16مئی کا سورج کو ن سا پیغام لے کر آئے گا؟

۱۶/ویں لوک سبھا انتخابات تمام مراحل میں اپنی تکمیل کوپہونچ چکے ہیں اور عوام کو اب ان کے نتائج کابے صبری کیسا تھ انتظارہے کہ اس مہابھارت میں جیت کس کی ہوتی ہے؟ کس کے سر وزارت عظمیٰ کا تاج سجتاہے؟ کیا سیکولرزم کی جیت ہوتی ہے یا پھر ہندوتواکی کشتی میں سوار مودی اپنی نیّا کو ساحل سے ہم کنارکرتا ہے؟ نتا ئج حیران کن بھی ہو سکتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھارت کی جمہوریت فتح و ظفر کا بطل عظیم ہو گی تاہم اس ذیل میں یہ امر ملحوظ رکھنا ہو گا کہ مسلمانوں کو کیا ملے گا؟ اور یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا مستقبل میں بھی اسی طرح اس جمہوریت کے تحت مسلمانوں کا معاشرتی ،سیاسی ،سماجی اور دیگر امور کے ضمن میں استحصال ہوتا رہے گا ؟ جیساکہ آزادی کے بعد سے مستقل ہوتا آرہاہے۔
انتخابی وعدوں کا اگر ہم جائز ہ لیں تو تمام سیاسی پارٹیوں نے وعدہ خام خام کے تمام پہلووں کو سیرا ب کردیا اور کسی بھی پہلو کو تشنہ نہ چھوڑاحتی کہ مو دی نے بھی اعلان کردیا کہ جب تک مسلمان ترقیات کے دھارے میں شامل نہ ہو نگے ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ملک میں خو شحالی اسی وقت پھریرا بلند کر پائے گی جب مسلمانوں کے اندر تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت ہو گی۔مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن مجید اور دوسر ے ہاتھ میں لیپ ٹاپ ہو نا لازمی ہے۔ الغرض! جب کھلے فرقہ پرست ہی ہمار ے سلگتے ہو ئے مسائل پر سیر حاصل گفتگو کریں تو نام نہاد سیکولر جماعتوں کا کیا کہنا و ہ تو ہمارے مسائل سے ہم زاد کی طرح آشناہیں۔ یہ تمام وعدے اس لیے ظہور پذیر ہوئے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اس شق سے بخوبی واقف ہیں کہ مسلم ووٹ اپنی ایک طاقت رکھتاہے اور اس کا ایک فیصلہ کن اقدام بھی ہواکرتا ہے ۔اس عام انتخابات کے انتخابی تشہیر میں جہاں سیکولرزم اور فرقہ پرستی باہم متصادم رہی وہ قابل بیان نہیں ہر ذی عقل و شعور اس سے واقف ہے۔ ایک طرف جہاں بی جے پی اپنے معروف ایجنڈے کے ذریعہ لو گوں میں تفریق و تقسیم کی تخم ریزی کرتی رہی تو وہیں نام نہاد سیکولر جماعت مسلمانوں کو اس سے متنبہ کرکے اور جمہوریت شکن بیانات کی مدافعت و تردید کرکے مسلم ووٹ کی تحصیل میں سرگرداں رہی اور ستم تو یہ کہہ لیں کہ ملکی اور قومی مسائل اس شور و غوغا میں یکسر مفقود ہوکر رہ گئے کیونکہ جس امر کیلئے انتخابات ہواکرتے ہیں وہی ندارد تھا اور اس کی جگہ غیر سماجی ،غیرآئینی اور غیر جمہوری عناصر متحرک تھے۔ اس سے یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقتدار سازی جمہوریت کے تحفظ و پاسداری کیلئے نہیں ہو رہی ہے بلکہ ایک جنون ہے جو اس کیلئے سرگرداں اور خاک بہ سر ہے۔ آخر یہ تو کسی بھی اصول کی رو سے درست نہیں بلکہ یو ں کہہ لیں کہ یہ جمہوریت کے سرتاسر منافی ہے لیکن جب مذاق ہی بگڑجائے تو دہن کا کیاقصو رہے اورجب مے ہی اپنافطری نشہ فراموش کردے تو ساغر و پیمانہ کی کیا خطاہے ؟یہ تو ۱۶/مئی کی شام میں ہی واضح ہو گا کہ عوام کا معتدبہ طبقہ کس چیز کو بھارت کی عظیم اور قابل فخر جمہوریت کیلئے مو زوں خیال کرتا ہے کہ جس کے باعث یہ صد رشک جمہوریت مودی کی نجاست سے آلودہ نہ ہو اگربالفرض سیکولرزم کی شکست ہو ئی تو کیا ہندوتوا کے نشہ کفرسے مغلوب فرقہ پرست اپنے آقاؤں کیساتھ مل کر جمہوریت کا جغرافیہ بدل دیں گے اور جس جمہوریت پر ہم سبھی نازاں ہیں اس جمہوریت کا آفتاب خاک ہندوتوا میں غروب ہو جائے گا ؟یہ سوالات اپنی جگہ مسلّم ہیں لیکن ہمیں اس سے خوف زدہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے بلکہ بلند حو صلہ کیساتھ اس سے مقابلہ کیلئے کمر بستہ ہوناہو گا ہاں یہ درست ہے کہ ہندوتوا کے مریض اور عشاق نامراد اپنی ناکامی کے رنج و غم میں تمام اخلاقیات سے عاری ہوکر قعر مذلت میں جاپڑیں جیساکہ ابھی گذشتہ دنوں میرٹھ اور مظفر نگراور دیگر علاقوں میں شیطنت برپاکرنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی لیکن ان کو یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ جب تک مسلمان رہیں گے جمہوریت کا دفاع کیاجاتا رہے گا اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر اپنی جانوں کا بھی نذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہ کریں گے اور ہم نے جو قربانی مظفرنگراور آسام میں دی ہے اس کا خون بھی ابھی خشک نہ ہواہوگا ۔
آخر ہر ایک ہندوستانی متفکر ہے کہ ۱۶/مئی کی صبح کو ن سا پیغام لے کر آتی ہے اس صبح کا سورج کیا جمہوریت و اتحاد کے افق پر طلوع ہوگا اورفرقہ پرستی کی تاریکی میں غروب ہو جائے گایاپھرجمہوریت کے ہی مغرب میں غروب ہو گا واقعی یہ لمحہ فکریہ کہ ہندو ستانی سیاست کامنظر نامہ کیاہوتاہے اور یہ بھی امر مسلم ہے کہ وہی حضرات متفکر ہیں جو سنجیدہ مزاج اورخالصتاًہندوستانیت اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں لیکن جو اس اصول سے بغاو ت و انحراف کرکے امردیگر کو اپناایمان خیال کرتے ہیں وہ خوش ہیں او ران کو اس کا بالکل یقین ہے کہ فرضی لہر اپناکام پورا کرچکی ہے اور اسی فرضی لہر کی تجدیددرتجدید اور فروغ کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیاہندوستان ہندی روزنامہ کی اس خبر کو سچ مانیں تو حیرانی ہو گی ذیل میں انتخابی تشہیر کے اخراجات کی تفصیل پیش کی جارہی ہے
ّّذرائع
اخراجات

ہورڈنگ ۲۵۰۰
ٹیلی ویزن ۱۰۰۰
اخبارا ت ۵۰۰
میگزین ۱۵۰
)ٹی ٹونٹی ورلڈکپ ۱۵۰
ریڈیواور آن لائن ۳۵
آخری وقت میں دئیے گئے اشتہارات ۵۰۰
نو ٹ : یہ اخراجات کروڑوں کے حساب سے ہیں۔

اس طرح کے پانچ ہزا رکروڑکے اخراجات کی وجہ سے اگر وہ خوش فہمی میں ہیں تو کو ئی حیرت کی بات نہیں لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے جو اس کی تو ضیح کرتی ہے کہ لہر لہر کی نیّا میں سوار ہو کر سمندر کی سطح زیریں میں غرق ہو گئی ہے اورملک کا الیکٹرانک میڈیا جس طر ح سے مو دی سرکار کی پیشین گوئی کررہاہے اس یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جمہوریت کے تحفظ کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے بلکہ جمہوریت کے شفاف آئینے میں فرقہ پرستی کی مکروہ شکل ڈھالنے کیلئے کو شاں ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی پیشین گوئی اسی وقت درست ہونگی جب مذہبی جنونیوں کے ساتھ حقیقی شعور و فہم کے حاملین بھی مودی لہر کی طغیانی وتموج میں خود کوسپرد کردیں لیکن اطمینان کی بات ہے کہ جو چشم بینا سے حقیقت کے مدرک و تسلیم کنندہ ہیں ان کا تو یہی خیال ہے کہ اگر مودی کے ہاتھوں میں اقتدار جاتا ہے تو ہندو ستان کی تصویر مختلف ہی نہیں ہو گی بلکہ جمہوریت اورہندو ستانیت کے لیے بھی باعث شرم و ذلت ہو گی لہذا انھو ں نے بیدار مغزی کا ثبوت دیا ہے دو سری سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ اردو میڈیاجو ایک طرح سے مسلمانوں کی ترجمانی کا کام کیا کرتا ہے وہ اپنے تجارتی مقاصد کیلئے اپنی خودی اور حمیت کا بھی سوداکرڈالا۔ ایم جے اکبر اور شاہد صدیقی جیسے لوگ بھی مودی اور بی جے پی کے دامن میں گو شہ عافیت ڈھونڈنے لگیں او ر جس طرح سے اپنی بے وقعتی اورچند کھوٹے سکوں کے عوض اپنی قیمت کااظہارکیا وہ بہت ہی مایوس کن ہے کبھی تو فیق ایزدی ہوئی تو اس ذیل میں بھی گفتگو کی جائے گی لہذا ان امور کے پیش نظر فرقہ پرست خوش ہیں اور ان کا یقین اپنے کمال کو پہونچ گیا ہے کہ مودی کے ہاتھ میں ہی اقتدار ہوگا ۔

اس عام انتخابات میں سیکولرزم اور جمہوریت کا ہندو توا او رمودیتواسے براہ راست مقابلہ ہوا ہے اور سیکولرزم نے بڑی دلیری اور بے جگری کے ساتھ اس کا مقابلہ بھی کیا ہے کہ اگر اس بار ذرا سی چوک ہوئی تو صدیوں تک کیلئے جمہوریت کا استحصال کیا جاتارہے گا یہ تمام کشاکش اپنی جگہ آخر کسی نے مسلم مسائل کے تئیں اپنی سیا سی سنجیدگی کے علاو ہ کسی دوسری طرح کی سنجیدگی بھی دکھائی ہے کہ مسلمانوں کے بھی ایسے مسائل ہیں جو تشنہ ہیں اور پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون ہمارے لیے سنجیدہ اور متفکر ہو ہر شخص اور ہر ایک پارٹی کو ہمارے ووٹ سے عشق ہوتا ہے اور جب معشوق سے وصل ہوجائے تو کون نامراد عاشق ایسا بھی ہوگا کہ سامان وصل کی قدر کرلے ۔کانگریس خود کو سیکولراور مسلمانو ں کی خیرخواہ تصور کرتی ہے کتنے ایسے مسائل ہیں جن کو حل کیا ہو بابری مسجد کافیصلہ اگر آستھا کی رو سے ہو تو پھر عدلیہ ،جمہوریت ،اور قانون چہ معنی دارد ؟؟قانون کا احترام ہر ایک شہری پر لازم ہے آخر یہ کیسی زیادتی ہے کہ احترام کی تادیت مسلمانوں پرجبراًتھونپ دی جاتی ہے اور فرقہ پرستو ں کو کھلی چھوٹ دی دی جاتی ہے ۔مسلم نو جوانو ں کو بے بنیاد الزام کے تحت سلاخوں کے پیچھے کردیا جاتا ہے اور خدا جانے کتنے نوجوان زنداں میں ایڑیاں رگڑرگڑکر اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کردیا ہے خالد ،مجاہد اور فہیم کے ناحق خون کاجواب تو ابھی باقی ہے اور کانگریس اس سے راہ فرار اختیارکررہی ہے اگر ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے تو پھر اس ذیل میں مثبت اقدام سے گریز پائی کیو ں ہے ؟اسیمانند کے اقبالیہ بیا ن کے بعد قانون ،عدالت اور ان کے معاونین کیو نکر چپ شاہ کاروزہ رکھ لیا ہے لیکن افسوس!تختہ مشق کیلئے تو مسلمان ہی ہیں کہ جن کا ہر ایک فعل مشکوک ہے۔ متذکرہ بالا چند خطوط کے پیش نظر کانگریس کادعوی کس حد تک درست ہے کہ وہ سیکولر ہے ؟

عام انتخابات کے نتائج خواہ خوش کن ہوں یا پھر مایوس کن اقتدار کی کرسی پر جوبھی قابض ہو مسلم مسائل کے تئیں مثبت پیش رفت ایک خوا ب ہی ہے کانگریس سے جو امیدیں تھیں وہ تو قصہ پارینہ ہو گئیں فرقہ پرست جماعت سے کیا امیدیں کی جاسکتی ہیں وہ بھی اس صورتحال میں جب کہ مودی جیسا مسلمانوں کا قاتل اعظم وزیراعظم ہو گا ،مسلمانوں کی بیجا گرفتاریاں ہو تی رہیں گی ،جمہوری حقوق کے اتلاف کا سلسلہ درازتر ہوتا رہے گااورہم ایک حرف شکوہ اپنی زبان پر لانا گناہ خیال کرتے رہیں گے گویا جس چیز کیلئے ہم نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا اس میں ہم کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ صبح آزادی سے اب تک حرماں نصیبی سایہ کی طرح ساتھ ساتھ چل رہی ہے نہ تو ہمیں کو ئی مخلص قائد مل سکا جس سے ازسر نو عہد رفتہ کا احیاء تو نہیں کم از کم یاد ہی تازہ ہوجائے اور نہ ہمارے ووٹ سے سیاسی قوت کو مستحکم کرنے والی جماعت ہی کچھ حقیقت پسندانہ اقدام کیلئے تیا رہوتی ہے آخر یہ بے توجہی اور بے التفاتی کیو نکر واقع ہوئی؟وجہ صاف اور مطلع بے غبار ہے کہ ہم نے سیاسی قوت کے اجتماع اور آپسی اتحاد و اتفاق جیسی گراں مایہ وراثت سے پہلو بدل کر شاہد و شراب کے عیش و نشاط میں گم ہو گئے اور یہ بھی بھول گئے کہ یہ وہی ہندوستان ہے جہاں ہماری شان و شوکت عظمت و سطوت کا سکہ قرنوں قائم رہا ہے اوریہ وہی سرزمین ہے جہاں ہم نے اپنی بادشاہت کی ایک تاریخ مرتب کی ہے،واقعی شاہد وشراب سے الفت اور رشتہ داری ایک ایسی چیز ہے جس سے ہر ایک غم کو فراموش کردیاجاتاہے رندازل اور فطری سر مستوں نے کل اپنی بے خودی میں اعلان کیا تھا آج کی قوم مسلم بھی بے تابانہ اوررندانہ وہی اعلان کررہی ہے کہ ؂ ہم تو شاہد وشراب والے ہیں۔
Iftikhar Rehmani
About the Author: Iftikhar Rehmani Read More Articles by Iftikhar Rehmani: 35 Articles with 23811 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.