11مئی 2014سے عمران خان نے سال گزشتہ کے انتخابات میں
دھاندلی کے خلاف عوامی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے ۔ملک کی حزب اقتدار حزب
اختلاف یعنی بالترتیب نواز لیگ اور پی پی پی نے اس کی سخت مخالفت کی ہے اس
طرح عمران خان اور دیگر سیاسی رہنماؤں کا وہ الزام جو وہ کبھی لگایا کرتے
تھے کہ یہ دونوں پارٹیاں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں کسی حد تک درست ثابت ہوتا
نظر آرہا ہے۔عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم نے ایک سال تک زبانی احتجاج کیا
،حکومت سے صرف چار سیٹوں پر انگو ٹھوں کے نشانات چیک کرنے کا مطالبہ کیا وہ
بات نہیں مانی گئی ہم عدالت میں بھی گئے وہاں سے بھی مایوسی ہوئی اب ہم
اپنا کیس لے کر عوام کے پاس جارہے ہیں۔ہمارا احتجاج جمہوریت کی مضبوطی کے
لیے ہے اگر احتجاج میں رخنہ ڈالا گیا تو حالات خراب ہوں گے ۔اس میں کوئی شک
نہیں کہ 11مئی2013کے انتخابات ایک طرح کا ڈھونگ تھا ۔ڈھونگ اس معنی میں کہ
پہلے تو الیکشن کمشنر کی حیثیت سے ایک ایسے فرد کا تقرر کیا گیا دیانتداری
اور غیر جانبداری کے حوالے سے جس کی شہرت کسی حد تک متفقہ تھی عمران خان
سمیت تمام سیاسی رہنماؤں نے ان کے تقرر کا خیر مقدم کیا تھا ،لیکن وہ جتنے
ایماندار تھے اتنے ہی کمزور ثابت ہوئے ۔ان کی ناک کے نیچے پورے ملک میں
پولنگ اسٹیشنوں پر عوامی رائے پر ڈاکے پڑتے رہے ،طاقتور لوگ ،کرپٹ
بیوروکریسی سے مل کر دھاندلیاں مچاتے رہے اور ہمارا الیکشن کمیشن سب اچھا
ہے کا راگ الاپتا رہا پنجاب میں 35پنکچر والی بات جس کا الزام تحریک انصاف
کی طرف سے مسلسل لگایا جارہا ہے اس کا جواب حکومت نے دیا ،نہ الیکشن کمیشن
نے اور نہ ہی نجم سیٹھی صاحب نے دیا جن پر براہ راست یہ الزام ہے کہ انھوں
نے مذکورہ نشستوں میں معمولی ردوبدل کر کے ن لیگ کے لیے اقتدار کا راستہ
صاف بنا دیا ۔اسی طرح کراچی کے انتخابات کے حوالے سے تو الیکشن والے دن خود
سکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ کراچی میں
جس طرح پولنگ بوتھوں پر قبضہ کرکے انتخابی نتائج تیار کیے گئے ہیں اس کے
نتیجے میں کراچی میں دوبارہ انتخاب کرائے جائیں گے ان کا یہ انٹرویو جیو پر
براہ راست لاکھوں لوگوں نے دیکھا تھا ۔پھر بعد کسی نامعلوم خفیہ دباؤ کے
تحت انتہائی خوف زدہ ماحول میں ہونے والے اس انتخابی نتائج کو نہ صرف
برقرار رکھا بلکہ کسی نشست پر یہ جائزہ بھی نہیں لیا گیا پورا ملک ،میڈیا
اور سیاسی جماعتیں جو دھاندلی کے حوالے سے چیخ رہی ہیں ان کی شکایات پر غور
کیا جائے ۔کراچی میں سیاسی جماعتوں نے ایک بھرپور مہم چلائی تھی کہ فوج کی
نگرانی میں انتخابات کرائے جائیں ایک مرحلہ پر یہ مطالبہ تسلیم بھی کرلیا
گیا تھا لیکن جو جماعتیں کراچی کو یرغمال بنائے ہوئے تھیں ،انھوں نے اس کی
شدید مخالفت کی ان کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے فوج کو پولنگ اسٹیشنوں سے
دور رکھنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں وہی ہوا جو کراچی میں اب تک کے
انتخابات میں ہوتا چلا آیا ہے کہ ایک تنظیم نے اسلحہ کے زور پر تمام پولنگ
اسٹیشنوں کو اپنے قبضے میں لے لیا اور مخالف امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کو
بھی مار کر بھگا دیا بالخصوص خواتین کے پولنگ بوتھوں پر ایک تنظیم کے
کارکنوں نے غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدترین دھاندلی کی اور ایک ایک
کارکن نے بیس بیس ووٹ ڈالے اسی طرح بازاروں اور چوکوں پر ووٹوں کی گڈیاں
لائی گئیں اور ٹھپے لگا لگا کر لوگ اندر جا کر ووٹ ڈالتے رہے۔پورے ملک میں
اگر دھاندلی والے انتخابات ہوئے تو کراچی میں انتخابات کے نام پر ڈاکا ڈالا
گیا جس میں الیکشن کمیشن ، نگراں صوبائی و فاقی حکومتیں اور انتظامیہ برابر
کی شریک تھیں ۔ایسا کیوں ہوا اس کی ایک مثال سے بات واضح ہو جائے گی ،لیاقت
آباد میں ایک فلیٹس کے احاطے میں جماعت اسلامی کے کارکنان انتخابی مہم چلا
رہے تھے وہ گھر گھر ہینڈبل تقسیم کر رہے تھے کہ ایک لسانی تنظیم کے کارکنوں
نے ان سے تمام پمفلٹس چھین کر انھیں کمپاؤنڈ سے باہر نکل جانے کا کہا جماعت
کے کارکنان جب باہر جانے لگے تو مین گیٹ پر اس لسانی تنظیم کے دو سینئر
کارکنان نے جماعت اسلامی کے کارکنوں سے پوچھا آپ کے ساتھ کیا ہوا ان کو
تفصیل بتائی گئی توانھوں نے اپنے ان کارکنان کو جنھوں نے پمفلٹس چھینا تھا
بلوایا انھیں برا بھلا کہا اور ان سے وہ پمفلٹس واپس دلائے اور جماعت
اسلامی کے کارکنان سے کہا کہ آپ اطمنان سے پورے پروجیکٹ کے تمام فلیٹوں میں
رابطہ کریں اور اسے تقسیم کریں کوئی کچھ نہیں کہہ گا ،اس وقت ان کے ساتھیوں
میں سے ایک کارکن نے ایک ایسی بات کہی جو ہمارے لیے بڑی الارمنگ تھی کہ
شاید بہت اونچی سطح پر کوئی سازش تیار کرلی گئی ہے اس نے کہا ہمیں کسی کو
انتخابی مہم سے روکنے کی کیا ضرورت ہے اصل فیصلہ تو کامیابی کا اس جماعت کا
ہو گا جس کے ووٹ ڈبے سے زیادہ نکلیں گے۔ اس وقت تک الیکشن کمیشن کی طرف سے
یہ واضح نہیں ہو سکا تھا کہ آیا انتخابات والے دن پولنگ اسٹیشنوں پر فوج
لگائی جائے گی یا نہیں اس جملے سے جس میں خوشی اور خود اعتمادی ان کے چہرے
سے جھلک رہی تھی ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ اب فوج نہیں آئے گی او ر ایسا لگتا
ہے کہ کوئی ہنگامہ نہ ہونے کی شرط پر متحدہ کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ
وہ اس دن پولنگ اسٹیشنوں پر حسب روایت اپنا کام کر سکتے ہیں انتظامیہ کچھ
نہیں کرے گی اور عملاَ پھر یہی ہوا ایک تجزے یہ بھی ان دنوں میں سامنے آیا
کہ چو نکہ 2014 میں امریکا کو افغانستان سے اپنی فوجیں واپس لے جانا ہے اس
لیے کراچی میں اگر دینی جماعتیں کامیاب ہو گئیں تو وہ اس اشو پر کوئی ٹف
ٹائم دے سکتیں ہیں اس لیے ایسے گروپ اور تنظیمیں کامیاب ہونے چاہیےں جن سے
وہ اپنے منصوبوں کو بہتر طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں آسانی سے مدد
لے سکیں۔بہر حال جو کچھ ہوا وہ کراچی والوں کے لیے اچھا نہیں ہوا ۔ہمیں اصل
میں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ 11مئی 2013کا یہ انتخابی سانحہ رونما
کیوں اور کیسے ہوا ۔11مئی کے علاوہ ہماری عدالتی اور انتخابی تاریخ میں
12مئی کی بھی بڑی اہمیت ہے اور یہ دو 12مئی ہیں ایک 12مئی2004اور
دوسری12مئی 2007پہلی والی بارہ مئی میں کراچی میں ضمنی انتخابات ہوئے جس
میں اس دن انتہائی غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے جماعت
اسلامی کے بارہ کارکنان کو شہید کر دیا اور اس طرح انھوں نے یہ انتخابی
معرکہ جیت لیا اس سلسلے میں انھیں پرویز مشرف کی مکمل حمایت حاصل تھی اور
پرویزی حکومت نے اپنے لاڈلوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہونے دی
پھر ایک مرحلے پر الیکشن کمیشن نے اس ضمنی انتخاب کے نتائج کو کا لعدم قرار
دے دیاتھا تو پرویزی حکومت کے لاڈلوں نے اتنا شور مچایا کہ حکومت وقت نے
سرکاری دباؤ ڈال کر اس فیصلے کو واپس کروادیا ۔اسی طرح 12مئی2007کا سانحہ
تو پاکستانی عوام کو ابھی تک یاد ہے جب چیف جسٹس سپریم کورٹ کراچی آرہے تھے
تو پرویز مشرف کہ کہنے پر یہاں کی صوبائی حکومت کی شریک پارٹی نے کنٹینرز
لگا کر نہ صرف ان کے استقبال کے لیے لوگوں کو جانے نہیں دیا بلکہ اس دن
انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پچاس سے زائد مختلف جماعتوں کے کارکنان
کو شہید کردیا اور پھر اسی دن رات کو پرویز مشرف نے اسلام آباد میں مکا
لہرا کر کہا کہ اسی طرح کچلے جاؤ گے ۔اگر 12مئی 2004کے ضمنی انتخابا ت والے
دن ہونے والی شہادتوں کے سلسلے میں حکومت وقت مجرموں کو گرفت میں لے کر ان
کے خلاف سخت کارروائی کرتی اور ان کو قرار واقعی سزائیں دی جاتیں تو
2008اور2013کے انتخابات پرامن اور کسی حد تک دھاندلی سے پاک ہوتے اور اسی
طرح 12مئی2007والے دن چیف جسٹس کی آمد پر 50سے زائد افراد کو ہلاک کرنے
والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے ان لوگوں کو بھی سخت سزائیں دی
جاتیں تو دہشت گردوں کے حوصلے اتنے بلند نہ ہوتے ۔ اس سانحہ پر ملک کے تمام
صحافی اور دانشوروں نے اور تمام اخبارات نے اپنے ادارتی نوٹ میں ایم کیو
ایم کو اس کا ذمہ دار ٹہرایا کہ یہ اس وقت حکومت سندھ کا اہم حصہ تھی ا ور
یہ کہ صوبائی وزارت داخلہ بھی اس کے پاس تھی ۔اس کے بعد مزیدظلم یہ ہوا کہ
جب سندھ ہائی کورٹ نے اس واقع کا ازخود نوٹس لیا اور اس پر جب عدالتی
کارروائی شروع ہوئی تو ایک تاریخ والے دن ایم کیو ایم نے پورے شہر سے
ہزاروں کو جمع کر کے سندھ ہائی کورٹ کے باہر اور اندر ایک خوف کی فضا پیدا
کی جس کی وجہ سے یہ کارروائی روک دی گئی اور آج تک یہ مسئلہ اعلیٰ عدلیہ کی
پنڈنگ فائلوں میں دبا ہوا ہے اگر نواز شریف صاحب چاہیں تو اس پر دوبارہ
کارروائی کا آغاز ہو سکتا ہے اور ایسا ہو جانا چاہیے تاکہ تاریخ کا ایک قرض
ادا ہوجائے ۔ |