سندھ کے پارلیمانی نقارخانہ میں ملاکھڑا دنگل

جستجو / حالاتِ حاضرہ

سندھ اسمبلی میں پارلیمانی ملاکھڑا دنگل

پاکستان پیپلزپارٹی کا عوامی مزاج نظم و ضبط کو خاطر میں نہیں لاتا ۔۔۔ ارباب غلام رحیم ، سابق وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ بدسلوکی پی پی پی کے سابقہ مخالفین، اور موجودہ اتحادیوں کے لیے بھی ایک سخت پیغام ہے؛ چین کا اہم دورہ اور نواز لیگ کی' نانارے نانا'

محمد بن قاسم

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

'ملاکھڑا ' ایک مقبول عوامی سندھی کشتی ہے، جو جاپانی سومو کشتی کی طرح کھڑے کھڑے حریف کو گراکر چت کرنے کی کوشش پر مشتمل ہوتی ہے۔ ملاکھڑائی پہلوان سندھ بھرمیں میلوں ٹھیلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ، اور اس کی داد پاتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا یہ مزاج اپنے قیام کی ابتداءسے ہی ایسا رہا ہے کہ عوام کے جذبات سے کھیلا جائے۔ اور ان میں ایک ہیجان برپا کرکے انہیں تگنی کا ناچ نچایا جائے۔ اور ہمارے عوام بھی ایسے موقعوں کی تاک میں رہتے ہیں۔ جہاں موقع ملا، اور کسی نے تحریک پہنچائی، یہ ہوئے اپنے آپے سے باہر۔ چنانچہ، سندھ اسمبلی کے گزشتہ دو اجلاسوں میں جو کچھ ہوا، وہ پارلیمانی روایات اور اخلاقیات کے دامن پر ایک بدنما داغ ہے۔ اسمبلی ہال گویا کہ کوئی قانون ساز مقدس ادارہ نہیں، بلکہ فری اسٹائل کشتی کا ایک بڑا اکھاڑا بن گیا ۔ اس میں اپنے حریف پہلوان کو کچھ اس طرح شکست دے کر نکال پھینکا گیا، کہ ریفری اپنا منہ ہی دیکھتا رہ گیا۔ اور یہ ملاکھڑا صرف ہال تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ ایک اسٹریٹ فائٹ میں بھی تبدیل ہوگیا، جب کہ ہال سے باہر اس ایوانِ اقتدار کی غلام گردشوں میں اور اس کے باہر بھی ڈاکٹر غلام ارباب رحیم، سابق وزیرِ اعلیٰ، اور حالیہ نو منتخب رکن اسمبلی کی خاطر تواضع طعنوں، تشنوں، گھونسوں، جوتوں ، اور سنگ باری سے کی گئی، یہاں تک کہ انہیں اسپیکرچیمبریا اس کے نزدیک کسی کمرہ میں پناہ لینے پر بھی نہ چھوڑاگیا۔ اس قبیح فعل کے مرتکب افراد بڑے فخر سے اپنے اس کارنامہِ پر اظہار مسرّت کرتے اور میڈیا کیمروں پر ریکارڈ کرواتے رہے۔ یہ محسوس ہوتا تھا کہ ان جہلاءکو قانون شکنی پر نہ تو کوئی خوف ہے، اور نہ ہی وقتی جذبات کے ریلے میں بہہ جانے پر کوئی ندامت۔ یہ سب وہ لوگ تھے جو فخر سے بے نظیر کی تصویر سینوں پر سجائے ہوئے اورگردنوں میں وزیٹرپاس بھی لٹکائے ہوئے تھے۔ چنانچہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ افراد پی پی پی کے جیالے کارکنان کے علاہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ انہی غلام گردشوں میں سنیچر کے روز حلف برداری کے سیشن میں بھی ارباب غلام رحیم کے ساتھ تشدد کیا گیا تھا، جس کے بعد وہ حلف اٹھائے بغیر واپس جانے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس روز ایوان میں قیمتی اثاثہ جات کی توڑ پھوڑ بھی کی گئی تھی۔ اگر اسی وقت ذمّہ دار مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کرلی جاتی تو پیر ۷ اپریل کو ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہوتا۔ ان واقعات کی وجہ سے ہی متحدہ نے اپنی دلی شکایات کا پنڈورا بکس بھی کھول دیا، جس سے یہ پتہ چلا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر متحدہ کے نوڈیرو حاضری دینے والے وفد کے ساتھ کچھ سردمہری کا سلوک روا رکھاگیا، اور پیر ۷ اپریل کو متحدہ کی منتخب سندھ اسمبلی کی خواتین ارکان کے ساتھ بھی داخلی دروازے پر ناروا، اور غیرشائستہ سلوک کیا گیا۔ ۰۹ پر آصف زرداری اور ان کے اعلیٰ سطحی وفد کے حالیہ تاریخی استقبال کے بعد اس قسم کے معاملات کی توقّع نہیں کی جارہی تھی، چنانچہ ان تمام واقعات کے تسلسل نے تمام تجزیہ کاروں اور محب وطن پاکستانیوں کو ایک تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ پاکستان کے خوش آمدیدی اور آمدنی کے دروازہِ Gateway to Pakistan and its Revenuesکراچی اور سندھ کا امن خطرہِ میں پڑتا جارہاہے۔

یہ وہ سندھ اسمبلی کی عمارت اور تاریخی جگہ ہے، جہاں بانی ءپاکستان، بابائے قوم، جناب محمّد علی جناح، نے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ وائے افسوس، کہ وہ ہی در و دیوار آج پاکستان کی خالق سیاسی جماعت، مسلم لیگ ، کے ایک کارکن، سابق وزیراعلیٰ اور نو منتخب رکنِ اسمبلی کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کو خاموشی اور ایک سکتہِ کے عالم میں دیکھ رہے تھے۔ چونکہ سیاسی صف بندیاں کچھ اس طرح ہوگئی ہیں کہ سندھ میں، اور دیگر صوبوں میں بھی، اپوزیشن سرے سے موجود ہی نہیں۔ چنانچہ، کوئی بھی ایسا مزاحمتی کردار صرف اور صرف اخلاقی اور اسلامی تعلیمات کے تحت ہی ادا کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اس تناظر میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے اس رنجیدہ واقعہ پر اظہار افسوس اور مذمّت کرتے ہوئے ایوان کا بائیکاٹ کردینا، اور بعد میں دیگر اقلیتی تعداد رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کا اس میں ساتھ دینا ایک مناسب قدم ہے۔ خاص طور پر متحدہ کے لیے یہ آنکھیں کھول دینے والا واقعہ ہے۔ کیونکہ، متحدہ اگر پی پی پی کے ساتھ غیر مشروط تعاون کا اعلان نہ کرچکی ہوتی ، تو غالباً اس کے ساتھ بھی وہ ہی سلوک ہوتا، جو ارباب غلام رحیم کے ساتھ کیا گیا۔ درحقیقت پی پی پی کے سخت مزاج جیالوں کی جانب سے یہ واقعہ کل کے مخالفین اور آج کے حمایتیوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ اگر ہچر مچی کی تو یہ ہی انجام ہوگا۔ اب نئے اسپیکر کا کردار نبھانے کا اعزاز پانے والے نثار کھوڑو اور ان کے احبابِ اسمبلی کا گزشتہ دور میں جو کردار رہا وہ سب کے سامنے ہے۔ تقریباً ہر اسمبلی سیشن میں بے انتہا شوروغوغا کیا گیا، اور اسمبلی کی کارروائی میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ چنانچہ اب ان سے یہ استدعا اور امید کی جاتی ہے کہ اب وہ ایوان کے تقدس کو بحال کرنے میں اپنی تمام تر اہلیت ثابت کریں، اور ایوان کے اصل کام، یعنی ضروری قانون سازی پر فوری توجہّ دیں۔

ڈاکٹر ارباب رحیم کے ساتھ سندھ اسمبلی ہال میں کی جانے والی غنڈہ گردی کے وقت اگر تمام ممبر اسمبلی اپنی نشستوں سے کھڑے ہوکر اس پر صرف زبانی کلامی احتجاج ہی کردیتے تو وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے پڑوسی کے حقوق کی نہ صرف ادائیگی کردیتے، بلکہ اس کے ذریعہ وہ مظلوم رکنِ اسمبلی کو مزید دشواریوں اور بدتمیزیوں سے بھی بچالیتے۔ مگر جب ان سب نے ایسا نہ کیا، تو اس سے یہ محسوس ہوا کہ شاید اس طرح در پردہ ان سب نے بھی ان غنڈوں کی ہمّت افزائی کی۔ اگرچہ پی پی پی کے چند نو منتخب ارکانِ اسمبلی نے واقعہ کے فوری بعد زیرِ لب، نیم دلانہ، اورمدّہم انداز میں ہی سہی، میڈیا کے سامنے ان واقعات کی مذمّت کی، مگر انہوں نے ارباب غلام رحیم کے ساتھ کوئی اظہارِ ہمدردی نہ کیا، اور نہ ہی غنڈہ گردی کرنے والوں کو قرارِ واقعی سزا دینے کا اعلان ہی کیا۔ تاہم متحدہ کی جانب سے اجلاس کا بائیکاٹ کیے جانے کے بعد انہیں اس معاملہ کی سنجیدگی کا احساس ہوا، اور رات کو پی پی پی کے پارلیمانی لیڈر مظہرالحق نے اس بارے میں تفصیلی بیان دیا۔ تاہم انہوں نے تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی اس واقعہ کا نزلہ پی پی پی کے شہید بھٹّو دھڑے پر گراکر اپنے آپ کو بے گناہ ظاہر کردیا، اور دوسروں کے ساتھ ساتھ کراچی پولیس اور نگراں حکومت اور سابق اسپیکر کو بھی ایک طرح سے ان واقعات کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ ارباب غلام رحیم نے اپنے دورِ حکومت میں ایک صا ف شفّاف کام کرنے والے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے شہرت پائی۔ ان کا روّیہ صنفِ نازک کی جانب کچھ زیادہ ہمدردانہ نہیں کہا جاتا۔ جدید دور میں اس قسم کے روّیہ کو شاید تعصّب پر مبنی بھی کہا جاسکتا ہے (Gender Bias) ۔ مگر ان کا اپنے دورِ حکومت میں ایک سب سے بڑا کارنامہ ایک لینڈ مافیا کا خاتمہ کرنا تھا، جس کا سرغنہ اس وقت ان کی اپنی صفوں میں ہی موجود تھا۔ کسی ایسے اقدام کے لیے بڑی جراءت اور بڑے کردار کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان میں بدرجہ ءاتم موجود ہے۔ ان کی نماز، روزہ، عمروں، حج وغیرہ سے محسوس یہ ہی ہوتا تھا کہ وہ ایک خداترس اور متقی انسان ہیں۔ اور یہ کہ غیب کا علم تو بس خدا ہی کو ہے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ایک طاقت ور سیاسی حمایتی اور ساتھی متحدہ سے بھی کئی معاملات میں اختلاف کیا، اور یہاں تک کہ ایوان صدر کو مداخلت کرکے ان کے درمیان مصالحت کی تجدید کرانا پڑی۔

بہتر یہ ہوگا کہ آصف زرداری، اور وزیراعظم گیلانی بھی ان افسوسناک واقعات کا سخت نوٹس لیں، اور اپنی پارٹی کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے قانون شکن' کارکنان' کو لگام دیں اور مناسب سزا بھی دیں۔ ورنہ اس قسم کے' نادان دوست' کارکنان پارٹی کو نہ صرف بدنام کرنے کا باعث بنیں گے، بلکہ پارٹی کا ارتکازِ توجّہ بھی بکھر جائے گا، اور ضروری کام دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ ساتھ ساتھ نئی نئی منکشف دوستی مع متحدہ بھی کھٹائی میں پڑ جائے گی۔ سندھ اسمبلی میں جس غیرسنجیدہ اور غیراخلاقی طوراطوار کا مظاہرہ کیا گیا، ان سے خوف زدہ ہوکر پنجاب اسمبلی نے 'احتیاط علاج سے بہترہے' کے مصداق عام مہمانوں کا داخلہ ہی بند کردیا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی غلط ریت کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔ بہتر ہوگا کہ غیرقانونی حرکات کرنے والوں کو قاعدے قوانین پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے، اور پنجاب میں ایک اچھی قابلِ تقلیدمثال قائم کردی جائے۔ تاہم ، یہ تمام امور آسان نہیں، اور بقول جگرمرادآبادی:

یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے، اور ڈوب کے جانا ہے

پی پی پی کو اپنے ایک اور نئے اور نادان دوست ، مسلم لیگ نواز دھڑہ، سے بھی کچھ شکایات اس ابتدائی رومانوی دور اور ماہِ عسل میں پیداہوگئی ہیں۔ ان میں اعتزاز احسن صاحب اور ان کے ساتھیوں کا وہ جارحانہ رویہّ ہے، جو نواز لیگ کے موقف کی حمایت میں ہے، اور جس کی بنیاد پر وہ لوگ اپنی ہی حکومت کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ دوسری جانب ایوانِ صدر میں مختلف تقریبات کے دوران ایک مرتبہ پھر وزراءکرام ذاتی انتقامی جذبات پر قابو پاکر ایک قومی کردار ادا نہ کرسکے۔ اور حُبّ ِ علی سے زیادہ بُغضِ معاویہ کا اظہار کرتے رہے۔ اس کا سب سے زیادہ قابلِ اعتراض اور قابلِ مذمّت یہ امر ہے کہ صدرِ پاکستان کے ایک اہم دورہ ءچین کے دوران ان کے ساتھ سفر کرنے اور قومی خدمات انجام دینے سے نئے وزیرِ خزانہ نے حیلہ بہانہ سے صاف انکار کردیا ہے۔ یہ دورہ کئی جہات سے اہم ترین ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ نئی حکومت کے کارپردازوں کے لیے چین کے اعلیٰ ترین رہنماﺅں سے ملاقات اور تبادلہ ءخیالات کا یہ ایک سریع اور مناسب موقع ہے۔ اس دورہ میں صدرِ پاکستان سے چین پہلی مرتبہ ایک خصوصی اخلاقی مدد کا تقاضہ کررہا ہے۔ اور وہ ہے شمال مغربی صوبہ سنکیانگ میں بڑھتی ہوئی چینی مسلمانوں کی شورش کا پرامن سدّباب۔ واضح رہے کہ چین کے اس چھہ روزہ سفر کے دوران پرویز مشرف چینی مسلمانوں کے رہنماﺅں سے ایک خصوصی ملاقات کریں گے۔ چین کو عالمی اولمپکس کھیلوں کے موقع پر تبّت میں برپا ہونے والی اچانک اور حیران کن بدامنی کا بھی سامنا ہے۔ اس امر کا امکان ہے کہ چین کے خلاف یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس میں بھارت ، امریکہ دونوں ہی ملوّث ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب ابھی پاکستانی بحریہ کے لیے تیارکردہ ایک موءثر بحری جنگی جہاز کی حوالگی کے کاغذات کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی ہے، اور چین کا شکریہ اس جہاز اور پاکستانی ائیر فورس کے لیے مشترکہ جدوجہد سے بنائے گئے لڑاکا ہوائی جہازوں کے لیے بھی ادا کرنا ہے۔ چین کا چشمہ ایٹمی پراجیکٹ کا تعاون، گوادر پورٹ میں تعاون، اور کئی دیگر کھلے اور خفیہ معاہدوں کی رو سے ان کے ساتھ ہر قسم کا بہترین اخلاقی روّیہ رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ اس سب تناظر میں ہمارے نئے وزیرِ خزانہ کا اس قومی خدمت سے اس حساس موقع پر انکار مستقبل میں بھوت بن کر ڈراوا دیتا رہے گا۔ ابھی بھی وقت ہے کہ وہ عقل کے ناخن لیں، اور قومی مفادات کو اپنی اور اپنے لیڈروں کی ذاتی انتقامی کارروائیوں کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ چینی میزبان، اپنی باہیں پھیلائے، چین کے جنوب مشرقی جزیرہ ہنان کے ایک خوبصورت ترین ساحلی شہر اور سیاحتی مقام سنیعا Sanya کی خلیج ِ یے لانگ میں اپنے پاکستانی دوستوں کے منتظر ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں اب مسلم اور ایک ایٹمی قوت ہونا بھی، ناقابل معافی جرم قرار دے دیا گیا ہے، کسی بھی ایسے دیرینہ اورواحد مخلص دوست اور آزمائے ہوئے حمایتی کو ناراض کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا، اور پاکستانی قوم کبھی بھی اس کے ذمہّ داروں کو معاف نہیں کرے گی۔

پیارے قارئین، اب الوداعی خیال آرائی یہ کہ، موجودہ سیاسی صورتِ حال میں کسی کی بھی اقتدار کے نشہ میں چور ہوجانےکی صورت میں اس کی پکڑ اور رہنمائی کرنے کے لیے کوئی موءثر حزب اختلاف تو رہی نہیں، چنانچہ یہ بھاری ذمہّ داری پاکستانی ادیبوں، اہلِ دانش، صحافیوں، اور اسی قبیل کے دیگر فلسفیوں کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ اور اس امر کا احتمال ہے کہ ایسے واعظوں کو سخت مقامات سے گزرنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے جری افراد کا حامی و ناصر ہو۔ اٰمین۔
٭
جستجو پبلشرز اور ریسرچرز
پیر، ۷ اپریل ۸۰۰۲ئ

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
دیکھیے اب ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں


(c)2008 A syndicated essay by Justuju Research and Publishing - All Rights Reserved
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Research and Publishing Agency, hereby grant a permission for and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license non commercial agreement. This piece must be published "as is" to qualify for this license.

Hashim Syed Mohammad bin Qasim
Researcher, Writer, Sociologist, ICT Consultant
JUSTUJU (The QUEST) Syndication, Research and Publishing, Pakistan
Current Affairs Analyst: Radio Channel Islam International, Johannesburg, South Africa
Mohammad bin Qasim
About the Author: Mohammad bin Qasim Read More Articles by Mohammad bin Qasim: 4 Articles with 7258 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.