وطنِ عزیز میں عجیب عجیب تماشے ہو تے رہتے ہیں ۔بلکہ یہاں
کی ہر چیز ہی عجیب ہے ، یہاں کے عوام بھی عجیب اور یہاں کے سیا ستدان بھی
عجیب،ہم نے تو سنا تھا کہ دنیا میں اگر کسی چیز کو ثبات حاصل ہے تو وہ
تغیّر یعنی تبدیلی ہے ۔تبدیلی کا وجود ہر زمانے ،ہر پل اور ہر وقت پایا جا
تا ہے مگر ایک یہ ہمارا بد قسمت ملک ہے جس میں باقی ہر چیز پا ئی جا تی ہے
مگر تبدیلی نہیں آ تی۔ہمارا جو حال 65سال پہلے تھا، وہی آج بھی ہے ۔اس وقت
پاکستانی عوام روٹی، روزگار اور چھت کے لئے ترس رہی تھی اور آ ج بھی عوام
دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کی جگہ کے لئے ترس رہی ہے۔اگر تبدیلی آ ئی ہے
تو سرمایہ داروں کے بنک بیلنس میں آ ئی ہے ۔ اگر پہلے وہ لاکھ پتّی تھے تو
آ ج وہ ارب پّتی ہیں۔ لفظ ’’ تبدیلی ‘‘ یا انقلاب پاکستانی عوام کے لئے ایک
بڑا پر کشش لفظ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو کو ئی تبدیلی یا انقلاب کا
نعرہ لگا تا ہے، عوام اس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں ۔ذولفقار علی بھٹو (مرحوم)
نے روٹی، کپڑا ، مکان اور تبدیلی کا نعرہ لگا یاتو عوام اس کے پیچھے چل پڑے،
نواز شریف نے ’’ جاگ پنجابی جاگ ‘‘ کا نعرہ لگایا تو پنجابیوں نے اس نعرہ
میں تبدیلی کی کشش محسوس کی اور پورا پنجاب اس کے پیچھے دوڑنے لگا۔ عمران
خان نے تبدیلی کا نعرہ لگا یا تو عوام اس کے سونامی میں شا مل ہو گئے،ڈاکٹر
طا ہر ا لقادری نے انقلاب کا نعرہء مستانہ بلند کیا ہے تو لوگ اس کے ارد
گرد جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔
گزشتہ اتوار کو پورے پاکستان میں ’تبدیلی‘ کی ہوا چل رہی تھی اگر ایک طرف
اسلام آبا د کے ڈی چوک میں تبدیلی کا نشان ، عمران خان تبدیلی لانے پر بضد
تھے تو دوسری طرف طا ہر ا لقادری ویڈیو لنک کے ذریعے انقلاب کا نعرہ مستانہ
بلند کر رہے تھے۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کا مطالبہ تھا کہ نیا
الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے،انگو ٹھوں کی تصدیق کی جائے،عوامی مینڈیٹ چوری
کرنے والوں کو سزا دی جائے،انتخابات با ئیو میٹرک سسٹم کے ذریعے کرائے جا
ئیں ، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے اور نگران حکومت میں غیر
جا نبدار لوگ شامل کئے جائیں ۔جبکہ دوسری طرف عوامی تحریک کے سر براہ ڈاکٹر
طا ہر ا لقادری ملک کے مختلف شہروں میں ویڈیو لنک کے ذریعے کارکنوں کے
اجتما عات سے خطاب کرتے ہو ئے فر ما رہے تھے کہ حکومت اور نظام کا خاتمہ
واجب ہو چکا ہے، انہوں نے کہا کہ گزشتہ 65سالوں میں اس ڈھونگی نظام سے عوام
کو کچھ نہیں مِلا۔مظلوم طبقہ آج بھی ظلم کی چکی میں پِس رہا ہے، ملک میں
جمہو ریت نام کی کو ئی چیز نہیں ہے۔پارلیمنٹ 75فی صد قر ضہ خوروں، ٹیکس
چوروں اور کرپٹ لو گوں سے بھری پڑی ہے۔
اگر ہم اتوار کے روز ہو نے والے جلسوں اور ان میں ہونے والے تقاریر کا
جائزہ لیں تو ان کے تقاریر کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان
کا کہنا بھی درست اور طا ہر ا لقادری کا کہنا بھی غلط نہیں مگر مسئلہ یہ ہے
کہ تبدیلی لایئں تو کیسے لا ئیں ؟ بیماری کا تو ہر کسی کو پتہ ہے مگر علاج
کیسے کیا جائے؟ کیا عوام نہیں جانتی کہ وطنِ عزیز میں انتخابات کے روز کیا
ہو تا ہے؟ کیا عوام کو اپنے لیڈروں کے کرپشن ، بد عنوانی کا علم نہیں ؟
یقینا ہے، اس لئے تو وہ تبدیلی چا ہتے ہیں اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں
کے پیچھے بھاگ دوڑتے ہیں، مگر تبدیلی کیسے آ ئیگی؟ کیا سیاستدانوں کا اسٹیج
پر آ کر مصنوعی جذباتی تقریروں سے تبدیلی آسکتی ہے؟ ہر گز نہیں ۔۔تبدیلی کے
لئے عوام کا اٹھنا لازمی ہے کیو نکہ عوام ہی طاقت کا سر چشمہ ہیں اور جب تک
عوام کے طاقت کو استعمال نہیں کیا جاتا تب تک تبدیلی کا نعرہ ایک سراب ہے،
دھوکہ ہے، فریب ہے۔ لہذا ہم کہ سکتے ہیں کہ عمران خان اور طا ہر ا لقادری
دونوں نے جو کچھ کہا ہے، ٹھیک ہی کہا ہے مگر تبدیلی ان کے کہنے سے نہیں ،
عوام کے اٹھنے سے آئے گی۔۔۔۔۔۔۔ |