال یہاں کی فضا بھی بی جے پی کے
بالکل خلاف ہے۔گزشتہ عام انتخابات میں بی جے پی کو محض 10 نشستیں ہی مل
پائی تھیں اور پارٹی کے مجموعی ووٹوں کی شرح میں بھی 4.7 فیصد کی کمی واقع
ہوئی تھی۔اس کے بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج بھی اس پارٹی کے
لیے بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھے۔بات پھر وہی ہے کہ مودی کویہاں کی فضا
اپنے لئے سازگار کرنی ہے تو ووٹروں کو قائل کرنا ہوگا کہ وہ عام انتخابات
میں مقامی مسائل پر قومی مسائل کو ترجیح دیں۔علم سیاسیات میں ماسٹری ڈگری
رکھنے والے نریندر مودی 1950 میں مہسانا(گجرات) کے واڈنگر علاقے میں پیدا
ہوئے۔ بچپن سے ہی جھکاؤ دہشت گرد ہندو تنظیم آر ایس ایس کی جانب تھا۔ گجرات
میں آر ایس ایس کی جڑیں کافی گہری تھیں۔ 17 سال کی عمر میں احمد آباد پہنچے
اورآر ایس ایس کے رکن بنے۔ سیاست میں فعال ہونے سے پہلے مودی برسوں تک آر
ایس ایس کے پرچارک یا مبلغ رہے۔گجرات میں مودی کے اقتدار سنبھالنے کے
تقریباً پانچ ماہ بعد ہی گودھرا ریل حادثہ ہوا جس میں کئی ہندو کارسیوک
ہلاک ہوگئے۔ اس کے فوراً بعد فروری 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کے خلاف
فسادات بھڑک اٹھے۔ان فسادات میں حکومت کے مطابق 1000 سے زیادہ اور برطانوی
ہائی کمیشن کی ایک آزاد کمیٹی کے مطابق تقریبا 2000 افراد ہلاک ہوئے جن میں
زیادہ تر مسلمان تھے۔ مودی نے ان فسادات کو روکنا ضروری نہ سمجھا۔اس پر
انھیں اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی ناراضی کا سامنا بھی کرنا
پڑا۔تاہم اس وقت کے نائب وزیر اعظم ایڈوانی نے مودی کی حمایت کرکے انھیں
بچالیا۔ 2002 کے فسادات کے سبب ہی مودی حکومت میں وزیر کے عہدے پر رہنے
والی مایا کوڈنانی 28 سال کی سزا بھگت رہی ہیں۔ یہ بات بھی زبان زدعام ہے
کہ فسادات میں کردار کی وجہ سے ہی مودی نے کوڈنانی کو وزیر کے عہدے سے
نوازا تھا۔مودی نے کبھی فسادات کے بارے میں کوئی افسوس ظاہر کیا نہ ہی کسی
طرح کی معافی مانگی۔ مودی ہندوتوا کے کٹر نظریے کے علم بردار ہیں، قوم کا
وقار سر بلند رکھنے کے لیے وہ پاکستان اور چین کو سبق سکھانا چاہتے ہیں اور
کانگریس اور راہل گاندھی کو گھر بٹھانا ان کی اولین ترجیح ہے۔ وہ مسلمانوں
کو کتنا پسند کرتے ہیں، یہ تو معلوم نہیں لیکن ایک عوامی جلسے میں انہوں نے
ٹوپی پہننے سے ضرور صاف انکار کر دیا تھا۔ایسا پہلے بھی ہوا ہے۔ مغربی
ذرائع ابلاغ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ مودی کی سیاست نفرتوں کی بنیادپر قائم
ہے۔ یہ نفرت کبھی سیکولر سیاسی نظام کے خلاف نظر آئے گی تو کبھی بھارت کی
مذہبی اقلیتوں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف۔ گویا مودی کی سیاست کا محور
نفرت ہے جو ان کی ہر تقریر ،ہر بیان میں نظرآتی ہے۔ مسلمانوں سے ان کی نفرت
کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ ان کی موجودہ کابینہ میں کوئی مسلم
وزیر نہیں ہے اور ریاستی انتخابات میں کسی ایک مسلمان کو بھی ٹکٹ نہیں دیا
گیا۔اس تناظر میں بھارت میں یہ سوال بھی زیربحث ہے کہ کیا مودی وزیراعظم
بننے کے بعد پورے ملک میں ہندوتوا کا نظریہ نافذ کریں گے؟کیا نفرت کے یہ
شعلہ بھارت کو بھسم کرکے نہ رکھ دیں گے۔ |