کچھ سالوں قبل عرب لیگ 22ملکوں کی تنظیم تھی ،سوڈان کے دو
ٹکڑے ہوجانے کے بعد دونوں ہی عرب لیگ کے ممبر بن گئے ،حال ہی میں مغربی
افریقہ کے ایک ملک گیمبیا نے ملک میں سرکاری ودفتری طور پر نافذ انگریزی
زبان کے بجائے عربی کو سرکاری و دفتری اور تعلیمی زبان کا درجہ دے کر عرب
لیگ میں رکنیت کی درخواست دیدی ،رشین فیڈریشن میں ایک اندرونی خود مختار
جمہوریہ ’’چیچنیا‘‘ نے بھی چیچن زبان کے بعد عربی اور روسی کوملک میں سکینڈ
لینگویجز کی حیثیت دی ہے ،یہی مقام عربی کو ایران میں بھی حاصل ہے ،پاکستان
کے دستور میں بھی عربی کو فروغ دینے اور اپنانے کی بات موجود ہے، یوں عرب
ملکوں کی تعداد اس وقت25 کے لگ بھگ ہے ،عرب لیگ ،خلیج تعاون کونسل ،او آئی
سی کے علاوہ اقوام متحدہ میں بھی عربی کو باقاعدہ مرکزی درجہ حاصل ہے ۔
اب ظاہر سی بات ہے کہ پاکستان کی طرح مشرق ومغرب اور شمال وجنوب کے ہر ملک
میں ان عرب ملکوں کے سفارت خانے ،کونسل خانے سفارتی مشنز، کلچرل سینٹرز،
خانہائے فرہنگ اور عربک سکولز ہیں ،عربک کالجز اور یونیو رسٹیز بھی دنیا کے
چپے چپے پر موجودہیں ،پھر اسلامک سکولز ،کالجز،یونیورسٹیز اور دینی مدارس
وجامعات کا نیٹ ورک بھی مسلم معاشروں میں اکثریتی واقلیتی سب ہی ممالک میں
موجود ہے ، مساجد اور ان سے ملحقہ مکاتب کا سسٹم بھی مسلمانوں کے تہذ یبی
ورثے کا حصہ ہے ،ساؤتھ افریقہ ،انگلینڈ،موزمبیق ،موریشس ،کینیا، فیجی آئی
لینڈاور جنوبی امریکہ کے مسلمانوں میں مکتب سسٹم وہاں کی میمن وگجراتی
برادریوں کی وجہ سے اتنا مضبوط ہے کہ گذشتہ سالوں اسکے کارپردازان ہمارے
یہاں اور ہندوستان وبنگلہ دیش میں بھی اسی نہج پر اسے قائم کرنے اور چلانے
کیلئے متعدد شخصیات واداروں کو ٹریننگ دے چکے ہیں ،انٹرنیٹ کی غیبی دنیا
نیز ریڈیو اور ٹیلی ویژن تہذیبوں کے اتار چڑھاؤ اور فکر ونظر کو نئی جہتیں
دینے میں بہت بڑا کردار اور رول پلے کررہے ہیں ،دنیا کی تمدنی ،تعلیمی ،اور
ٹیکنیکل ترقی بھی عروج پر ہے ۔
ایسے میں یکم مئی کو لندن میں نواز شریف اور داؤد کیمرون کا یہ بیان کہ’’
برطانیہ پاکستان میں انگریزی کے فروغ کے لئے اساتذہ ٹریننگ اور سکولنگ سسٹم
میں بھاری فنڈنگ کرے گا‘‘، تاکہ انگریزی اور مغربی کلچر کی جڑیں یہاں جو
پہلے سے خاصے مستحکم اور پائیدارہیں،مزید طاقتور بن جائیں،انگریز جہاں بھی
گئے، وہاں اپنی تہذیب وتمدن اور زبان وبیان کے اثرات اور ان مٹ نقوش چھوڑ
گئے ،صرف یہ نہیں، بلکہ بعد میں اسے پروان چڑھنے ،نشوونماپانے اور ترقی
پذیر رہنے میں آج بھی اپنا تن من دہن صرف کررہے ہیں، ایسے ممالک جو
جغرافیائی طورپران سے دور دراز اور مذہبی ونظریاتی مخالف ہیں ،ان میں بھی
اپنی زبان وتہذیب راسخ کررہے ہیں ۔جبکہ عرب دنیا اپنے اڑوس پڑوس اور مذہبی
حوالے سے برادراسلامی ممالک میں بھی اپنی زبان اور تہذیب کے لئے وہ تگ ودو
نہیں کررہی ہے ،جو تہذیبوں کے تصادم کے اس دورمیں ان کو کرنی چاہئے ،نتیجہ
یہ کہ بڑے بڑے مسلم مفکرین بے چارے عربی نہ جاننے کی وجہ سے یا قرآن وحدیث
اورفکر اسلامی کی تشکیلِ جدید کے متعلق اس دور میں اپنی رائے کا اظہار نہیں
کرتے ،یا نہیں کرسکتے اور جو معدودے چندکرتے ہیں ،وہ مذہبی طبقے کی تیروں
کا ہدف بن جاتے ہیں ، ملا ومسٹر لڑائی شروع ہوجاتی ہے ، یہ جدید مفکرین
،قدیم پر اسلامی ٹھیکہ داری کا الزام لگاتے ہیں ،وہ قدیم ان جدید پر عربی
علوم میں گہرائی وگیرائی نہ ہونے کی وجہ سے بے جادخل در معقولات کا الزام
لگاتے ہیں ، یوں یہ خلیج ان میں روز افزوں گہری اور وسیع تر ہورہی ہے ۔
استعماری ممالک چھوٹے ملکوں میں سیاسی پارٹیاں ،میڈیا گروپز اور قد آور
شخصیات کو مختلف طریقوں سے فنڈنگ کرکے انہیں خرید لیتے ہیں ، اپنی عطا کرد
ہ فنڈنگ کی نگرانی بھی کرتے ہیں ، پھر مختلف حیلے بہانوں سے ان ملکوں سے
اپنا مال دو چند اور بعض مرتبہ کئی گنا زیادہ وصول کرتے ہیں ،ان کے مقابلے
میں عرب سفارتکار کیا کرتے ہیں ، ہمیں کوئی نہیں پتہ ،ان کا کیا کردار ہے ،
ہمیں نہیں معلوم ،ان کے نام کیا ہیں ، کسی کو نہیں پتہ ،چنانچہ غیر مسلم
ممالک تو چھوڑ یں،برادر اسلامی ممالک میں وہ اجنبی ہیں ، ان کے بچے اجنبی
ہیں ،ان کا لب ولہجہ نا مانوس ہے،ان کی تہذیب وتمد ن اجنبی ہیں ۔
اگر برطانیہ کا وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ
انگریزی کے فروغ کے لئے کسی معاہدے پر دستخط کرسکتے ہیں ،تویہ عرب سفراء
یہاں کیا بیچنے آئے ہیں ، کیا یہ متمول اور قرآن وحدیث کے حامل ملکوں کے
سینکڑوں سفراء اپنے ملک اور سفارت کے ملک میں تقریب کا اتنا بھی کردار ادا
نہیں کرسکتے ،کہ مسلم برادریوں کے وہ لوگ جو ان سے محبت رکھتے ہیں ،ان کی
زبان سے محبت رکھتے ہیں ، ان کے عقائد ونظریات ،تہذیب وتمدن اور وضع قطع پر
فریفتہ ہیں ، ان میں اور اپنے میں اجنبیت کے بجائے الفت پیدا کریں ، اپنا
مذہبی ،اخلاقی اور علاقائی وجغرافیائی اثر ورسوخ استعمال کریں ،بطورِ لطیفہ
نہیں متاسفانہ عرض ہے کہ یہاں ایک امام صاحب کو ایمۂ حرمین شریفین کی اتباع
میں دورانِ نماز رونے کا شوق چڑھا،تو وہ عربی سے ناواقفیت کی وجہ سے
تخویف،ترہیب یاترغیب کی آیات کے بجائے،طہارت کے متعلقہ احکام میں سے ایک
آیت ’’ویسٔلونک عن المحیض‘‘پر دھاڑے مارمارکررونے لگا،اور اس کو بار
باردھراتا رہا،آپ خود ہی اندازہ لگائیے،ہم اگر مزید عرض کرینگے ،تو شاید
شکایت ہی ہوگی۔
کیا یہ سفراء اپنا ایک سفارتی غیر اعلانیہ اتحاد قائم نہیں کرسکتے ، تاکہ
صرف مسلم ملک ہی کیا ،غیر مسلم ممالک میں بھی مختلف فورمز پر اپنے مسائل کے
حل کیلئے کسی ملک کو قائل کرسکیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا فرض منصبی
بھی ہے ، اخلاقی اور مذہبی بھی ۔اگر اغیار ہماری شخصیات ،میڈیا اور جماعتوں
واداروں کو خرید سکتے ہیں یا گھیر سکتے ہیں، تو ہمارے یہ اپنے کہاں سوئے
ہوتے ہیں ،ان کو علاقائی نزاعات ،مذہبی فرقہ واریت ،نسلی امتیازات سے بالا
بالا انتہائی دور اندیشی ،وسعت فکری،حقائق وتاریخ کے تناظر میں ایک ایسا
ماحول بنا نے کی کاوشیں کرنی چاہیئں کہ اقوام متحدہ میں مستقل نشست ہو ،شام
وعراق ہوں ، فلسطین ولبنان ہوں، کشمیر ،افغانستان ،چیچنیاہوں، ان کے مرضی
کے بغیر ان پر کوئی اپنی خود ساختہ رائے نہ تھوپ سکے ۔
نیز پاکستانیوں اور عامۃ المسلین کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیامیں
سیاسی، تعلیمی، تجارتی، سماجی،اقتصادی،انقلابی،جنگی ودفاعی، معاشی،
معاشرتی،ثقافتی،تہذیبی ،تخلیقی اور ٹیکنیکلی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں،پورا
عالم گلوبلائزیشن کی طرف گامزن ہے،جومذکورہ تمام میں ترقی کی علامت ہے،اس
گلوبل دور میں پاکستانی یادیگرمسلم قومیں تنِ تنہااگربڑی اوراستعماری اقوام
کے ساتھ دوڑ میں شریک رہیں،تو سبقت وترقی کے بجائے تخلف ،دقیانوسیت،رجعت
پسندی اور غلامی کی شکار ہوجائنگی،چنانچہ انہیں ہمہ گیراسلامی تہذیب وتمدن
اورعالمی عربی زبان وادب کو اپناکردوڑکے میدان میں آنا چاہئے،تاکہ
استقلال،استقامت ،مضبوطی اورتندہی سے مسلح ہوکروہ یہ دوڑ جیت سکیں۔افسوس سے
کہنا پڑتاہے کہ ہمارے یہاں بزعمِ خویش ترقی پسند کہلانی والی پارٹیاں
،تنظیمیں اور شخصیات جتنی بھی ہیں ،سب اغیار کی ایجنٹ،تنگ نظر،کم ظرف،رجعت
پسند اور دقیانوس ہیں،کسی بھی حوالے سے وہ ترقی پسند نہیں ہیں،بس خرد کا
نام جنوں رکھدیا،جنوں کاخرد کے مصداق ہیں۔
سرے دست اور فوری طور پر’’ کیمرون نواز انگریزی ترویجی معاہدے‘‘ کی طرح
انہیں پاکستان میں سرکاری سطح پر ایک ایسے ہی معاہدے کی ضرورت ہے ، بنے
بنائے عربی کے ماحول کو اپنے حق میں لینے کے چانسز ہیں ، انگریزی ایک
ٹیکنیکل زبان ہے ، اسے فروغ ملنا چاہیئے ،لیکن عربی کی جڑیں صرف امت مسلمہ
ہی میں نہیں، پوری انسانیت میں مضبوط ہیں ، پھر اس حوالے سے عرب دنیا میں
اور عالمی سطح پر کئی جلیل القدر ادارے عربی زبان وادب کو ہر سطح پر مستحکم
اور عام وتام کرنے کیلئے انتھک جدو جہد کررہے ہیں ،پاکستان عالم اسلام کا
زریں ملک ہے ، ہر حوالے سے پاکستان نمایاں ہے ، یہاں موجود سفراء کو
پاکستان کی اس اہمیت وحیثیت کا ادراک ہونا لازمی ہے ، یہاں قومی سطح کے
عربی اخبارات ،عالمی سطح کے عربک میگزین ،نیوز اینڈ ویوز اور انٹر ٹینمنٹ
کے عربی ریڈیو اور ٹی وی چینلز، عربک لینگویج سینٹرز کا ہونا از حد ضروری
ہے، گویاعرب سفراء اگر ہمیں وفادار دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں دلدار بھی
بننا پڑے گا۔ |